QR codeQR code

یمن کے دارالحکومت پر حرکت انصار اللہ کا کنٹرول آج بھی مضبوط ہے،

20 Nov 2015 گھنٹہ 14:33

سعودی خائن حکومت اور اس کے اتحادیوں سے نفرت اب یمن کے عوام کے خون میں شامل ہوچکی ہے۔




اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے یمن اسماعیل اولد شیخ نے 29 اکتوبر 2015ء کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ ماہ نومبر میں دس تا پندرہ تاریخ کے دوران جنیوا میں یمن کے سیاسی مستقبل کے حل کے لئے نتیجہ خیز مذاکرات ہوں گے۔ ان کا بیان تھا کہ نوے فیصد امکانات ہیں کہ یہ جنیوا میں ہوں گے، البتہ دس فیصد امکانات یہ بھی تھے کہ شاید یہ عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہوں۔ ستمبر میں بھی انہوں نے ایسا ہی دعویٰ کیا تھا، لیکن یمن کے مستعفی صدر منصور ہادی عبد ربہ نے مذاکرات سے پہلے شرط رکھ دی تھی کہ حوثی تحریک کی قیادت اقوام متحدہ کی قرارداد 2216 کو تسلیم کرے، اس کے بعد مذاکرات ہوں گے۔ معروضی حالات کی بنیاد پر حوثی تحریک کے ترجمان صالح ال صمد نے 30 اکتوبر کو فیس بک پیغام میں کہا تھا کہ یمن بحران کے پرامن سیاسی حل کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ آج 19 نومبر 2015ء تک مذاکرات کا نہ ہونا حوثی ترجمان کے بیان کی درستگی کا ثبوت ہے۔

ماہنامہ افکار العارف کے لئے یکم نومبر کو یمن کے حالات پر جب لکھا تھا تو عرض کر دیا تھا کہ یہ مذاکرات ہوپائیں گے یا نہیں؟ اس کے بارے میں 15 نومبر تک کا انتظار کر لینا چاہیئے، لیکن یہ بات طے ہے کہ حوثی زیدیوں کو یمن کے مسئلے کے حل میں ایک اہم فریق کی حیثیت حاصل ہے اور مائنس حوثی کوئی فارمولا قابل عمل نہیں ہے۔ جون 2015ء میں بھی عدم اتفاق کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے تھے۔ امریکہ کی اتحادی عرب حکومتیں شام کے محاذ پر بھی ناکام دکھائی دیتی ہیں اور اس موضوع پر بھی پہلی مرتبہ مذاکرات میں ایران کی موجودگی پر رضامند ہوئے ہیں۔ یعنی سفارتی محاذ پر سعودی اتحاد کی یہ ایک بہت بڑی پسپائی کہی جانی چاہیے۔ پہلے بھی عرض کیا جاچکا کہ صنعا پر کنٹرول کی فیصلہ کن جنگ کے منصوبے پر عمل کرنا سعودی اتحاد نے چھوڑا نہیں ہے۔ اس لئے مذاکرات کا فیصلہ بھی میدان جنگ کی پوزیشن کرے گی۔ جو میدان جنگ میں کامیاب ہوگا، اسی کی شرائط پر مذاکرات ہوں گے۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ ایک قلیل تعداد پر مشتمل حرکت انصار اللہ کی ثابت قدمی اور حق پر مبنی عاقلانہ و عادلانہ روش نے یمن کے عوام کی غالب اکثریت کو ان کا حامی بنا دیا ہے اور ان کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے سعودی عرب کی اس محاذ پر بھی پسپائی ہوگی۔

یمن کی مستعفی حکومت کے آخری مستعفی وزیراعظم خالد ال بحاح ایک وفد کے ہمراہ متحدہ عرب امارات کے دورہ پر ہیں۔ بدھ کے روز ابو ظہبی میں شیخ محمد بن زید سے ان کی ملاقات ہوئی۔ شیخ محمد بن زائد مسلح افواج کے نائب سپریم کمانڈر اور ابوظہبی کے ولی عہد ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی افواج تعز صوبے میں یمن کے باغی دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مل کر اس صوبے کو حرکت انصاراللہ اور ان کے اتحادی گروہوں کے کنٹرول سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ یمن پر جنگ جاری رکھے جانے کے بارے میں دو طرفہ بات چیت ہوئی۔ ایک طرف یہ ملاقات ہوئی تو دوسری جانب بدھ کے روز تہران میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن اسماعیل اولد شیخ نے ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب یمن میں جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے اور بحران کے جاری رہنے کی ذمہ دار بھی سعودی بادشاہت ہے۔ بدھ کے روز ہی اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین کوآرڈی نیٹر برائے یمن جوہانس وان ڈیر کلاو نے صحافیوں کو بتایا کہ مارچ سے جاری جنگ کے نتیجے میں 5700 افراد شہید ہوئے ہیں۔ ان یمنی شہداء میں 830 خواتین اور بچے شامل ہیں۔ یمن کی 82 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ کو طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں جبکہ 18 لاکھ بچے اسکول کی تعلیم سے محروم ہوچکے ہیں۔

اس مقدس سرزمین یمن کے تازہ ترین حالات جو اسلام کے محسن حضرت اویس قرنی ؓ کا مادر وطن ہے اور جہاں سعودی سلطنت کی مسلط کردہ جنگ زور و شور سے جاری ہے۔ اس جنگ میں فائدہ کسی کا نہیں ہونا، محض نقصان ہی نقصان سبھی کے کھاتے میں جمع ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کی جارح افواج صوبہ نجران و جیزان میں قائم فوجی اڈوں سے یمن پر حملہ آور ہوتی ہے تو یمن کی افواج کی جوابی کارروائی کا ہدف بھی وہی فوجی تنصیبات ہوتی ہیں، جہاں سے یمن پر براہ راست شیلنگ کی جاتی ہے اور جہاں سے حملوں کے لئے جنگی طیارے اڑان بھرتے ہیں۔ اس جوابی کارروائی کی وجہ سے سعودی عرب کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جنگ کے ابتدائی چار مہینوں میں صرف سعودی عرب کے 122 سے زائد فوجی ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوچکے تھے۔ اگست ستمبر اور اکتوبر کے اعداد و شمار بھی چھپائے جا رہے ہیں، لیکن سعودی افواج کی ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے اختتام پر شاید ظاہر ہوسکے گی۔ متحدہ عرب امارات، بحرین سمیت دیگر سعودی اتحادیوں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ سعودی سلطنت کے اصلی تے وڈے پیر مرشد امریکہ کو ’’پرامید اشارے‘‘ مل رہے ہیں کہ بادشاہ غیر سلامت جنگ ختم کرنے کے موڈ میں ہیں۔

امریکہ کی خاتون سفارتکار این پیٹرسن پرویز مشرف کے دور کے آخری ماہ و سال میں پاکستان میں امریکی سفیر تھیں اور انہی کے دور میں پاکستان میں پیٹرسونین ڈیموکریسی کا فارمولا وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت مشرف کے بعد پانچ سال سویلین حکومت تمام تر بحرانوں کے باوجود چلتی رہی۔ آج کل یہ امریکہ کی معاون وزیر خارجہ برائے مشرق قریب ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ مشرق وسطٰی کو آج بھی ماضی کی طرح مشرق قریب ہی قرار دیتا ہے۔ 28 اکتوبر 2015ء کو این پیٹرسن نے امریکی سینیٹ کی فارین ریلیشنز کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا تھا کہ سعودی عرب یمن جنگ ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کے مطابق بہت سے سعودی یہ سمجھتے ہیں کہ یمن جنگ کو زیادہ عرصے جاری نہیں رکھا جاسکتا، کیونکہ یمن کی آبادی اس فوجی ایکشن کی وجہ سے سعودیوں کے خلاف ہوتی جا رہی ہے اور تباہ شدہ یمن کی تعمیر نو کی بھاری ذمے داری بھی سعودی سلطنت ہی پر عائد ہوگی۔

سعودی حکام کی سوچ میں یہ تبدیلی امریکہ کو نظر آرہی ہے، کیونکہ اب سعودیوں کو یمن کی رائے عامہ کا غم بھی کھائے جا رہا ہے، لیکن اگر جنگ سے پہلے وہ سوچ بچار کرلیتے تو شاید یمن کا محاذ کھولنے سے اجتناب کرتے اور اب بقول غالب "ہائے اس زود پشیماں کا پشیمان ہونا!" یمن جنگ اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر یکطرفہ طور پر شروع کی گئی، اس لئے اس کی حیثیت غیر قانونی کہی جائے گی۔ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ 5 لاکھ 35 ہزار بچوں کو غذائی قلت، قحط اور موت کا سامنا ہے۔ یونیسیف کے مطابق یمن میں روزانہ 8 بچے قتل یا معذور ہو رہے ہیں۔ 13 الاکھ سے زائد یمنی در بدر خاک بسر ہوچکے۔ ہمارے لئے یہ محض اعداد و شمار ہوں گے، لیکن یمن کے عوام کے لئے یہ آنکھوں دیکھا حال اور آپ بیتی پر مبنی حقائق ہیں۔ سعودی خائن حکومت اور اس کے اتحادیوں سے نفرت اب یمن کے عوام کے خون میں شامل ہوچکی ہے۔ فلسطین، عراق اور شام کے بعد اب یمن کے عرب عوام ان خائن حکمرانوں کی اسرائیل دوستی کے تلخ نتائج خود بھگت رہے ہیں۔ اب یہ نفرت محبت میں تبدیل کرنا ممکن ہی نہیں۔

این پیٹرسن نے امریکی سینیٹ کی فارین ریلیشنز کمیٹی کو بریفنگ میں مزید بتایا کہ یمن جنگ کے خاتمے کے لئے جنیوا میں نتیجہ خیز مذاکرات ہونے کا امکان ہے اور امریکہ سعودی عرب سے مسلسل اس ایشو پر بات چیت کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ جون کیری نے بھی سعودی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ 31 اکتوبر 2015ء کو بحرین میں منامہ ڈائیلاگ کے عنوان سے ہونے والی سکیورٹی کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ یمن کی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اس سے چند روز پہلے برطانوی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے مذاکرات کی وجہ سے یمن آپریشن کا اختتام ہو رہا ہے۔ لیکن بحرین میں انہوں نے بتایا کہ منصور ہادی عبد ربہ کے وفادار گروہ یمن کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں، اس لئے جنگ جلد ختم ہوجائے گی۔ لیکن ہم آغاز میں ہی عرض کرچکے کہ تاحال امن مذاکرات کی میز پر آنے سے سعودیہ کے کٹھ پتلی گریزاں دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ بیشتر علاقوں پر یمن کی قانونی فوج اور ان کی اتحادی حرکت انصار اللہ کا کنٹرول جوں کا توں ہے۔

یمن کے عوام کو معلوم ہے کہ یمن کی مستعفی حکومت کے سابق وزیراعظم اور مستعفی نائب صدر خالد بحاح سعودی عرب میں مستعفی صدر منصور ہادی عبد ربہ کے ساتھ پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ مستعفی وزیر خارجہ ریاض یاسین قاہرہ میں ہیں۔ یعنی یہ سبھی یمن پر جنگ کرنے والے ملکوں کی نوکری کر رہے ہیں۔ ایسے کٹھ پتلی افراد کو یمن کے عوام حکومت میں کیوں کر برداشت کرلیں گے۔ ایک طرف سعودی افواج نے تعز میں تکفیری دہشت گردوں کو ہتھیار منتقل کرکے جنگ تیز کرنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ 28 اکتوبر 2015ء کو دبئی سے رائٹر کے نمائندے نوح براؤننگ کی رپورٹ میں تعز میں اسلحے کی منتقلی کی خبر دی۔ یاد رہے کہ ستمبر میں ایک خبر آئی کہ قطر کے ہزاروں فوجی بھی میدان جنگ میں یمن کے خلاف صف آرا ہوئے تھے۔ یہ جو این پیٹرسن نے کہا کہ سعودی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں اور بات چیت کا سلسلہ جاری ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی امریکی رائے عامہ کے سامنے ہونی چاہیئے کہ آل سعود اور امریکی حکام نے مل جل کر ہی یمن کا نیا محاذ کھڑا کیا۔ اس کے لئے کئی ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے۔

امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے جاسوسی ادارے ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی نے 2010ء میں رینڈ کارپوریشن کو یمن کی حوثی تحریک پر تحقیقات کا ٹھیکہ دیا تھا اور مئی 2010ء میں وہ رپورٹ آچکی تھی۔ امریکی ادارے کئی عشروں سے اس خطے میں موجود تھے۔ امریکہ کے ڈرون طیارے یمن کی جاسوسی کے لئے سعودی عرب کے فوجی اڈوں سے اڑان بھرا کرتے تھے۔ عدن میں امریکی اسپیشل فورسز اور دیگر کی موجودگی کے بارے میں ہم ماضی میں بیان کرچکے ہیں۔ یمن کو ہر جانب سے گھیرے میں لینے کے باوجود امریکہ اور سعودی اتحاد ناکام ہو رہا ہے۔ یمن کے صوبہ مآرب اور حضرت موت میں سعودی، متحدہ عرب امارات سمیت اتحادی افواج موجود ہیں، القاعدہ اور اس کے حامی قبائل کو فوجی تربیت دی گئی ہے، لیکن تاحال صنعا کا کنٹرو ل حوثی زیدیوں کے حامیوں کے پاس ہے۔ یعنی یمن کے دارالحکومت پر حرکت انصار اللہ کا کنٹرول آج بھی ویسے ہی مضبوط ہے، جیسے جنگ سے پہلے تھا، یمن جنگ کے فاتح کون ہیں، یہ ایک زمینی حقیقت ہی یہ جاننے کے لئے کافی ہے۔

تحریر: عرفان علی


خبر کا کوڈ: 212345

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/news/212345/یمن-کے-دارالحکومت-پر-حرکت-انصار-اللہ-کا-کنٹرول-آج-بھی-مضبوط-ہے

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com