ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اب ویانا مذاکرات میں چند مسائل باقی ہیں جو ہماری سرخ لکیروں میں سے چند ہیں اور ہمیں اب تک امریکی فریق کیجانب سے ضمانت دینے کے معاملے میں ایک قابل بھروسہ حکمت عملی نظر نہیں آئی ہے۔
ان خیالات کا اظہار"حسین امیر عبداللہیان" نے میونیخ سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر سی این این نیوز چینل سے انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے ویانا مذاکرات سے متعلق ایران کے نقطہ نظر کے بارے میں کہا ہے کہ ہم ویانا میں ہونے والی بات چیت کے نتائج کے بارے میں پر امید ہیں؛ لیکن ان کے وہ حصہ جو اسلامی جمہوریہ ایران سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ جناب رئیسی کی حکومت ویانا میں ایک اچھے اور فوری معاہدے تک پہنچنے کے لیے مضبوط ارادہ رکھتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے حالیہ ہفتوں میں ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کی ہے اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم کبھی بھی اچھے معاہدے تک پہنچنے کے اتنے قریب نہیں تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہاس اچھے معاہدے کے قریب جانے کے لیے ایرانی وفد نے بہت زیادہ حکمت عملی اور لچک کا مظاہرہ کیا ہے اب امریکہ اور مغرب کی باری ہے کہ وہ حکمت عملی اور لچک کا مظاہرہ کریں۔
*** مغربی فریقین کی حکمت عملی اور لچک سے چند گھنٹوں میں مذاکرات نتیجے تک پہنچ جائیں گے
حسین امیر عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی فریقین کی حکمت عملی اور لچک سے چند گھنٹوں میں مذاکرات نتیجے تک پہنچ جائیں گے
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مسٹر بائیڈن ہمیں یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ثالثوں کے ذریعے نیک نیتی اپناتے ہیں۔ دوسری طرف، مسٹر رابرت مالی مذاکرات کی میز پر لچک دکھا رہے ہیں۔ یہ اس وقت ہوا جب امریکیوں نے جوہری معاہدے میں خلل ڈالا، اس لیے اب انہیں اس کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی اور ان مذاکرات کے لیے ضروری لچک دکھانی ہوگی تاکہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچ سکے۔
انہوں نے ویانا مذاکرات کے دوران امریکہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی توقعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کئی مسائل باقی ہیں جو ہماری سرخ لکیروں میں شامل ہیں۔ ضمانتوں کے معاملے پر ہمیں ابھی تک امریکہ کی طرف سے کوئی عملی اور قابل اعتماد اقدام نہیں ملا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جوہری اور پابندیاں اٹھانے کے میدان میں تمام مسائل کو ایک پیکج کے طور پر حل کیا جانا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے میں تمام فریقین کی واپسی پر یہ قابل قبول نہیں ہے کہ ایک طرف ہم بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سخت تصدیقی نظام کو قبول کریں اور دوسری طرف ہمارے کچھ مسائل آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے ایجنڈے میں شامل ہو۔
امیر عبداللہان نے کہا کہ ہم نے 2015 میں دوسرے فریقوں کے ساتھ ایک سیاسی معاہدے میں تحفظات کے تمام مسائل حل کیے، اور اب ہم اسی ماڈل کو نافذ کر سکتے ہیں، اور میں نے یہ بات جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ویانا میں ہونے والے مذاکرات، امریکہ اور مغرب نے ان نازک حالات میں حقیقت پسندانہ انداز میں کام نہیں کیا تو وہ یقینی طور پر مذاکرات کی ممکنہ ناکامی کے ذمہ دار ہوں گے۔
***امریکیوں کو اپنا طرز عمل بدلنا ہوگا
امیر عبداللہیان نے ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات نہ ہونے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے اور امریکیوں کے درمیان بد اعتمادی کی اونچی دیوار کھڑی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ ہفتوں میں ہمیں مختلف چینلز سے پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ امریکی حکام اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ یہاں تک کہ میں میونیخ سیکیورٹی کانفرنس کے لیے جرمنی روانہ ہونے سے چند روز قبل، مجھے پیغامات موصول ہوئے کہ کیا آپ کانفرنس کے موقع پر امریکی حکام سے بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں نے جواب میں واضح طور پر کہا کہ امریکیوں کو اپنا طرز عمل بدلنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مسٹر بائیڈن نیک نیتی کی بات نہیں کر سکتے اور صرف پچھلے چند مہینوں میں، ایران میں قانونی اور حقیقی افراد کے خلاف تین مختلف عرصوں میں نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر بائیڈن ٹرمپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پابندیاں لگانے کا طرز عمل اپنایا ہے حالانکہ وہ ایران جوہری معاہدے میں واپس آنے کی بات بھی کرتے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم بات چیت اور رویے میں اس تضاد کو نہیں سمجھ سکتے۔ امریکی حکام خیر سگالی کی بات کرتے ہیں اور پھر ہم پر نئی پابندیاں لگاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ان کے رویے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا حق ہے۔
***رابرت مالی کو ایرانی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ سے مذاکرات میں دلچسبی
انہوں نے کہا کہ ویانا میں مسٹر رابرت مالی ایرانی چیف مذاکرات کار سے بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اب یہ بات چیت مسٹر مورا کے ذریعے نان پیپیرز کے تبادلے کے ذریعے کی جاتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے ستمبر میں نیویارک میں اعلان کیا کہ مسٹر بائیڈن کے ارادے اچھے ہیں اور وہ سنجیدہ ہیں۔ لہذا وہ حکمت عملی دیکھائیں اور مثال کے طور پر ایران کے کچھ اثاثے آزاد کردیں۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم مسٹر بائیڈن سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ وہ ہمیں امریکی بینکوں سے رقم یا قرضہ دیں بلکہ خیر سگالی کی علامت کے طور پر ایرانی عوام کی رقم جاری کریں۔ لیکن اب تک ہمیں بتایا گیا ہے کہ براہ راست مذاکرات کے بعد ہی کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیر سگالی کا اظہار صرف الفاظ میں کیا جا سکتا ہے۔
***قیدیوں کا تبادلہ ہمارے لیئے مکمل طور پر ایک انسان دوستانہ مسئلہ ہے
انہوں نے اس ملک کے قیدیوں میں سے ایک کی رہائی کے بدلے تہران کو برطانوی قرض کی ادائیگی کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ مکمل طور پر انسانی مسئلہ ہے۔ گزشتہ سال ویانا مذاکرات سے الگ الگ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا تھا۔
یہاں تک کہ آپ نے جس شخص کا نام لیا اس کا نام بھی قیدیوں کے تبادلے کی فہرست میں تھا۔ بدقسمتی سے امریکیوں نے آخری وقت میں اعلان کیا کہ تمام معاملات کو ایک مکمل پیکج میں دیکھا جانا ہوگا، لہذا کوئی تبادلہ نہیں ہوا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ شاید امریکی ویانا مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو شامل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور ویانا مذاکرات کے علاوہ، اس پر ایک فوری اقدام کے طور پر توجہ دینی ہوگی۔