اسلامی مسالک کے درمیان قربت اور یکجہتی کی اسلامی ثقافت کو فروغ دینے اور امت اسلامی کے دشمنوں کی سازشوں سے عوام کو باخبر کرنے کے حوالے سے درس اسلام کے عنوان سے کشمیر میں عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے نمایندے نے ٹی پر محفل مذاکرہ کا سلسلہ شروع کیا ہے جسکی چوتھی محفل کی آخری نشست کی گفتگو قارئین کے نذر ہے۔
عبدالحسین:ہم میر واعظ صاحب سے جاننا چاہیں گے کہ آپ معاشرے میں جو دین سے دوری کا ماحول کسی جگہ پایا جاتا ہے ، ایسے مہینے میں ، بابرکت مہینے میں بھی اپنے آپ کی اصلاح نہیں کر پاتے ہیں ۔اسلام اور اسکے احکامات کا احترام کا اہتمام نہیں کر پاتے ہیں۔ اُن کے لئے آپ کیا سفارش کر یں گے کہ کس طریقے سے کم سے کم اس اعتصام باللہ کا وہ عملی مظاہرہ کریں۔
میر واعظ سید عبدالطیف بخاری:بات یہ ہے کہ ہمارے جو اکثر لوگ ہیں۔وہ رسم کے طور پر روزے رکھتے ہیں۔ روزے کی سپرٹ جو ہے یہ سب لوگ نہیں سمجھتے جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہت سے روزے دار ایسے ہیں ان کو بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اور بہت سے ایسے قیام کرنے والے ،نعت پڑھنے والے ایسے ہیں جن کو رات بھر جاگنے کے سوا اور کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ تو یہ بھی فرمایا کہ جس نے جھوٹ کو نہیں چھوڑا ، جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا "لیس للہ حاجۃ ان یدعا طعامه وشرابه " تو اس کے لئے پھر خدا کو حاکم نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ تو جب ہم نے روزے رکھے تو ہمیں تقویٰ اپنے آپ میں پید اکرنا ہے۔ روزے کا جو سپرٹ ہے اسکو ہمیں سمجھنا ہے۔ تو خاص طور جو قرآن کی نعمت ہمیں اس مہینے میں ملی ہے تو ہمیں قرآن کے ساتھ اپنے آپ کو زیادہ وابستہ کرنا ہے۔ کیونکہ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو ہم کو خدا کی ذات و صفات سے واقف کراتا ہے ، قرآن ہی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، ہمار اانجام کیا ہے ، ہمارے لئے دنیا میں صحیح رویہ کونسا ہے اور غلط رویہ کونسا ہے۔ کس کام میں خدا کی رضامندی ہے اور کس کام میں خدا کی ناراضگی ہے۔ تو اس حیثیت سے ہم کو قرآن لینا چاہئے ۔ تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ رمضان میں بنا سمجھے ہم قرآن پڑھتے ہیں آغاز سے اختتام تک تو بس وہ ایک لسانی ورزش کے طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ اس میں ہمارے لئے کیا پیغام ہے۔ قرآن ہمارے لئے ہدایت کی کتاب ہے۔ اگر ہم اس سے ہدایت نہ لینگے تو بھی قرآن کو ایسے ہی پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے کہ ہم بس اس کو رسمی طور اس کو تراویح میں پڑھیں یا دن بھر اس کی تلاوت کرتے رہے یہ بھی تو ثواب کا کام ہے اسی تقاضے سے ہی ہم یہ کرتے ہیں۔ مگر اس کا جو اصل مقصد ہے قرآن پڑھنے کا وہ مقصد ہم کو حاصل نہیں ہوتا ہے۔
عبدالحسین: تو اس کے ساتھ ساتھ جو یہ"وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا" جو حبل اللہ کو پکڑے رہنا اس مہینے میں کس طریقے سے وہ تربیت ہوسکتی ہے۔ اُ سکو کیا کرنا چاہئے مثلاً اگر ایک مسلک کا آدمی اپنے محلے سے باہر نکلے تو اسے راستے میں دوسرے مسلک کی مسجد ملتی ہے۔کیا اس کو اللہ کا حکم پالنا ہے یا اس کو وہاں پہ مسلک دیکھ کےمسجد میں جانا ہوگا یا اللہ کا حکم دیکھ کے جانا ہوگا۔
میر واعظ:اس کو تو اللہ کا حکم دیکھ کے جانا ہے۔ تو اگر ہم مسلک کے طریقے پر جائیں کیونکہ آج ہم نے الگ الگ ناموں پر مسجدوں کو بانٹ کے رکھا ہے۔ کسی نے اپنی مسجد کا نام مسجد حنفیہ رکھا، کسی نے مسجد اہلحدیث رکھا ، کسی نے مسجد اہل تشیعہ رکھا، تو ہمارے سامنے مسجد حرام کی مثال ہے جب ہم حج کو جاتے ہیں کعبے کا طواف ہم اکھٹے کرتے ہیں، مسجد حرام میں ہم نماز ایک ہی امام کے پیچھے پڑھتے ہیں۔ تو ہمارے محلوں کی مسجدوں میں بیر کیسا، ہماری جامع مسجد میں بیر کیسا۔ اگر ہم کو وہاں اتحاد کا درس ملتا ہے، اتفاق کا درس ملتا ہے تو پھر ہم ایک دوسرے کو اپنی مسجدوں میں کیوں نہیں لاتے۔
عبدالحسین: بہت عمدہ ۔ یعنی عملی تور پر اگر دیکھیں حبل اللہ کو پکڑے رکھنے کے حوالے سے ہمارے لئے بس یہی مثال کافی ہے کہ مسجد الحرام میں ہر مسلک کا مسلمان وہاں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے۔ تو جب وہاں پر ہم مسلک نہیں دیکھتے ہیں اپنے محلے میں کیوں بیر کھڑا کرتے ہیں کہ یہ کس مسلک سے ہے مگر اپنی جامع مسجد کو دیکھ کے، اپنے محلے کی مسجد کو دیکھ کے ہم مسلکوں میں بٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم سال بھر الگ الگ رہتے ہیں کم سے کم اس مہینے میں تو کم سے کم ہم اس کا عملی مظاہر کرسکتے ہیں۔
میر واعظ:جی اس مہینے میں عملی مظاہرہ کرنا چاہئے۔یہ تو رحمتوں کا مہینہ ہے اور جب اللہ کی طرف سے قرآن ملا ہے یہ بھی خدا کی عالم انسانیت پر ایک رحمت ہےجیسا کہ قرآن میں ہے " الرَّحْمَانُ۔عَلَّمَ الْقُرْءَان" یعنی اگر ہمیں ہدایت کی کتاب ملی ہے کہ ہم زندگی کیسے گزاریں ، کیسے ہم سکھ چین سے دنیا میں رہیں اور کیسے آخرت میں کامیاب ہوجائیں اس کی جو ہمیں گائڈحنس ملی ہے، ہدایت ملی ہے اس مہینے میں تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔ اور حدیث میں یہ ہے کہ"الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب" تو اس کا مطلب ہے کہ جو جماعت کے ساتھ رہے، متحد ہو کے رہے ، اجتماعیت کو فروغ دیں ، اخوت کو فروغ دیں یہ بھی اللہ کی رحمت ہے۔ اگر ہم اس مہینے میں بھی تفرقہ قائم رکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہمیں یہ جو رحمت ملی ہے قرآن کی صورت میں یا ماہ رمضان کی صورت میں ، تو ماہ رمضان کے متعلق بھی یہ کہا گیا ہے کہ "اولہ رحمۃ" کہ جو پہلے دس دن ہیں وہ رحمت کے دس دن ہیں۔ تو اس رحمت کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہم تفرقہ چھوڑ دیں ، نفرت چھوڑ دیں، محبت کو فروغ دیں۔
عبدالحسین:جی ہاں؛ جو باتیں بالکل آسان طریقے سے ہم عملا سکتے ہیں کوئی مشکل کام نہیں جس میں کسی کٹھن ریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔آسانی کے ساتھ قرآن کے اس حکم کی تعمیل کرسکتے ہیں ۔اس آیہ کریمہ "وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا" کے ذیل میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔مگر اصل بات جو میں یہاں اس پہ آنا چاہوں گا کہ سورہ انبیاء کی آیت ۹۲ پرقرآن میں ارشاد ہورہا ہے کہ "إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ"(یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو) تو مسلمانوں کو ایک واحد امت کہا گیا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہے کہ مسلمان کا ہر ایک جسم کا حصہ خون سے لت پت ہے۔ ابھی میانمار میں دیکھئے کہ قریب بیس ہزار مسلمان شہید ہوئے اور ان آفیشل تو پینتیس ہزار بتا رہے ہیں۔ مگر مسلمان ٹس سے مس نہیں ہیں ، ایک آدھ مسلمان ملک نے شور مچایا ہے اور باقی دیکھئے پورا عالم اسلام سویا پڑا ہے جیسے کچھ نہیں ہوا ہے۔ صومالیہ میں ایسا انسانی المیہ جب کہ وہ پچھلے سال اسلامی ممالک انکی بڑی مالی معاونت کی مگر وہ کافی نہیں رہی۔ اس وقت بھی وہاں بہت زیادہ انسانی جانیں تلف ہورہی ہیں۔ انسانی بنیادوں پر اسلامی بنیادوں پر ان کو مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اسی طرح ہر ملک میں یا ابھی ہندوستان میں دیکھئے آسام میں کیسے مسلمانوں کو قتل و خون کیا گیا ہے اور پاکستان میں اسی طرح ۔ مگر یہ سوچ رہے ہیں کہ بھئی یہ پاکستان میں ہورہا ہے میرے کشمیر میں تھوڑا ہی ہورہا ہے یہ تو ہندوستان میں ہورہا ہے میرے کشمیر میں تھوڑا ہی ہورہا ہے یہ تو ایران میں ہورہا ہے۔ تو اسے یہاں پر جو ہمیں اللہ کہتا ہے "إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً " اس امت کا شیرازہ کیوں بکھرا ہوا ہے۔
میر واعظ مولانا سید عبدالطیف: بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام جو ہے اس کا مقصود ہے کہ جو بنی نوع انسان ہے اس کو ایک ملت آدم ہم کہہ سکتے ہیں یہ ایک رب کی بندگی پر متفق ہوجائے۔ جیسا علامہ اقبال نے کہا ہے۔
تفریق ملت حکمتی اپنوں کا مقصود ____اسلام کا مقصود فقط ملت عالم
یعنی اسلام کے پیش نظر تو ملت آدم بنانا ہے ایک رب کی بندگی پر پورے عالم کے انسانوں کو جمع کرنا ہے۔ تو اب جتنے اس کلمے کو مان چکے ہیں جنہوں نے اس کو مانا ہے وہ تو ملت واحدہ ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ملت واحدہ ہے اور اس ملت کی جو قومیت کی جو بنیاد ہے وہ صرف یہ ہے کلمہ "لااله الا اللہ محمّد رّسول اللہ" تو جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی ہم تفرقہ کی بات کر رہے تھے تو اختلاف جو ہے وہ بنیادوں میں نہیں ہے اگر ہم دیکھیں تو بنیادی چیزوں میں اختلاف نہیں ہے۔ اگر اختلاف ہے تو وہ فروعی چیزوں میں ہے۔ تو فروعی چیزوں میں اختلاف برداشت کیا جاسکتا ہے اور ہمیں برداشت کرنا چاہئے۔ تو یہ جو ملت واحدہ ہے اس کے بارے میں قرآن نے یہ بھی کہا گیا ہے کہ" رُحَماءُ بَيْنَهُمْ " ان کا آپس میں جو رحمت اور شفقت کا تعلق ہے۔ تو یہ المیہ کی بات ہے کہ میانمار میں مسلمان مر رہے ہیں اور پورا عالم اسلام اس پر خاموش ہے۔ صومالیہ میں انسانی جانیں تلف ہورہی ہیں۔
عبدالحسین:فلسطین میں مسلمانوں پر کیا کچھ مصیبتیں نہیں ڈھائی جارہی ہیں اور مسلمان تماشائی بن بیٹھے ہیں۔
میرواعظ: دراصل ہمارے صفحوں میں جو انتشار ہے ہم صرف اپنے وطن کے جو مفادات ہوتے ہیں، ملکی مفادات ہوتے ہیں اسی کی نسبت سے ہم سوچتے ہیں۔ جو ملت کا مفاد ہے اس کے بارے میں بدقسمتی سے ہمارے جو اسلامی ممالک ہیں وہ نہیں سوچتے ہیں کہ دراصل اگر دنیا میں کسی بھی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا درد پوری ملت کو ہونا چاہئے تھا کیونکہ جو کلمہ ‘لاله الا اللہ’ ہے تو جو اس کلمے کو مانتا ہے ان کو کوئی طاقت جدا نہیں کرسکتا ہے، ان کو کوئی دریا جدا نہیں کرسکتا، ان کو کسی ملک کی سرحد جدا نہیں کرسکتی۔ وہ تو ملت واحدہ ہے۔ جو ایک رب کو مانتے ہیں۔ ایک رسول (ص) کو مانتے ہیں، ایک قرآن کو مانتے ہیں۔ جن کو یکجہت بنانے کے لئے کعبہ (قبلہ) مقرر کیا گیا ہے۔
عبدالحسین: تو اس وحدت کے بجائے کہ ہم مسلمان ہر ملک میں، ہر جگہ میں ، غیر مسلم ممالک میں، مسلمان ممالک میں اتحاد کو چھوڑ کر اختلافی مسائل کی طرف کیوں اتنی توجہ دے رہے ہیں۔ اپنی پوری علمی صلاحیتیں اپنے مسلک کو صحیح ثابت کرنے میں گنواتے ہیں کہ بس میرا مسلک صحیح ہے اور اصلی یہی ہے اور جس سے ہم اس طریقے سے بکھرے ہوئے ہیں۔ اور ہمیں جن مسائل کو اہمیت دینی چاہئے جس میں وہی" إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِين" والا جذبہ نمایاں ہوتا اورپوری امت کو ایک جاننا اور اسی امت واحدہ کا جذبہ ظاہر کرنا ۔تو کیا اس کے لئے استعماری طاقتیں کار فرما ہیں یا کہ علماء خود اس سے غافل ہیں کہ اصلی موضوعات کو چھوڑ کر فروعی موضوعات کو وہ زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
میر واعظ سید عبدالطیف: بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے جو علماء ہیں اُن کو بصیرت پیدا کرنی چاہئے۔ حدیث میں ہے کہ ‘المومن بصیر بزمانه’ مومن زمانے کو پہچاننے والا ہوتا ہے۔اس وقت جو دنیا کی حالت ہے ۔ اس وقت تو اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے معاملوں میں آپس میں لڑیں۔ چھوٹے چھوٹے معاملوں میں تفرقہ برپا کریں۔ چھوٹے چھوٹے معاملوں کے لئے آپس میں نفرت کریں۔ توا س کے لئے جو وقت کا تقاضا ہے وہ اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس وقت تو ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو پورا عالم اسلام ہے وہ ملت واحدہ بن جائےاور ایک دوسرے کا درد محسوس کریں
۔
عبدالحسین: اصلی طور پر وہ امت واحدہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر کوئی اپنے انفرادی تشخص میں اپنے آپ کو ڈال رہا ہے۔ تو کیا کچھ ہونا چاہئے کہ جس طرح یہ امت"إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً " اپنی شکل اختیار کرے جبکہ آیت " وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُون" کہہ کر تکمیل ہوتی ہے اور اسی آیت کا تذکرہ سورہ مومنون کی آیت ۵۲ میں" وَ إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُون" ان دو آیا ت میں عین عبارت کے ساتھ" وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُون" اور " وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُون" بیان ہوا ہے ۔یعنی تقویٰ اختیار کریں ، الہٰی بنے، خدا کے لئے کریں۔اتحاد تقوی کے ساتھ کریں اور خدا کے لئے کریں۔ کیا ہم اس مہینے میں بھی اپنی اس یکجہتی کو ، اس اتحاد کو عملی شکل نہیں پہنا سکتے ہیں! تقویٰ کا مظاہرہ نہیں کرسکتے۔ قربۃ الا اللہ نہیں کرسکتے۔اس کے لئے اس مہینے میں ایس کیا کچھ کیا جاسکتا ہے کہ اس" فَاعْبُدُون" اور "فَاتَّقُون" کو امت واحدہ کی بازیابی کیلئے تعمیری کردار دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
میرواعظ وسطی کشمیر و امام جمعہ بیروہ: بنیادی بات یہ ہے کہ جو ملت کے اتحاد کی بات ہے اس کو تو ہمارے علماء سرسری طور لیتے ہیں اس کو بنیادی بات کی حیثیت سے نہیں لیتے ہیں۔ جبکہ پورا قرآن ، پورا اسلام ہماری اجتماعیت پر، ہماری حکومت پر زور دے رہا ہے۔ دنیا میں جو برائیاں ہیں جیسے کہا گیا ہے" كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّه" یعنی جو دنیاوی برائیاں ہیں ان کو ہم نہیں روک سکتے ، ان کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے، ہم امر بالمعروف نہیں کرسکتے، اگر ہم متحد نہ رہتے ۔ خیر امت تو ہم تب ہیں جب ہم دنیا سے برائیوں کو مٹائیں، اگر ہم برائیوں کو نہ مٹائیں ، اگر ہماری کوئی افادیت نہ ہو تو پھر ہم اس کے مستحق نہیں ہیں کہ ہم اپنے آپ کو خیر امت کہے۔
خیر امت ہم تب ہو سکتے ہیں جب ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کریں اور خدا پر ایمان بھی رکھیں اور دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو مثلاً ہمارے یہاں دریائے جہلم بہتا ہے، دریائے جہلم کے دونوں طرف حکومت نے باندھ بنایا ہے تاکہ سیلابوں کا پانی بستیوں میں نہ گھسے۔ اگر اس میں کہیں شگاف پڑ جائے تو سیلاب کا پانی خود بہ خود ہماری بستیوں میں آجائیگا۔ اسی طرح جو یہ ایمان کا باندھ تھا جو ہماری حفاظت کا ذریعہ تھا ہم نے اس میں بہت سے شگاف کئے ہیں۔ دراریں اس میں پیدا ہوئی ہیں، کئی نفرتوں کی شگاف ہے، کئی خود غرضی کا شگاف ہے، کئی مفاد پرستی کا شگاف ہے، کئی بغض و حسد کا شگاف ہے تو ان شگافوں سے جو ہماری بستیوں میں جو سیلاب آرہا ہے تو کسی شگاف سے منشیات کا سیلاب آرہا ہے، کسی شگاف سے بے حیائی کا سیلاب آرہا ہے، کسی شگاف سے بد کرداری کا سیلاب آرہا ہے، کسی شگاف سے بد عنوانی کا سیلاب آرہا ہے، اور ہم اس سیلاب میں ڈوبے جارہے ہیں۔ اور پھر بھی یہ ہماری بدقسمتی کہ پھر بھی ہمکو یہ فکر نہیں کہ ان شگافوں کو ہم بند کریں، اپنی حفاظت کا بندوبست کر لیں۔ جب ہم ان شگافوں کو بند کر لیں گے تو پھر ہم امت واحدہ بنے گے ، تب ہم دنیا میں سربلند ہوجائینگے اور دنیا میں اس قوم کی طرح رہے گے کہ ہم دنیا سے فتنہ و فساد کو مٹا سکیں گے ، ظلم و ستم کو مٹا سکیں گے، جبر کو مٹا سکیں گے، برائیوں کو مٹا سکیں گے اور دنیا کو امن ،محبت ، شفقت کا پیغام دے سکیں گے۔
عبدالحسین:بلکل صحیح، امت واحدہ ایک مٹھی کے مانند ہےجب ہم اپنی انگلیوں کو جمع کرینگے تو اتحاد ہوگیا ہےلیکن کسی انگلی کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔ اس کا وجود محفوظ رہتا ہے۔ مگر جب ایک، ایک انگلی کو جمع کرتے ہیں مٹھی بنتی ہے تو یہ ایک طاقت بنتی ہے۔ قرآن بھی ہم سے یہ چاہتا ہے ۔ اگر ہماری مسلکی، انفرادی شناخت ہے وہ باقی رہے اپنی اپنی جگہ پر انگلیوں کے مانند، مگر اگر وہ جھٹ جائیں وہ ایک طاقت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اور جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا کہ وہ جو برائیوں کا سلسلہ سماج کی طرف سے جاری ہورہی ہیں وہ رُک سکتی ہیں۔ اور میں یہ چاہوں گا کہ اس ماہ مبارک رمضان میں کیوں کہ اس پہ اس قرآنی امت کو امت واحدہ اور نماز جماعت میں کم سے کم وہ سلسلہ شروع کیا جائے جس سے وہ اتحاد کی شکل میں آپ کی زبان سے سُننا چاہوں گا اور پوری وضاحت کے ساتھ کہ یہ جو آپ نے مسجد الحرام کی بات کی اُس کو آپ بار بار کہتے رہیں اس کو ہر جگہ کہیں تو مجھے لگتا ہے کہ اس سے بہت سارے دردوں کی دوا ہو سکتی ہے۔
آپ اس ماہ مبارک رمضان کے لئے کوئی خاص سفارش کرنا چاہئے گے کہ اس ماہ مبارک رمضان میں دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کو عملی طور پر کم سے کم نماز جماعت جو ایک اتحاد کی عملی علامت ہے معاشرے میں امت واحدہ کی شکل میں ۔ اس کو اور مزید مؤثر اور دوسروں کے لئے پیغام کی شکل بنانے کے لئے کیا کچھ کیا جانا چاہئے۔
میر واعظ: سب سے پہلے ہم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ امت مسلمہ ایک بہت بڑے مشن کی حامل ہے۔ اسلام کی امانت ان کے سپرد ہے۔ ان کو پورے دنیا کو اللہ کی طرف دعوت دینی ہے۔ ان کو حق کا پرستار بننا ہے، حق شناس بننا ہے، حق پرست بننا ہے۔ ان کو امن و انصاف کا علمبردار بننا ہے۔ ان کو دنیا میں جو اسلام کی دعوت ہے اس کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ تو ماہ رمضان جو ہمیں عطا ہوا ہے وہ اسی لئے عطا ہوا ہے کہ ایک طرف اس امت کی تربیت ہوجائے ، ان میں تزکیہ نفس پیدا ہوجائے، ان میں تقویٰ پیدا ہوجائے، ان میں صبر اور تسلیم و رضا پیدا ہوجائے، ان میں وہ سارے صفات پیدا ہوجائے جن صفات کے ساتھ یہ اس مشن کو جو ان کے سپرد کیا گیا ہے اس مشن کو آگے لے جاسکے۔اور اس کے ساتھ ساتھ اگر ان میں کئی کوتاہی ہوجائے، اس مشن کو آگے لے جاتے ہوئے جو دین کا مشن ہے ، جو سچائی کا مشن ہے ، جو محبت کا مشن ہے، جو شفقت کا مشن ہے ،جو انسان دوستی کا مشن ہے، جو آخرت پرستی کا مشن ہے، خدا پرستی کا مشن ہے، عشق محمد رسول اللہ (ص) کا مشن ہے ، محبت انبیاء کرام ،محبت اہلبیت طاہرین (ع) ، محبت صحابہ کا مشن ہے اس کو اگر آگے لیجانا ہے تو اس میں اگر کئی کوتاہی ہوجائے تو اس کے لئے ماہ رمضان میں یہ بشارت دے دی ہے کہ ان کوتاہیوں کی مغفرت ہوجائے گی۔ کیونکہ ہم صرف مغفرت کی بات جو کرتے ہیں کہ یہ رمضان کا مہینہ مغفرت کے لئے آیا ہے۔ مگر جس مشن کو ہمیں چلانا ہے اس مشن کی بات تو ہم کرتے نہیں ہمیں تو اپنے آپ میں یہ شعور پیدا کرنا ہے کہ ماہ رمضان ہم کو ایک مشن کا حامل بنانے کے لئے آیا ہے۔
عبدالحسین: یہاں پر میں سادہ الفاظ میں یوں کہوں گا کہ الحمد اللہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں، آپ میرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، نہ میں سنی بن گیا اور نہ آپ شیعہ بن گئے مگر دونوں کی شناخت کیا رہی ہے مسلمان۔ کیا ہمارے لئے اس سلیقے سے ایسے ماحول میں رہنا ضروری نہیں ، کیا صرف میر واعظ صاحب اور عبد الحسین کو اسکا مظاہرہ کرتے رہنا ہے۔ کہ چونکہ انہوں نے موضوع اتحاد کو اپنا مقصد بنایا ہے ایسا کرنا چاہئے۔کیا باقی علماء کو بھی ایسا ہی نہیں کرنا چاہئے تقریب خبررساں ادارے کے توسط سے ہماری بات دنیا کے مختلف کونوں تک پہنچتی ہے ۔ اس حوالے سے میں یہ چاہوں گا کہ آپ مسلکی اعتبار سے نمازجماعت میں ہر مسلک کی ایک ساتھ حاضری کو یقینی بنانے کے لئے ماہ مبارک رمضان میں کس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔
میر واعظ سید عبدالطیف: بات یہ ہے کہ جو ہم مسلکوں کی شدت اختیار کرتے ہیں اسی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ یہ جو ہماری نمازیں ہیں وہ بکھر گئی ہیں، ہماری ملت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم فروعی چیزوں پر ہم زیادہ زور دیتے ہیں، مسلکی باتوں پر زیادہ زور دیتے ہیں ، بنیادی باتوں پر ہم زور نہیں دیتے ہیں۔ تو ہمیں شفٹ آف ایمپیزز کرنا ہے۔ یعنی جن باتوں پر ہم کو سٹرس(زور) دینا ہے وہ بس بنیادی باتیں ہیں ان پر سٹرس دینے کی ضرورت ہے ایک بات تو یہ ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جیسا میں جامع مسجد بیروہ کی بات بتا دوں کہ وہاں ہم نے ایسا ماحول بنایا ہے کہ وہاں ایک ساتھ شیعہ سنی ، اہلحدیث، اہل اعتقاد ، دیوبندی یعنی جتنے بھی مسلکوں کے لوگ ہیں ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔
عبدالحسین: میں آپ سے یہی بات کہنا چاہتا تھا کہ آپ یہی بات کہے کہ بھئی کم سے کم اس ماہ مبارک رمضان میں زیادہ جماعتوں کے بجائے ایک ہی جگہ پر زیادہ اجتماع ایک ہی جگہ پر ہو ہر مسلک کے نماز گزار روزہ دار امت واحدہ کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کریں۔
میر واعظ: صحیح بات ہے جہاں اجتماعیت ہوگی وہاں خدا کی رحمت زیادہ ہوگی جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ "الجماعۃ رحمۃ" تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم خد اکی رحمتوں سے ہمیں دامن بھرنا ہے اس مہینے میں تو ہم کو زیادہ سے زیادہ پھر اپنے آپ میں اجتماعیت پیدا کرنی چاہئے۔ اس مہینےکو شہر مواصات بھی کہا گیا ہے، وہ بھی اسی لئے کہ ہمار اجو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق ہے ہم ایک دوسرے کے ہمدرد بن جائیں ، ایک دوسرے کے غم گسار بن جائیں ، ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں اور اسی سے جو یہ اخوت کا تعلق ہے وہ مضبوط ہوجائے گا۔ تو ہمیں ماہ رمضان میں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اکھٹے نمازیں پڑھیں، اکھٹے روزے رکھیں، اور خاص طور جمعہ کے موقعے پر ہم اپنی اجتماعیت کا مظاہر کریں۔
ایک اور بات میں بتا دوں کہ عید کے روز حکم ہے کہ ایک راستے سے آؤ اور دوسرے راستے سے جاؤ یہ بھی اسی لئے ہے تاکہ جو مسلمانوں کی اجتماعیت ہے اس کا اظہار ہوجائے، ایک راستے سے جاؤ ، آئیں گے تو کچھ لوگ ادھر سے مسلمانوں کی اجتماعیت کو دیکھیں گے،کچھ لوگ دوسرے راستے سے جائیں گے تو وہاں سے بھی لوگ دیکھیں گے۔ اسی لئے عید کی نماز ہم میدان میں پڑھتے ہیں تاکہ ہم اپنی اجتماعیت کا اظہار کریں۔
عبدالحسین:بہت خوب۔ یہ ماہ رمضان میں نماز جماعتوں میں شرکت کر کے ایک ساتھ ہم اجتماعوں میں امت واحدہ کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ خاصکر جو عید ہے اور سب سے زیادہ عمدہ فرصت ہے اگر ہم چاہیں تو پوری دنیا کو اتنا بدل سکیں کہ پورے عالم اسلام میں امت واحدہ کا مظاہرہ ہو۔ کم سے کم جو جہاں پر ہے اپنی بساط کے اعتبار سے اس جماعت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔ لوگ اس طریقے سے اس اجتماعیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ماہ مبارک رمضان میں ایک بہترین فرصت ہے کہ ان نماز جماعتوں میں ہم ہر مسلک کے مسلمان مسجد الحرام کی طرح یہاں مقامی مسجدوں میں بھی ایک ساتھ شرکت کیا کریں ۔ اگر ہم پورے عالم اسلام کو نہیں بدل سکتے، اپنی ظرفیت کے حساب سے ایک امت واحدہ کی شکل میں پیش کرسکتے ہیں۔ البتہ اپنے اپنے بساط کے اعتبار سے جو جہاں پر ہے وہ اپنا تعاون دے اور وہ عملی مظاہرہ کریں جس میں عید سب سے عمدہ جس کی طرف میر واعظ صاحب نے اشارہ کیا کہ عمدہ مثال ہے کہ جہاں پر ہم عملی مظاہرہ کرسکتے ہیں کہ مسلمان اپنی اجتماعیت کا درس پورے عالم کے سامنے پیش کر سکتا ہے ۔ ان ہی الفاظ کے ساتھ آپ سے اجازت لیتے ہیں والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔