امریکہ میں آنیوالی صدارتی تبدیلی کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں میں تو یقیناً کوئی تبدیلی ممکن نہیں، لیکن اہلکار اور ٹھیکے دار ضرور تبدیل ہونگے، اس خوف کی وجہ سے ٹرامپ جاتے جاتے اپنے اتحادی کم آلہ کاروں کے لئے کچھ آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انصاراللہ کو دہشت گرد قرار دینا، اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یمن کی سالویشن حکومت کے ترجمان نے تحریک انصار اللہ کو دہشتگرد قرار دینے کے امریکی فیصلے کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے زور دے کر کہا ہے کہ امریکہ خود دہشتگردی کا مرکز ہے اور دنیا بھر میں دہشتگردی پھیلانے میں مصروف ہے۔ اب تو نئے صدر نے پرانے صدر کو داخلی دہشتگردی کا سرغنہ تک کہہ دیا ہے۔
ادھر یمن کی تحریک انصار اللہ نے کہا ہے کہ جارح سعودی اتحاد کو جو ٹرمپ حکومت پر بھروسہ کئے ہوئے تھا، ٹرمپ سے عبرت حاصل کرنا چاہیئے اور یمن کے خلاف جارحیت کا سلسلہ بند کر دینا چاہیئے۔ تحریک انصار اللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا کہ امریکی حکومتوں خاص طور سے ٹرمپ حکومت نے جارح اتحاد کو یمن کا ظالمانہ محاصرہ اور جارحیت جاری رکھنے کی ترغیب دلائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یمن پر حملہ کرنے والے ممالک کو اپنی جارحیت کا سلسلہ بند کر دینا چاہیئے، کیونکہ اب یمن کے خلاف اس نیم جان اور کمزور اتحاد کے اقدامات کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں ہے۔
امریکہ کی نظر میں پوری ملت یمن دہشتگرد ہے۔ وہ یمنی عوام کے قتل عام اور بھوک و افلاس کی حمایت کر رہا ہے اور پوری دنیا میں دہشتگردی پھیلا رہا ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے کا انصاراللہ اور یمن کے عوام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ یمنی عوام امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی راہ پر گامزن رہیں گے۔ مسئلہ بن سلمان کا ہے، ٹرامپ کے داماد کوشنر کے بعد کیا وہ جوبائیڈن کا آلہ کار بننے کے لئے تیار ہے؟، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نیا امریکی صدر مشرق وسطیٰ میں نئے مہرے تعینات کرے گا۔