مساجد کو مسلکوں کے نام پر بانٹنے کے بجائے صرف اللہ کے نام پر ہی رہنے دیا جائے
تنا (TNA) برصغیر بیورو
کشمیر میں جاری چودہ روزہ "نورانی صحافت" کارگاہ کے چوتھے روز آج کے دن کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہ یہی وہ دن ہے جس دن بنی امیہ کی ہزار ماہہ دور کا خاتمہ،یزیدی لشکر کا مدینہ منورہ میں قتل و غارت اور تین روز کیلئے مدینہ کی خواتین کو یزیدی لشکر پر مباح دینے کا واقعہ جو کہ واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے نیزپانچ معصومین کا شاگرد علی بن جعفر کی وفات پر روشنی ڈالی گئی اور بحث کے نتیجے میں کہا گیا کہ صرف اللہ کا رنگ باقی رہنے والا ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مساجد کو مسلکوں کے نام پر بانٹنے کے بجائے صرف اللہ کے نام پر ہی رہنے دیا جائے تو امت اسلامی ید واحد کی شکل خود بخود اختیار کرلے گی۔
شیئرینگ :
تقریب نیوز (تنا): رپورٹ کے مطابق ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے ٹاون ہال میں روز عید مباہلہ سے جاری ورکشاپ میں سنی شیعہ علماء اور دانشوروں پر مشتمل علمی مباحثے میں نہ صرف مسلکی اختلافی باتوں پر مرحلہ وار سیر حاصل اور مدلل گفتگو جاری ہے بلکہ صحافت کو الہی فریضے کی طور پر اجاگر کرنے کی کوشش جاری ہے کہ صحافت کا کام الہی کام ہے خود اللہ انکے فرشتے اور انبیاء علیہم السلام حقائق کو بیان کرتے آئے ہیں اور قرآن اسکا بین ثبوت ہے اسلئے مسلمانوں کو چاہئے صحافت کی عظمت کو سمجھتے ہوئے حقائق پر مبنی چشم دید گواہ کے طور پر خبرنگاری اور مراسلہ نگاری انجام دے اور جو بھی اختلاف کی فضا قائم کی جاتی ہے اس میں بھی صحافی اور قلمکار حضرات ہی زمہ دار ہوا کرتے ہیں۔
ورکشاپ کے مہتمم اورنیوز نور ڈاٹ کام کے مدیر اعلی حجت الاسلام عبدالحسین کشمیری نے کارگاہ کے چوتھے دن پچھے ایام کے مانند اس دن کی تاریخی اہمیت کی طرف اشاہ کرتے ہوئے کہا کہ 24 ذی الحجہ سے آپ ہر روز کی جو الہی اور تاریخی اہمیت کے حامل دنوں کی یاد تازہ کرنے کا جو موقعہ آیا اور آج یعنی 27 ذی الحجہ بھی بڑا عبرت کا دن ہے آج ہی بنی امیہ کا ہزار مہینے کا دور حکومت کا خاتمہ 133 ھجری کو مروان بن محمد بن مروان بن حکم معروف بہ مروان حمارکے قتل سے ہوا۔اور آج ہی واقعہ حرہ پیش آیا ہے ۔ یزید بن معاویہ کے موت سے ڈھائی مہینہ پہلے 63ہجری میں پیش آیا جب یزید کے حکم سے مدینہ منورہ میں قتل عام کیا گیا اور چار ھزار سے زائد مسلمان قتل کئے گئے نیز مسرف(مسلم)بن عقبہ نے مدینہ والوں کا مال و خواتین اپنی لشکر پر مباح قرار دیا۔ اور آج کے دن ہی 210 ہجری میں علی بن جعفر سادات میں جلیل القدر محدث جنہوں نے امام صادق،امام موسی کاظم ، امام علی رضا اور امام جواد علیہم السلام سے کسب فیض کیا ہے داعی اجل کو لبیک کہہ کئے۔ اسطرح آج کا دن ہمیں محاسبہ کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ میں اور آپ اپنے زندگینامے میں کیا قلمبند کرنے جارہے ہیں اور خدا کس کام کا خریدار ہے۔
کارگاہ کے مہمان خصوصی اہلسنت عالم دین اور امام جمعہ جامع مسجد آریزال بڈکام جناب مولانا غلام علی ملک صاحب جو کہ ریاضیات کے بھی ماہر ہیں نے میدان مباہلہ سے کربلا تک کے کاروان والوں کے پیغام پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو اصطلاحی بیداری کے بجائے حقیقی طور پر بیدار ہوتے ہوئے نام کے نہیں بلکہ عمل کے مسلمان بن کر ابھرنا ہوگا۔ انہوں نے ریاضیات کی مثال پیش کرتے ہوئے کہ اگر ہمیں ریاضیات میں2A+2B+2C+2D جیسا عدد ملانا ہو تو ہم اسکے مشترکات کو اسکا طاقت قرار دیتے ہوئے اسطرح لکھتے ہیں 2(A+B+C+D)اور یہی فارمولا مسلمانوں کو استعمال میں لانا ہوگا اسوقت ہم اس حالت میں ہیں جعفری مسلمان+حنفی مسلمان+ شافعی مسلمان+مالکی مسلمان+حنبلی مسلمان+۔۔۔۔ ان سبھی مسلکوں کی مشترک طاقت اسلام ہے اسلئے اسلام کا قلعہ قائم کرنا ہے اور اسکے قلعے کے اندر اسطرح ہم رہ سکتے ہیں اسلام (جعفری+حنفی+شافعی+مالکی+ حنبلی+ و+و+و) اسلام کے قلعہ کے اندر ہم سب آپ میں جوڑ کر رہیں اور اسلام ہم سب کا دفاع کرے گا اور اسلام و مسلمین وہ طاقت بن کر ابھرے گی جس کا وعدہ قرآن نے دیا ہے۔
سوال و جواب کے دور میں کشمیر میں سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان بوئے گئے نفرتوں کے بیچ کی نشاندہی ہوئی کہ کیا وجہ ہے کہ اکثر سنی مسلمان کافر اور مشرک کے ہاتھ کھانا کھاتے ہیں اور شیعہ مسلمان کے ہاتھ کا کھانا نجس سے بھی بڑکر سمجھتے ہیں۔ جس پر مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بحث و تکرار کے بعد واضح ہوا کہ اسطرح کی فضا قائم کرنے میں مذھب یا مسلک کا کوئي عمل دخل نہیں بلکہ ایک گہری سیاسی چال ہے کہ مسلمانوں کے درمیان سب سے عظیم نعمت اتحاد و یکجہتی کو پھلنے پھولنے نہ دینا ہے تاکہ استکباری طاقتیں اپنے عزائم کو حاصل کرنے میں کسی مشکل سے دو چار نہ ہونے پائیں ہے۔
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں شیعہ مسلمانوں نے مظاہرے کرکے، پارا چنار کے عوام پر تکفیری دہشت گردوں کے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج سے اس حملے کے عوامل ...