پاکستانی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دورہ ایران، دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کے فروغ کا باعث ہو گا۔
اپنے ایک انٹرویو میں پاکستانی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ ایران سے دونوں ملکوں کے اعلی سطحی حکام کے درمیان رابطے مضبوط ہوں اور تہران اسلام آباد تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔
مشاہد حسین سید نے عمران خان کے دورہ ایران پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمارا قریبی ہمسایہ اور دوست ملک ہے جبکہ دونوں ممالک مفادات بھی مشترک اور طویل المدت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ اسٹریٹیجک اور اہم تعلقات ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سارے شعبوں بالخصوص معاشی اور وہ سیکورٹی شعبوں میں تعاون کی توسیع کا خواہاں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان وزیر اعظم عمران خان اتوار کو دو روزہ دورے پر ایران شروع ہو رہا ہے۔ وہ اپنے دورے کا آغاز ایران کے مذہبی شہر مشہد اور امام رضا (ع) کے روضہ پاک سے ہو رہا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف تعاون، سرحدی سیکورٹی میں اضافہ اور بہت سے دوسرے موضوعات بھی دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مذاکرات میں زیر بحث آئیں گے۔
اسی تناظر میں ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات چیت اور مختلف شعبوں خاص طور سے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
اسی دوران ایران میں دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والوں کے لواحقین نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں حکومت اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی جنوب مغربی سرحدوں کی نگرانی میں اضافہ کرے تاکہ دہشت گرد اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحدوں میں داخل نہ ہو سکیں۔
شہیدوں کے اہل خانہ نے اپنے اس خط میں پاکستان کے وزیراعظم اور دیگر اعلی سیاسی، فوجی اور سیکورٹی عہدیداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جس طرح کشمیر اور طورخم جسے مقامات پر ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کی سیکورٹی کو اہمیت دیتے ہیں اسی طرح ایران کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کی سیکورٹی کو بھی اہمیت دیں۔
دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کے خط میں سرحدی سیکورٹی اور نگرانی میں اضافے کو دہشت گردی پر قابو پانے کا محض ایک طریقہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملکوں کے تعاون کے بغیر سلامتی کا حصول ممکن نہیں۔
اس خط میں اسلام آباد حکومت کی جانب سے سرحدوں کی درست نگرانی نہ ہونے کے باعث پاکستانی علاقے سے دہشت گردوں کے ایران میں داخلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کی سرحدی سلامتی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور سینکڑوں ایرانی شہری اور سرحدی محافظین کی جانیں جا چکی ہیں۔
دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والے ایرانی خاندانوں کے خط میں ایران اور پاکستان کے عوام کے درمیان تعلقات کو تاریخی اور انتہائی خوشگوار قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان دونوں ملکوں کے عوام دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
خط میں گزشتہ جمعرات کو پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی حکومت اور عوام نیز مرنے والوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں نے نہ صرف ایران بلکہ پاکستان کے عوام اور اس ملک کی ترقی و پیشرفت کو نشانہ بنا رکھا ہے۔
شہدا کے اہل خانہ کے خط میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ بلاشبہ پاکستان میں تعلیم، صحت اور روزگار جیسے شعبوں کی ترقی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جدوجہد اور ان کے خاتمے سے جڑی ہوئی ہے۔