تاریخ شائع کریں2018 22 February گھنٹہ 18:38
خبر کا کوڈ : 313883

امریکہ کی نئی مشکل، لبنان اسرائیل تنازعہ

بدترین مخالفین بھی مان چکے ہیں کہ حزب اللہ لبنانی ریاست و سیاست کی ناقابل تسخیر حقیقت ہے
امریکی حکومت سے زیادہ ملت لبنان سال 1982ء سے جانتی ہے کہ اگر لبنان میں بنائی جانے والی اسرائیلی دیوار کو کوئی گرا سکتا ہے، لبنان کے قدرتی ذخائر سمیت لبنان کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ کوئی کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف حزب اللہ ہی ہے
امریکہ کی نئی مشکل، لبنان اسرائیل تنازعہ
سال 2018ء امریکی سامراجی بلاک اور اس کے پسندیدہ قریبی اتحادیوں کے لئے نئی مشکلات کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ اپنی تمام تر سازشوں اور چالاکیوں کے باوجود امریکی حکومت اس وقت بیک وقت بہت ساری مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ ایک طرف شام کے محاذ پر اسے اپنے نیٹو اتحادی ترکی کی من مانیوں کی وجہ سے مشکل پیش آرہی ہے تو دوسری جانب اس کے سب سے زیادہ محبوب جعلی ریاست اسرائیل نے لبنان کے قدرتی ذخائر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرکے امریکی بلاک کے لئے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور ان کے ماتحت عہدیداران ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کو مارچ میں دوسرے اجلاس کا آسرا دے کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ لبنانیوں کے اسرائیل کے خلاف متفقہ قومی موقف نے امریکی بلاک کو لرزا دیا۔ اب شٹل ڈپلومیسی کی آڑ میں امریکی حکومتی عہدیداران اسرائیل کے وزیر خارجہ کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ لبنان کے سیاستدانوں نے اتنے عرصے بعد ڈھنگ کا کوئی ایک اچھا کام کیا ہے تو وہ یہ ہے کہ اب وہ لبنان کی سمندری حدود میں تیل و گیس کے قدرتی ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے ایک مغربی خبر رساں ادارے کو یہ منصوبہ منکشف کر دیا تھا کہ لبنان کی حکومت تین ملکوں روس، فرانس اور اٹلی کی تین کمپنیوں پر مشتمل کنسورشیم سے تیل و گیس کے ذخائر کی تفصیلات اور پیداوار کا معاہدہ کرنے جا رہی ہے اور یہی نہیں بلکہ 9 فروری 2018ء کو بیروت میں اس معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے۔

حسب توقع اس کا ردعمل تل ابیب سے آنا شروع ہوگیا۔ صہیونی وزیر جنگ اور توانائی کے وزیر دونوں نے لبنان کے ذخائر پر اپنا جھوٹا دعویٰ کر دیا کہ یہ اسرائیل کی ملکیت ہیں۔ لبنان نے واضح کر دیا کہ لبنان اپنے قدرتی ذخائر پر کسی کا بھی دعویٰ یا قبضہ تسلیم نہیں کرے گا۔ لبنان کے سیاستدان جو فرقوں، مسلکوں اور ادیان اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے مختلف گروہوں میں تقسیم تھے، وہ سب اس ایک معاملے پر بغیر کسی تردد کے ہم آواز اور یکجان ہوگئے اور سبھی نے بحیثیت ایک ملت اسرائیل کے جھوٹے دعوے کو مسترد کر دیا۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اس معاملے پر لبنانی ریاست کے موقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے حزب اللہ کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کرا دی۔ امریکی سامراجی بلاک اور ان کے محبوب اسرائیل کی آج تک کی تمام تر سازشوں کی بنیاد لبنانیوں کی تقسیم تھی، لیکن جعلی ریاست کے ان نسل پرست دہشت گردوں کی اس ایک بیان بازی نے خود امریکی سامراجی بلاک و صہیونیوں کی آج تک کی گئی تقسیم کرو اور فائدہ اٹھاؤ پر مبنی ہر سازش کو خود ہی ناکام بنا دیا۔ لبنانی اس وقت بحیثیت ایک قوم و ملت دو مسائل پر متحد و متفق ہیں اور دونوں کا تعلق لبنان کے دشمن اسرائیل سے ہے۔ دوسرا مسئلہ لبنان کی حدود کے اندر صہیونی حکومت کی جانب سے کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرنا ہے۔ اس پر بھی لبنان کی حکومت سمیت ہر لبنانی جماعت اور رہنما نے اتفاق رائے کا مثالی مظاہرہ کیا ہے۔

عرب دنیا میں میڈی ٹیرینیئن سمندر کو بحر متوسط کہا جاتا ہے، جبکہ اردو میں اسے بحیرہ روم کہتے ہیں۔ شام، لبنان و فلسطین و مصر، ایک جانب سے اسی سمندر کے ساحل پر واقع ہیں اور چونکہ یہ پورا خطہ شام تا فلسطین شام کے نام سے ہی معروف تھا، اس لئے اس سمندر کو جو شام تا لبنان ہے، اس کا اصل اور تاریخی نام شام طاس (Levant Basin) ہے۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ فلسطین پر نسل پرست یہودی دہشت گرد صہیونی تحریک کا ناجائز قبضہ کرکے ایک جعلی ریاست بنائی گئی، جس کا نام اسرائیل رکھا گیا، اب یہ شام و لبنان کا زبردستی کا پڑوسی بننے والا جعلی وجود نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان و شام کے بعض علاقوں پر بھی ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ اس جعلی ریاست اسرائیل کے جھوٹے دعوے نے شام طاس کے اس لبنانی علاقے کو کہ جو لبنان کی مثلث نما سمندری حدود کے 860 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، ’’متنازعہ‘‘ علاقہ بنا دیا ہے۔ اٹلی کی ای این آئی، فرانس کی ٹوٹل اور روس کی نوواٹیک کمپنیوں پر مشتتمل کنسورشیم نے بلاک ایک، چار، آٹھ، نو اور دس میں تیل و گیس کے ذخائر کی تفصیلات اور پیداوار کے لئے ٹھیکہ اس کنسورشیم کو دے دیا ہے۔ لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسل نے صہیونی وزرا ء کی بیان بازیوں کے جواب میں واضح کر دیا ہے کہ اگر اسرائیل نے لبنان کی حدود میں تیل و گیس کے ذخائر سے متعلق کاموں میں رکاوٹ ڈالی تو لبنان بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کرے گا۔ لبنانی حکومت کی جانب سے لبنانی حدود میں اسرائیلی دیوار اور لبنانی سمندری حدود پر جھوٹے دعوے کے خلاف متفقہ و ٹھوس موقف اور اسرائیلی بیان بازی کی وجہ سے لبنان اور جعلی ریاست اسرائیل کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس صورتحال میں امریکی حکومت نے خطرے کو بھانپ لیا کہ ویسے بھی لبنان میں اسرائیل مخالف عوامی جذبات شدید ہیں، جنگیں لڑی جاچکی ہیں، لبنانی اسرائیل کو دشمن قرار دیتے ہیں، اس صورت میں بڑھتی ہوئی یہ کشیدگی اس پورے خطے میں امریکی مکاریوں کو ناکام کرتی ہوئی اسرائیل کی نابودی پر منتج ہونے والی کسی جنگ کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔

اس لئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بنفس نفیس بیروت آئے، صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور دیگر حکام و سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کے بعد امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ڈیوڈ سیٹر فیلڈ مسلسل شٹل ڈپلومیسی کر رہے ہیں۔ کبھی وہ جعلی ریاست اسرائیل جاتے ہیں اور وہاں حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور کبھی بیروت میں لبنانی حکام کو رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں تب بھی لبنانی ذرایع ابلاغ میں سیٹر فیلڈ کی سفارتکاری کا تذکرہ سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ بدھ کے روز لبنانی ذرایع ابلاغ نے امریکی ثالثی کی ان کوششوں کی ناکامی کا اعلان کر دیا ہے۔ لبنان کے روزنامہ الجمہوریہ کی خبر سے محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ ان متنازعہ امور کو حل کرنے کے لئے لبنان کی حکومت سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کرے، جبکہ لبنان کی حکومت کی نظر میں اسرائیل فلسطین کا غاصب، عربوں اور لبنان کا دشمن ہے، اس سے مذاکرات کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس سے نام نہاد امن مذاکرات کے لئے ایک خوامخواہ کی نظیر بھی قائم ہوسکتی ہے، اس لئے لبنانی حکومت اس صورتحال سے بچنا چاہتی ہے۔ البتہ معلوم یہ ہوا ہے کہ امریکہ کی کوششوں کا بنیادی ہدف مسئلے کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ لبنان کی حکومت کو اس کے ایسے انتہائی منطقی ردعمل سے باز رکھنا ہے کہ جو اسرائیل سے جنگ کی شکل میں تبدیل ہوسکتا ہے اور امریکہ اسرائیل کو ایسی صورتحال سے بچانا چاہتا ہے۔ 14 فروری 2017ء کو جب ریکس ٹلر سن اردن میں تھے تو انہوں نے بحالت مجبوری لبنان کی حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی عمل کا حصہ مان لیا تھا اور اس کے کردار کو جائز کہا تھا۔ اگلے دن دورہ لبنان میں جب ٹلرسن ایوان صدر بعبدہ محل پہنچے تو انہیں چند منٹ انتظار کرنا پڑا اور کئی عرب ٹی وی چینلز نے یہ مناظر نشر کئے حالانکہ پروٹوکول کے لحاظ سے کوئی غلط کام نہیں ہوا تھا بلکہ ٹلرسن وقت سے چند منٹ پہلے پہنچ گئے تھے۔

صدر میشال عون سے ملاقات کے بعد وہ بغیر ذرایع ابلاغ سے بات چیت کے چلے گئے تھے البتہ وزیراعظم سعد حریری سے ملاقات کے بعد خبرنگاران سے گفتگو میں انہوں نے حزب اللہ کے خلاف روایتی امریکی موقف دہرایا، لیکن اس وقت لبنانی قوم امریکی موقف کی بجائے اسرائیلی خطرے اور دھمکیوں کے خلاف اپنے قومی اتحاد کو ترجیح دے رہی ہے۔ امریکہ کی صہونی لابی اور اس لابی کے ذرائع ابلاغ بھی لبنان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں کہ لبنان امریکہ کا دوست نہیں ہے۔ اس پروپیگنڈہ کا مطلب یہ کہ امریکی وزیر خارجہ اور معاون وزیر خارجہ اسرائیل کے حق میں لبنانی حکومت اور لبنانی ملت کو جھکانے کا جو ایجنڈا لے کر گئے تھے، یہ مشن ناکام ہوچکا ہے! اب امریکی بلاک کی تمام تر سازشیں مئی میں ہونے والے عام انتخابات تک حزب اللہ کے خلاف سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم اور ملت لبنان کو مختلف بہانوں سے تقسیم کرنے پر مرکوز رہیں گی۔ باوجود اس کے کہ مقاومت اسلامی کے بلاک کی استقامت تاحال ناقابل شکست ہے، باوجود اس کے کہ امریکی سازشیں کافی حد تک ناکام ہوچکی ہیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی جاری ہے۔ یہ جنگ صرف فوجی محاذ پر نہیں، بلکہ سیاسی، سفارتی، تبلیغاتی، ثقافتی و مذہبی محاذوں پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ یہ نفسیاتی و اعصابی جنگ بھی ہے اور اسے ہلکا نہ لیا جائے۔ لبنان اس بڑی جنگ کا ایک چھوٹا سا سہی لیکن اہم حصہ ہے۔ ملت لبنان کا اسرائیل کے خلاف منطقی ہوشمندانہ و مدبرانہ متفقہ ردعمل پوری دنیا کے لئے یہ پیغام ہے کہ امریکہ و اسرائیل کا حزب اللہ کے خلاف بیانیہ جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ لبنانیوں کا متفقہ قومی بیانیہ یہ ہے کہ لبنان کو اصل خطرہ اسرائیل سے ہی تھا، ہے اور اسرائیل کی نابودی تک یہ خطرہ موجود رہے گا! اور امریکی حکومت سے زیادہ ملت لبنان سال 1982ء سے جانتی ہے کہ اگر لبنان میں بنائی جانے والی اسرائیلی دیوار کو کوئی گرا سکتا ہے، لبنان کے قدرتی ذخائر سمیت لبنان کی جغرافیائی سالمیت کا تحفظ کوئی کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف حزب اللہ ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے مخالفین نہیں ہیں، لیکن وہ بدترین مخالفین بھی مان چکے ہیں کہ حزب اللہ لبنانی ریاست و سیاست کی ناقابل تسخیر حقیقت ہے، جسے مائنس نہیں کیا جاسکتا!

تحریر: عرفان علی
بشکریہ: اسلام ٹائمز
https://taghribnews.com/vdcfcmdmmw6dyca.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ