QR codeQR code

شہدائے بغداد کو سلام

31 Dec 2020 گھنٹہ 14:30

اللہ اکبر، شہید جان دے کر بھی زندہ ہوتا ہے اور اس رزاق سے رزق پاتا ہے، جس کے علاوہ کوئی رزق دینے والا نہیں ہے۔ انسان  کے حواس کی طاقت نہیں ہے کہ وہ شہید کی زندگی اور اس کے رزق کا ادراک کرسکے۔ کامیابی اور ناکامی کے کچھ پیمانے انسانوں کے تخلیق کردہ ہیں، جو ظاہری زندگی کے اصولوں پر مبنی ہیں، یہ بھی اتنے درست نہیں ہیں کہ انہیں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ شہادت کے پیمانے بالکل مختلف ہیں، یہاں الہیٰ قانون کے تحت وہ ابدی کامیابی حاصل ہوتی ہے، جو بے نظیر و بے مثال ہے۔ اسی لیے شہید کو نہ تو غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی کفن دیا جاتا ہے بلکہ اسے اسی حالت میں پرودگار کے دربار میں روانہ کیا جاتا ہے، جس لباس و حالت میں اس نے جان آفرین کے سپرد کی ہوتی ہے


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
بشکریہ: اسلام ٹائمز

 مدت سے ایک فکر نے ذہن کو جکڑ رکھا کہ فلسفہ شہادت کیا ہے؟ لوگوں کو یہ عالی مرتبہ کیسے مل جاتا ہے؟ وہ کون سے اعمال ہیں جو ان کو اس مقام تک پہنچاتے ہیں؟ جیسے ہر کسی کا جینا ایک سا نہیں ہوتا، اسی طرح ہر کسی کا مرنا بھی ایک سا نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگوں کے لیے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا عیب ہے، ان کی آنکھوں کی چمک بتاتی ہے کہ قدرت نے ان کی قسمت میں شہادت لکھ دی ہے۔ یہ موت اختتام زندگی ہے، اللہ کو یہ پسند نہ تھا کہ جو زندگی بھر اس کے راستے کی جدوجہد کرتا رہا اور اس کے نام کی سربلندی کے لیے جان تک دے دے، اسے عام مردوں کی طرح ہی قرار دے دیا جائے۔ آواز قدرت آئی: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ "اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا، وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔"

اللہ اکبر، شہید جان دے کر بھی زندہ ہوتا ہے اور اس رزاق سے رزق پاتا ہے، جس کے علاوہ کوئی رزق دینے والا نہیں ہے۔ انسان  کے حواس کی طاقت نہیں ہے کہ وہ شہید کی زندگی اور اس کے رزق کا ادراک کرسکے۔ کامیابی اور ناکامی کے کچھ پیمانے انسانوں کے تخلیق کردہ ہیں، جو ظاہری زندگی کے اصولوں پر مبنی ہیں، یہ بھی اتنے درست نہیں ہیں کہ انہیں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ شہادت کے پیمانے بالکل مختلف ہیں، یہاں الہیٰ قانون کے تحت وہ ابدی کامیابی حاصل ہوتی ہے، جو بے نظیر و بے مثال ہے۔ اسی لیے شہید کو نہ تو غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی کفن دیا جاتا ہے بلکہ اسے اسی حالت میں پرودگار کے دربار میں روانہ کیا جاتا ہے، جس لباس و حالت میں اس نے جان آفرین کے سپرد کی ہوتی ہے۔

بہت سے لوگ اپنے ملک کے مفادات کے لیے جان قربان کرتے ہیں، ان کو خراج تحسین پیش کرنا اور ان کے ایام کو منانا اس ملک و قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کے لیے انہوں قربانی دی ہوتی ہے۔ کچھ شخصیات ملکوں سے ماوراء ہو کر انسانیت کی خدمت کرتی ہیں اور تمام خطرات کے باوجود دوسروں کو بچانے کے لیے میدان عمل میں آجاتے ہیں۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی انہی خصوصیات کے حامل تھے، کج فکر لوگوں نے انہیں ایک  فرقہ سے منسوب کرنے کی کوشش کی، تاکہ ان کی شخصیت کو متنازع بنایا جا سکے۔ مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مسلسل حمایت امریکہ و اسرائیل کی دشمنی کی بنیاد تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے جنازے میں  شریک فلسطین کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے انہیں شہید قدس قرار دیا۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ تھا، جو انہیں فرقہ کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے، فلسطین کے وزیر کا بیان آگیا کہ کس طرح ایران کی شدید اقتصادی مشکلات کے باوجود انہوں نے فلسطین کی انسانی بنیادوں پر مدد کی تھی۔

عراق کے یوناتھن بیٹکولیا کہتے ہیں کہ جب داعش نے تین سو ایسوری مسیحیوں کو  اغوا کر لیا تو مجھے کوئی اور راستہ نہیں نظر آیا، میں نے جنرل قاسم سلیمانی سے مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے ہماری مدد کی، ہمارے دو سو پچھتر لوگ بچا لیے گئے، باقیوں کو داعشیوں نے پہلے ہی قتل کر دیا تھا۔ یقیناً موصل کے چرچ کو صاف کرتے اور ٹوٹی صلیبیں جوڑتے وہ مسیحی بھی جنرل قاسم سلیمانی کے شکرگزار ہوں گے، جس کی کوششوں کی وجہ سے داعش جیسے خونخوار گروہ کو شکست ہوئی۔ داعش دمشق پر قبضہ کرنے ہی والی تھی اور اس سے وابستہ گروہ بار بار  دارالحکومت پر حملہ آور ہو رہے تھے۔ ایسے میں روضہ مبارک حضرت زینب بنت علی ؑ  کو خطرہ درپیش ہوگیا۔ داعش کا سابقہ یہ تھا کہ وہ مزارات کی توہین کرچکی تھی، یہاں تک کہ قبریں اکھاڑ کر میتیں نکال چکی تھی۔ ایسے میں پوری دنیا کے مسلمان بالعموم اور شیعہ بالخصوص مضطرب ہوگئے کہ کہیں جنت البقیع کی طرح دمشق کے مزارات کو بھی گرا نہ دیا  جائے۔

اسی طرح داعش سامرا و کاظمین کے قریب پہنچ چکی تھی، اندر بھی منافقین موجود تھے، کربلا سے بھی ان کی مسافت زیادہ نہیں تھی، مگر جیسے ہی مرجعیت کا فتویٰ آیا، جنرل قاسم سلیمانی و ابو مہدی مہندس نے بہترین پلاننگ کی کہ داعش عراق سے قصہ پارینہ بن گئی اور آج دمشق میں روضہ سیدہ زینبؑ محفوظ ہے۔ دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس جنگ کو فرقہ واریت کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی، جو ظلم ہے۔ داعش نے شیعہ پر تو مظالم کے پہاڑ توڑے ہی تھے، جیسے موصل میں دو ہزار کیڈٹس کو ذبح کر دیا گیا، اہلسنت بھی داعشیوں کے مظالم کا شکار ہوئے، موصل جیسا ہنستا بستا شہر ان بھیڑیوں نے خاک کا ڈھیر بنا دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی کی کوششوں سے حاصل ہونے والی یہ کامیابیاں دراصل عراق کے مظلوم انسانوں کی کامیابیاں تھیں۔ داعش کا خاتمہ سنی، شیعہ، مسیحی، ایزدی کے دشمن ہی نہیں، انسانیت کے دشمنوں کا خاتمہ ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی نے کرد علاقے اردبیل کو داعش کے ہاتھوں  میں جانے سے بچایا۔ داعش اس سے محض دو گھنٹے دور تھی کہ جنرل قاسم سلیمانی ان کی مدد کو آئے اور داعش کو شکست دی۔ یہ اس بات کی بھی تردید ہے کہ یہ کوئی نسلی جنگ تھی، جنرل قاسم سلیمانی نے رنگ، نسل اور مذہب دیکھے بغیر انسانوں کی مدد کی۔ ایران کے وزیر خارجہ نے چند دن پہلے افغانستان کے طلوع ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے بون کانفرنس میں جنرل قاسم سلیمانی کا بنیادی کردار تھا، انہوں نے افغانستان میں جمہوریت کی تجویز دی تھی۔ شہدائے بغداد کو سلام ،کیونکہ ان کی کوششوں سے ہی آج داعش کا خطرہ ٹلا، ورنہ پورا خطہ بالعموم اور مسلمان ممالک بالخصوص آج اس فتنے کے اثر میں ہوتے اور ان میں آگ لگی ہوتی۔


خبر کا کوڈ: 487927

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/news/487927/شہدائے-بغداد-کو-سلام

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com