ایران کے صدر مملکت نے کہا ہے کہ واگزار ہونے والی رقم خرچ کرنے کا اختیار حکومت ایران کے پاس ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں زیر حراست ایرانیوں کو ناحق حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔
امریکی ٹیلی ویژن چینل NBC کو انیٹرویو دیتے ہوئے صدر ایران سید ابراہیم رئيسی نے، دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، منجمد مالی اثاثوں کی واگزاری ا ور اس کے استعمال کے حق، پابندیوں کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات، گزشتہ سال ہونے وا لے ہنگاموں کے محرکات اور امریکہ اور بعض مغربی ملکوں کی جانب سے صنفی مسائل کو دباؤ ڈالنے کی غرض سے استعمال کرنے، جنگ یوکرین کے آغاز اور اس کی طوالت کے بارے میں تہران کے نظریات، علاقے کے ملکوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی لاحاصل صیہونی کوششوں، ایران کی شمولیت کے بعد بریکس کی طاقت میں اضافے اور خطے میں ایران کی منفرد جغرافیائی پوزیشن کے حوالے سے تہران کے موقف پر روشنی ڈالی۔
صدر کے انٹرویو کا متن مندرجہ ذیل ہے:
رپورٹر: سلام اور اس انٹرویو کے لیے وقت دینے پر آپ کا شکریہ، میں اپنے سوالات کا آغاز ان 5 قیدیوں کے حوالے سے کرنا چاہوں گا جن کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ براہ کرم ہمیں ان کے موجودہ حالات کے بارے میں معلومات دیں اور انہیں کب رہا کیا جائے گا۔
صدرمملکت : بسم اللہ الرحمن الرحیم، ہم انسانی بنیادوں پر ان قیدیوں کا تبادلہ کر رہے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو ایرانی امریکہ میں قید ہیں ان کو بلاجواز حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے اور اسی لیے ہم نے ان کی رہائی کے لیے اقدامات انجام دیئے ہیں۔ ایران میں قید امریکیوں کے ساتھ امریکہ میں قید ایرانیوں کا تبادلہ ایک ساتھ اور انسانی بینادوں پر انجام پائے گا اور اس کا نظام الاوقات طے کیا جارہا ہے۔ یہ ( امریکی) قیدی پوری طرح صحیح سلامت ہیں۔ تازہ ترین معلومات سے ان کی تندرستی کی نشاندھی ہوتی ہے۔ بینادی طور پر ہمارے ہاں موجود قیدیوں کی صورتحال امریکہ کی جیلوں میں بند قیدیوں کی صورتحال سے بدرجہ ھا بہتر ہے۔ ہمیں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق امریکہ میں بند قیدیون کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے، لیکن یہاں ایران میں قیدیوں کی صورتحال انتہائي مطلوب ہے اور پوری طرح صحت مند اور تندرست ہیں۔
ہم نے جو فالو اپ کیا ہے اس کے مطابق ان (امریکی قیدیوں) پر فوجداری مقدمات ہیں اور ان کے خلاف عدالتی کارروائي مکمل ہوچکی ہے، یعنی وہ عدالتی تحقیقات اور تفتیش کے مراحل طے کرچکے ہیں اور ان میں سے بعض کو سزائيں بھی سنائی جا چکی ہیں ان کے خلاف فیصلوں کی توثیق اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے بھی کی جاچکی ہے۔ یہ جو کچھ امریکی کہتے ہیں کہ ان لوگوں پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اسے ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا، عدالتی تحقیقات اور کارروائی کے دوران ان لوگوں پر الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔
رپورٹر: آپ سمجھتے ہیں کہ یہ رقم (جنوبی کوریا میں ایران کے بلاک شدہ زرمبادلہ کے وسائل) کو ایران سے غلط طریقے سے روکا گیا تھا، لیکن اب طے پایا ہے کہ یہ رقم انسانی مقاصد اور خوراک اور ادویات کے لیے استعمال کی جائے گی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو اسے خرچ کرنے کا حق ہے؟ آپ کی اپنی صوابدید پر یہ رقم خرچ کرسکتے ہیں؟
صدرمملکت: ہم شروع ہی سے اس بات کی کوشش کرتے آئے ہیں کہ ایران کا وہ پیسہ جو امریکیوں نے ظالمانہ شکل میں دیگر ملکوں کے بینکوں میں منجمد کر رکھا ہے اسے وطن واپس لایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کا یہ عمل شروع سے ہی ایک ظالمانہ فعل تھا جس سے ایرانی عوام پر دباؤ تھا۔
ہم پابندیوں کو ایک حربہ اور فوجی ہتھکنڈہ سمجھتے ہیں جسے قوموں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، ایران کے اثاثوں پر کسی بھی طرح کی روک لگانا بھی عوام کے خلاف ظلم اور اقتصادی جنگ کی ایک شکل ہے۔ اس لیے ہم شروع ہی سے ایران کے منجمد اثاثوں کی واگزاری کی کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ یہ رقوم جلد از جلد ایران کے اکاؤنٹ میں واپس آ سکیں۔ فطری طور پر یہ اسلامی جمہوریہ کا حق تھا اور ہے اور اس ناانصافی کا جلد از جلد ازالہ ہونا چاہیے۔
قیدیوں کے معاملے کے بارے میں، میں نے یہ بھی کہا کہ ان پر الزامات ثاب ہوچکے ہیں۔ جب عدالتی کارروائی ابتدائی مراحل میں ہوتی ہے اور ججوں کے لیے ملزم پر لگآئے گئے الزامات ثابت ہونا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق ان لوگوں کے بارے میں پراسیکیوٹر آفس اور عدالت تک مختلف قانونی مراحل پورے ہوچکے ہیں اور فرد جرم ثابت ہوچکی ہے۔
ہماری رائے میں امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مخاصمانہ اور ظالمانہ اقدامات سے باز آجائے اور جلد از جلد اسلامی جمہوریہ اور ایران کے عوام کے پیسے واپس لوٹائے، اثاثوں کی واپسی ان مسائل میں سے ایک ہے جنہیں بہت پہلے ہی حل ہوجانا چاہیے تھا۔
یہ رقم اسلامی جمہوریہ ایران کی ہے اور فطری طور پر اس کا استعمال بھی موجودہ ضروریات کے مطابق کیا جائے گا۔ اب یہ رقم کیسے خرچ کی جائے گی فطری طور پر یہ حق ایران کو حاصل ہے، یہ رقم ایرانی عوام اور حکومت کی ہے، اس رقم کی تفویض اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے پاس ہوگی۔
"انسانی ہمدردی" کا مطلب ہے جس چیز کی آج ہمارے عوام کو ضرورت ہے، حکومت اس رقم کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرے گي اور ایرانی عوام کی ضروریات کیا ہیں اس کا تعین حکومت ایران کرے گی۔
رپورٹر: جناب صدر، صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوا، کیا آپ ٹرمپ کے ساتھ دوبارہ بیٹھ کر نئے جوہری معاہدے کے بارے میں بات کرنے کو تیار ہیں؟
صدرمملکت: ہم نے ہمیشہ پابندیاں ہٹوانے کی کوشش کی اور مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی۔ اس معاملے میں جو ہم نے دیکھا وہ یہ تھا کہ معاہدے کی پہلی خلاف ورزی امریکیوں نے کی اور یورپیوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، جس فریق نے اپنی تمام ذمہ داریوں کو پورا کیا وہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے ایک بار نہیں بلکہ 15 بار اعلان کیا ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں پرامن ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں کوئی انحراف نہیں ہے۔
میرا سوال یہ ہے اور یہ سوال امریکی عوام کو بھی یہ سوال اپنی حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ آپ ایران میں جوہری سرگرمیوں کی پرامن نوعیت کو دیکھتے ہوئے بھی اس ملک کے خلاف ظالمانہ پابندیاں کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں اور آپ نے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے اس کی خلاف ورزی کیوں کی؟ کیا ایک ہی معاہدے کے دو فریق یا فریقین کو معاہدے کا وفادار نہیں رہنا چاہیے؟ امریکی عوام اور آپ میڈیا والوں کو امریکی حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ آپ نے معاہدے کی خلاف ورزی کیوں کی؟ کیا ایک فریق کو یکطرفہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا حق ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی حکومت اقتدار میں آئے اور کہے کہ ہم طے شدہ معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر رہے ہیں۔
چنانچہ امریکی پہلے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں اور نہ صرف اس بار بلکہ انہوں نے کئی بار معاہدہ توڑا۔ ایرانی عوام کو یہ حق دیں کہ وہ امریکیوں پر اعتبار نہ کریں۔
یورپی ممالک نے اپنا عہد کیوں پورا نہیں کیا؟ یہ وہ سوال ہے جو آپ میڈیا والوں کو یورپ سے پوچھنا چاہیے۔ کیا وہ اس معاہدے میں شامل نہیں تھے، انہوں نے اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں پوری کیں؟
امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں ایران نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔ یہ میں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ(IAEA) ایجنسی کہہ رہی ہے۔ یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ ایران نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں اور اگر وعدے پورے کیے ہیں تو پابندیاں کیوں جاری ہیں اور ان پابندیوں میں اضافہ کیوں کیا جارہا ہے؟.
جہاں تک پابندیوں کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات کا سوال ہے تو ہم نے کبھی بھی مذاکرات کی میز ترک نہیں کی، کیونکہ ہماری بات حق تھی اور ہمارے مطالبات معقول تھے۔ یہ صرف ہم ہی نہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا موقف معقول ہے، بلکہ یورپی یونین نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ ایران کے مطالبات مکمل طور پر معقول ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ مسلسل معاہدے کی خلاف ورزی اور ظالمانہ پابندیوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پابندیاں اور ایرانی عوام کے خلاف ظلم کا سلسلہ فوری طور پر ختم ہونا چاہیے، یہاں تک کہ خوراک اور ادویات کے معاملے میں بھی جس کا آپ نے بھی ذکر کیا، ایم ایس کی دواؤں تک پر بھی پابندی لگا رکھی جس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا بچے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔
کورونا پر قابو پانے اور ویکسینیشن کے حوالے سے دنیا میں ہر ایک ملک نے دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کی، امریکہ نے ہمیں ویکسین کے حصول میں بھی سہولت فراہم کرنے اور حالات سازگار بنانے سے انکار کردیا۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ملاقات کے دوران، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے مجھ سے کہا کہ میں ایران کو کورونا ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے پابندیاں ہٹانے کے بارے میں کچھ نہ کر سکنے پر معذرت خواہ ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم اس وقت 6 قسم کی کورونا ویکسین تیار کر رہے ہیں اور ہم ویکسین امپورٹر سے ایکسپورٹر بن گئے ہیں اور اللہ کا شکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور نوجوان ایرانی سائنسدان کی کوششوں سے ہمارے لوگوں کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، لیکن امریکہ سے سوال ہے کہ جب دنیا کورونا کے پھیلاؤ سے نمٹنے اور ویکسینیشن کے لیے ہر ایک دوسرے کی مدد کر رہی تھی انہوں نے ایران کے لیے ویکسین کی سپلائی میں روکاوٹیں کیوں ڈالیں؟ امریکہ اپنے عوام اور دنیا کو اس کا کیا جواب دے گا۔
ہمیں جے سی پی اے او کے نام سے ہونے والے معاہدے کے اثرات اب تک دکھائی نہیں دیئے، تو نئے معاہدے کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔ امریکہ نے JCPOA میں کیے گئے معاہدے کی کس حد تک پاسداری کی ہے، کہ مستقبل کے معاہدے کو پورا کرے گا؟
امریکہ بحالی اعتماد کے اقدامات کرے اور پابندیاں اور دھمکیاں بند کرے اور جان لے کہ پابندیوں نے صرف مسائل پیدا کیے ہیں اور امریکہ اپنے مقاصد تک پہنچانے میں ناکام رہا ہے اور یہ حربہ مستقبل میں بھی کام نہیں آئے گا۔
ایران نے پابندیوں اور دھمکیوں سے ملک کی ترقی کے مواقع پیدا کیے ہیں اور آپ جو اس وقت ایران میں ہیں ہماری پیشرفت کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایران نے پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود سائنس اور ٹیکنالوجی کے پارکوں کے قیام اور مختلف شعبوں میں ترقی کی ہے اور پابندیاں ایرانی قوم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کرسکیں۔
ہم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایران کی حق بات کو سنا جائے اور ظالمانہ پابندیاں ہٹائی جائیں۔ اور ایسا یقینا امریکیوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں ہوسکتا ہے۔
رپورٹر: ان دنوں مس مہسا امینی کی موت کی تقریباً پہلی برسی ہے، جنہیں اخلاقی پولیس نے ان کے لباس کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ آپ کے خیال میں اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کے بارے میں ایران کے ردعمل اور متعدد مظاہرین اور صحافیوں کے قتل اور گرفتاری کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے دعوؤں کے بارے میں آپ دنیا کو کیا پیغام دینا چا ہیں گے۔
صدر: یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو ہوا اور آپ مختلف امریکی شہروں میں اس طرز کے واقعات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں جو مردوں اور عورتوں، سیاہ فاموں اور دوسرے رنگ کے لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ امریکہ اور یورپی شہروں میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کا حکومت نے فوری نوٹس لیا تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جاسکے۔ میں نے ذاتی طور پر محترمہ امینی کے اہل خانہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس معاملے کی ضرور پیروی کی جائے گی، اور اس معاملے میں تحقیقی اور عدالتی کارروائی انجام بھی دی گئی۔
ان کے میڈیکل معاملات سے عوام کو ٹھیک ٹھیک آگاہ کیا گيا، اور میڈیکل رپورٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ اور اس کے بعد کے عدالتی اقدامات سے لوگوں اور ان (مہسا امینی) کے اہل خانہ کو آگا کیا گيا، لیکن بات یہ ہے کہ مغرب والوں اور بعض یورپی ممالک اور امریکہ اس لہر پر سوار ہوگئے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ درحقیقت انہوں نے اس معاملے کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک منصوبے کے طور پر استعمال کیا اور ہائيبرڈ وار شروع کردی یعنی اسلامی جمہوریہ کے خلاف سیاسی، اقتصادی، ابلاغیاتی اور نفسیاتی جنگ کا آغاز کردیا۔
اس معاملے میں امریکیوں اور ان مغربی ممالک کا مسئلہ محترمہ امینی کا یا انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں تھا اور بالکل ایسے ہی جیسے جوہری معاملے میں ان کا مسئلہ ایران کی سرگرمیاں نہیں بلکہ انہوں نے محسوس کیا کہ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنی دشمنی کے اظہار کا موقع مل گيا ہے۔
لہذا ایران نے مذاکرات ترک نہیں کیے تھے بلکہ یہ امریکہ اور مغربی ممالک تھے جنہوں نے ایران میں ہونے والے ہنگاموں سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ایران بھی دوسرے ممالک کی طرح ہے جن کے لیے وہ منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں ہنگامے کراتے رہے ہیں، ایسے ممالک کی مثالیں آپ خطے میں دیکھ سکتے ہیں، یہ امریکیوں کا طریقہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کی آڑ میں ملکوں کو تباہ کرنے آتے ہیں۔
کیا وہ (امریکہ اور مغربی ممالک) واقعی انسانوں کے ہمدرد ہیں؟ آپ امریکہ میں ایک میڈیا کی حیثیت سے، امریکہ کی سڑکوں پرنکل کر دیکھیں، امریکی عوام جو میری بات سن رہے ہیں، ان واقعات کو دیکھیں جو امریکہ اور انگلینڈ میں ہو رہے ہیں اور ان دنوں فرانس میں ہو رہے ہیں! دیکھیں فرانس میں مظاہرین کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟ وہ اپنے ہاں سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کیسے نمٹ رہے ہیں؟ اورپھر دیکھیں ایران نے کیا کیا ہے؟
بلاشبہ ان لوگوں کا معاملہ جنہوں نے قتل و غارت گری کی اور وہ غیر ملکیوں کےآلہ کار بنے ہوتے تھے ، احتجاج کرنے والوں سے بالکل الگ ہے۔
خوش قسمتی سے، ایران کے عوام نے فسادات کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا۔ یعنی عوام نے ساتھ نہیں دیا۔ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہمارے ہاں بھی کچھ لوگوں نے احتجاج کیا اور دنیا میں کہیں بھی ایسا ہوسکتا ہے، ایران نے انہیں مظاہرین کی حثیت سے برداشت کیا اور پھر رہبر انقلاب اسلامی نے ان تمام لوگوں کو معاف کردیا جو جذباتی یا غفلت کا شکار ہوگئے تھے، یہ کام آپ کے ملک امریکہ اور یورپ میں نہیں ہوتا۔ یہ عظیم کام بھی صرف اسلامی جمہوریہ ایران کا خاصہ ہے۔
جنہوں نے قتل و غارت گری کی، لوگوں کو قتل کیا، مسلح افواج پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی ہے، فطری طور پر ان کا معاملہ بالکل الگ ہے، یہ مٹھی بھر لوگ ہیں، جنہیں عدالت کے سپرد کردیا گیا گیا ہے، ان پر مقدمات چلائے جارہے ہیں اور سزائيں بھی دی جارہی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ مخالفین اور مظاہرین کی باتوں کو سنتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے آپ آج ہمارے میڈیا پر نظر ڈال سکتے ہیں اور ان میں شائع ہونے والے تبصروں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ آج جو کوئی بھی تنقید کرنا چاہے، آزاد ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔
اس لیے گزشتہ سال، باوجود اس کے کہ امریکیوں اور بعض یورپی ممالک نے تمام بین الاقوامی قوانین کے برخلاف، یعنی دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کے منافی، سرکاری طور پر فسادیوں کی حمایت کا اعلان کیا، لیکن ایران اس صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔
امریکیوں نے سرکاری طور پر ان لوگوں کی حمایت کا اعلان کیا جو ایران کی سلامتی میں خلل ڈالنا چاہتے تھے۔ یہ کس کی اجازت سے کیا گیا؟ امریکی عوام کو امریکی حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ آپ نے کسی دوسرے ملک میں فساد برپا کرنے والوں کی حمایت کیوں کی؟
فساد پھیلانا ، یعنی وہ لوگ جو قتل و غارتگری کرتے ہیں، امریکی عوام کو امریکی حکام سے پوچھنا چاہیے کہ آپ داعش کی حمایت کیوں کرتے ہیں، وہ داعش جس نے لاتعداد جرائم کا ارتکاب کیا ہے، جس نے بے گناہوں کے سر تن سے جدا کیے ہیں، گھروں کو تباہ کیا ہے، یہ وہ سوال ہے جو امریکی عوام کو امریکی حکومت سے پوچھنا چاہیے۔
ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ 20 سال تک افغانستان میں کیوں رہے اور افغانستان میں 35 ہزار معذور بچے، افغانستان میں آپ کی موجودگی کا ثمر ہیں! امریکہ کی 20 برس موجودگی کا افغانستان کی سلامتی کو فائدہ پہنچا؟ امریکہ کے عوام اور دانشوروں کو جو دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں اپنی تسلط پسند حکومت سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کی موجودگی نے عراق و افغانستان اور دنیا کے دیگر مقامات پرکتنا امن قائم کیا، تباہی اور بربادی کے سوا کیا نتیجہ نکلا ہے۔
امریکیوں اور بعض یورپی ممالک کا خیال تھا کہ ایران بھی دوسرے ممالک کی طرح ہے اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے، شاید انہیں پتہ نہیں تھا کہ ایران کا اسلامی انقلاب ایک پھل دار اور تناور درخت ہے اور چھوٹے چھوٹے جھٹکوں سے ہلنے والا نہیں۔