’یہ پلاسٹک کا وہ کچرا تھا جو چاروں جانب پھیلا ہوا تھا، استعمال شدہ کپ، چمچ اور دیگر برتن جو زائرین استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ہم ’زائرین‘ اس مقدس سرزمین سے کیا برتاؤ کررہے ہیں۔ وہ سرزمین جو ہم پر برکتیں اور محبتیں نچھاور کرتی ہے، سکون بخشتی ہے لیکن ہم بدلے میں اسے کیا دے رہے ہیں؟‘
’وہ ایک بہت خاص لمحہ تھا! میں شاہراہِ کربلا و نجف پر پیدل سفر کر رہی تھی۔ رات کا وقت تھا اور کورونا کے باعث بہت کم زائرین تھے۔ حد نگاہ تک روشنیاں تھیں، برکتیں تھیں، روحانیت کا ابدی احساس تھا جو ایسے مقامات پر کسی انجانی خوشبو کی طرح آپ کو گھیر لیتا ہے۔ ایک سکون اور اطمینان کی کیفیت تھی۔ تاہم کچھ اور بھی تھا جو میری نگاہ اور شاید دل کو بھی کھٹک رہا تھا مگر میں سمجھ نہیں پارہی تھی۔
’پھر میرے قدم رک گئے اور منظر گویا صاف ہوگیا۔ اردگرد جو مناظر میرے سامنے تھے وہ بہت تکلیف دہ تھے۔ زائرین آگے بڑھ رہے تھے، ان میں سے شاید ہی کسی نے پلٹ کر دیکھا ہو کہ وہ پیچھے کیا چھوڑے جارہے ہیں۔
’یہ پلاسٹک کا وہ کچرا تھا جو چاروں جانب پھیلا ہوا تھا، استعمال شدہ کپ، چمچ اور دیگر برتن جو زائرین استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ہم ’زائرین‘ اس مقدس سرزمین سے کیا برتاؤ کررہے ہیں۔ وہ سرزمین جو ہم پر برکتیں اور محبتیں نچھاور کرتی ہے، سکون بخشتی ہے لیکن ہم بدلے میں اسے کیا دے رہے ہیں؟‘
یہی تالیف قلب کا وہ خاص لمحہ تھا جو ایک روشنی بن کر زہرا علی سید کے دل پر اترا اور انہیں تبدیل کرگیا۔ کراچی کی زہرا علی سید 2014ء سے مسلسل کربلا، نجف اور دیگر مقامات مقدسہ کا سفر کررہی ہیں۔
زہرا علی ’دی گرین پِلگرم‘ نامی پلیٹ فارم یا تحریک کی بانی ہیں جو اس وقت پوری دنیا میں کام کررہی ہے۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد کربلا اور نجف کے مقدس شہروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے محفوظ کرنا ہے۔ اس تحریک کی خوبصورت بات یہ ہے کہ اس سے وابستہ تمام لوگ ملک و قوم سے بالاتر ہوکر رضاکارانہ طور پر کام کررہے ہیں۔ روایتی این جی اوز کے برعکس یہ لوگ کوئی فنڈنگ نہیں لیتے اور تمام اخراجات اپنے طور پر پورے کرتے ہیں۔
زہرا ویسے تو بنیادی طور پر ماحولیات سے وابستہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کرتی رہتی ہیں۔ مختلف اخبار اور جرائد میں کالم نگاری کے ساتھ ساتھ وہ سرٹیفائیڈ سسٹین ایبل ایجوکیٹر ہیں اور ’لرننگ گارڈن‘ اور ’کراپس ان پوٹس‘ جیسے اداروں کی بانی بھی ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’دی گرین پِلگرم‘ قائم کرنے کا خیال کیسے آیا تو زہرا نے جواب دیا کہ ’کربلا جانے کا پروگرام تو میں بہت پہلے سے بنارہی تھی، ہر سال مختلف ٹریول گروپس سے معلومات لیتی رہتی لیکن پہلی بار 2014ء میں کربلا جانے کی سعادت حاصل ہوئی اور پھر میں مسلسل جاتی رہی۔ کئی سال تو ایسے تھے کہ جن میں سال میں دو، تین بار بھی گئی۔ یہ 2019ء کا سال تھا، میں کربلا میں تھی اور ہر جگہ پھیلی پلاسٹک کی آلودگی نے گویا میرے دل کو جکڑ لیا تھا‘۔
عراق کی سرزمین پچھلی کئی دہائیوں سے خاک و خون سے نبرد آزما رہی ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ شکستہ حال ان علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات کا حصول تک مشکل ہے۔ تعلیم و صحت ہو یا پینے کے صاف پانی کی سہولت، یہ سب ایک خواب ہے۔ کربلا دنیا کے قدیم اور اسلامی تاریخ کے ایک اہم دریا، دریائے فرات کے کنارے واقع ہے۔ ارارات کی برف پوش پہاڑیوں سے نکلنے والا یہ دریا ایک طویل سفر کے بعد عراق میں داخل ہوتا ہے۔ کربلا کا میدان اسی دریا کے کنارے واقع ہے یہاں کی لہو رنگ مٹی پر بہادری، ہمت اور شجاعت کی ایک انوکھی داستان رقم ہوئی۔
یہیں رسول اللہﷺ کے لاڈلے نواسے حضرت حسینؓ اور ان کے جاں نثاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کا مقبرہ اسی کربلا میں واقع ہے اور کچھ فاصلے پر حضرت عباسؓ کا مزار ہے۔ پورا سال زائرین کا ہجوم دنیا بھر سے ان دونوں مقابر کی زیارت کرنے آتا ہے جبکہ محرم اور اربعین (چہلم) پر یہ تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ قریب ہی نجف کا شہر ہے جہاں حضرت علیؓ کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہاں بھی زائرین کا ہجوم سال بھر موجود رہتا ہے۔ دریائے فرات ذرا فاصلے پر بہنے والے دریائے دجلہ کے ساتھ ساتھ بہتا ہوا آپس میں مل کر شط العرب کے مقام پر خلیج فارس میں شامل ہوجاتا ہے۔
دریائے فرات کے کنارے آباد ہونے کے باوجود کربلا اور نجف کے شہروں میں پینے کے صاف پانی کا فقدان ہے۔ یہ دریا جو عراق کے لوگوں کے لیے اہم آبی وسیلہ تھا، اب بُری طرح سے آلودہ ہوچکا ہے۔ پے درپے جنگوں نے اسے آلودہ تر کردیا ہے۔ ماضی میں ان دریاؤں میں لاشیں اور بارود بھی بہا دیا جاتا تھا۔ شدید آلودگی کے باعث اس دریا کا پانی کسی طور پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہاں کے مقامی لوگ اور آنے والے زائرین پانی خرید کر پیتے ہیں مگر یوں مسئلہ اور گمبھیر ہوجاتا ہے کیونکہ یہ پانی بوتلوں میں نہیں بلکہ پیک کیے ہوئے کپوں میں فراہم کیا جاتا ہے۔
مزارات پر آنے والے زائرین انہی کپوں کا پانی خرید کر پیتے ہیں پھر چائے، کافی کے کپ اور چمچ الگ آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ زہرا کا کہنا تھا کہ ’مزارات پر تو صفائی کی صورتحال اطمینان بخش ہے، وہاں سے یہ پلاسٹک سمیٹ کر ری سائیکلنگ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ ہر طرف ان پلاسٹک کے کپوں کا ڈھیر نظر آتا ہے۔ حتی کہ دنیا کے قدیم قبرستان وادی سلام جہاں انبیاء کی قبور بھی موجود ہیں وہاں بھی پلاسٹک کی آلودگی پھیلی ہوئی ہے، اور وہاں بھی ہر طرف کچرا ہے‘۔
زہرا نے بتایا کہ جب انہوں نے اس حوالے سے اعداد و شمار اکٹھے کیے تو وہ ہوش اُڑا دینے والے تھے۔ صرف کربلا اور نجف کی بات کی جائے تو یہاں 2019ء میں 6 کروڑ کے قریب زائرین اور سیاح آئے تھے۔ ہر شخص ایک دن میں کم از کم 6 سے 7 کپ پانی پیتا ہے اور 2، 3 بار کافی۔ گویا ہر شخص روزانہ اوسطاً 10 کپ استعمال کرتا ہے۔ اب اسے 6 کروڑ سے ضرب دے دیجیے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پلاسٹک کے اس انبار کو ٹھکانے لگانا کتنا مشکل ہوگا۔ ہوٹلوں میں بھی پانی کی بوتلوں کی جگہ یہی سیلڈ کپ فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس پلاسٹک کو ٹھکانے لگانے سے متعلق حکومت کی صلاحیت صرف 40 فیصد ہے۔ گویا بقیہ 60 فیصد پلاسٹک کا کچرا شہر کی گلیوں، مزارات اور قبرستانوں میں جوں کا توں موجود رہتا ہے اور گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
زہرا نے کربلا میں رہتے ہوئے اپنے فیس بک پیج اور اپنے دوستوں کی معلومات کے لیے پلاسٹک کی اس آلودگی کے حوالے سے ایک ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈال دی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وہ 2019ء کا سال تھا اور کربلا کے سفر کا آخری دن تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، رات کے ساڑھے 3 بج رہے تھے، چاروں جانب سناٹا تھا۔ کورونا کے باعث بہت کم لوگ موجود تھے‘۔ وہاں انہوں نے پہلی بار پلاسٹک کی آلودگی کے حوالے سے اپنی معلومات اور مشاہدے پر مبنی ایک مختصر ویڈیو بنا کر فیس بک پر پوسٹ کردی۔ وہ ویڈیو کسی طرح وائرل ہوگئی۔
زہرا نے بتایا کہ ’میں اگلے دن صبح نجف چلی گئی، وہاں لوگ مجھے پہچان رہے تھے اور ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ یہ وہی ویڈیو والی لڑکی ہے۔ اس ویڈیو کا پیغام کسی خوشبو کی طرح پھیل گیا تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہی ویڈیو اس تمام تحریک کی بنیاد بنی۔ ویڈیو کے فوراً بعد بہت سے لوگوں نے ڈھونڈ کر ان سے رابطہ کیا۔ ایک پاکستانی بھی ان سے ملنے آئے جو عراق میں اسکول اور مدارس چلاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہیں ایک علاقہ ہے جہاں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور ہندوستانی رہتے ہیں جو ہوٹلوں کی صنعت میں کام کرتے ہیں۔ یہ غریب علاقہ ہے اور نشیب میں واقع ہے لہٰذا شہر کا تمام کچرا وہاں جمع ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب دکھانے کے لیے زہرا کو لے جانا چاہتے ہیں مگر آلودگی اتنی زیادہ ہے کہ وہ رسک نہیں لے سکتے۔
مزارات مقدسہ کی انتظامیہ نے بھی زہرا سے رابطہ کیا اور اس حوالے سے تعاون کی درخواست کی۔ زہرا نے پاکستان واپس جاکر ان سب کو پلاسٹک ٹھکانے لگانے کے حوالے سے بہت سے منصوبے تیار کرکے بھیجے جن پر کام جاری ہے۔
زہرا کہتی ہیں کہ شاید زائرین کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ جو پلاسٹک کی آلودگی پھیلا رہے ہیں وہ اس سرزمین اور یہاں کے لوگوں کے لیے کتنی مشکل کا باعث بن رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر زائرین کی توجہ اس طرف دلائی جائے تو شاید صورتحال کچھ بہتر ہوسکے۔ انہیں اندازہ ہوا کہ اس حوالے سے لوگوں میں آگہی کا فروغ ضروری ہے۔ انہوں نے ’دی گرین پِلگرم‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا اور پھر جلد ہی سیکڑوں لوگ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں آئے۔
اس وقت نہ صرف کربلا اور نجف کے مزارات کی انتظامیہ اس حوالے سے کام کر رہی ہے بلکہ مشہد میں امام علی رضا کے روضے کی انتظامیہ خصوصاً ان کے میڈیا سیل کے لیے زہرا پمفلٹ، پوسٹرز اور دیگر معلوماتی مواد تیار کرتی ہیں جو 14 زبانوں میں ترجمہ کرکے زائرین میں بانٹا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے گروپ جو زائرین کے لیے سفر کا اہتمام کرتے ہیں ان کے لیے بھی معلومات کی ترسیل کا کام جاری ہے۔ حیرت انگیز طور پر صرف عراق سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے مثبت ردِعمل آرہا ہے۔ زہرا کہتی ہیں کہ یہ معجزوں کی سرزمین ہے۔
زہرا 2014ء میں پہلی بار اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ وہاں گئی تھیں، اس وقت وہاں جنگ ہورہی تھی اور وہ ایک انجان گروپ کے ساتھ گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’تنخواہ کے پیسے جمع کرکے وہاں پہنچے تھے۔ حرم کے اطراف میں گولیوں کے نشانات تھے۔ ہر قدم پر چیک پوسٹ تھی اور رکاوٹیں لگی ہوئی تھیں، سخت سیکیورٹی تھی۔ جنگ کا ماحول تھا، ہر وقت 7، 8 جنازے موجود ہوتے، جن میں فوجیوں کی بھی میتیں ہوتیں۔ فوجی ان جنازوں کو سلامی پیش کررہے ہوتے۔ ہمیں زبان آتی تھی اور نہ ہمیں زیادہ معلومات تھیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کون سا مزار حضرت حسینؓ کا ہے اور کون سا حضرت عباسؓ کا ہے۔
’لیکن اس سب کے باوجود سمجھ لیں کہ اس سرزمین سے عشق ہوگیا تھا۔ عراقی خواتین لوگوں کو روک روک پوچھتی تھیں کہ آپ حضرت حسینؓ کے زوار ہیں تو ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔ یہ سب اس جنگ زدہ ملک کے غریب لوگ تھے۔ اس کے باوجود کمال مہربانی کا جذبہ تھا۔ انہیں جب معلوم ہوتا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں تو کہتیں، ہمیں خدمت کا موقع دیں، ہمارے گھر میں ٹھہریں۔ کچھ نہ کچھ ہاتھ میں پکڑا دیتی تھیں۔ سیکھنے کے لیے یہ شاندار سبق تھا۔ صرف وسائل سے ہی آپ کسی کی مدد نہیں کرسکتے بلکہ یہ خدمت کا جذبہ ہوتا ہے جو آپ سے بہت کچھ کرواتا ہے۔ انا، تکبر، اسٹیٹس، پیسہ سب کچھ بہت پیچھے رہ جاتا ہے‘۔
زہرا کے مطابق ’اس دور میں دہشتگردی بہت زیادہ تھی۔ مسلسل حملے ہوتے تھے۔ سڑک بہت تیزی سے پار کرنی ہوتی تھی ورنہ حملے کا خوف رہتا۔ میں وہیں تھی جب قریب ہی حملہ ہوا تھا۔ لیکن پھر وقت تبدیل ہوا، 2018ء میں، میں اکیلی گھومتی تھی، میرے رابطے بن گئے تھے اور میں نے تھوڑی بہت زبان بھی سیکھ لی تھی۔
’نجف میں دنیا کا قدیم اور تاریخی قبرستان ’وادی سلام‘ موجود ہے۔ یہاں بڑی بڑی نامور ہستیاں مدفون ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے مزارات بھی اسی قبرستان میں موجود ہیں۔ اس قبرستان میں بھی ہر طرف پلاسٹک کی آلودگی بکھری پڑی ہے۔ میں 3 ماہ بعد جاتی تو صورتحال بد سے بدترین ہوچکی ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ قبریں تک اس آلودگی میں غائب ہورہی تھیں۔ بڑے بڑے علما کی قبروں پر پلاسٹک بکھرا دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی تھی۔ دریائے فرات سے نکلنے والی نہر شہر کے درمیان سے گزرتی ہے، جو پہلے صاف تھی لیکن چند ماہ بعد پلاسٹک سے بھر چکی تھی۔‘
زہرا کے ساتھ رضاکار دیگر کئی ممالک میں اس حوالے سے آگہی پھیلا رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ محرم کی مجالس اور رمضان کے دوران سحر و افطار میں کھانے پینے کے انتظامات میں پلاسٹک کے برتن استعمال نہ کیے جائیں۔ بہت سی جگہوں پر اس حوالے سے کامیابی حاصل ہوئی ہے اور لوگ آسانی سے اپنی عادتیں بدل رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی ویڈیو ایک بڑی تحریک کی بنیاد بن گئی ہے۔
زہرا بتاتی ہیں کہ ’اس وقت دنیا کے مختلف خطوں کے 9 ممالک میں ہمارے رضاکار موجود ہیں جو ’دی گرین پِلگرم‘ کے پلیٹ فارم سے ’پلاسٹک فری کربلا اور نجف‘ کے لیے کام کررہے ہیں۔ یہ سب مختلف رنگ و نسل اور ممالک کے لوگ ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں لیکن اس مقدس سرزمین نے ہمیں ایک مشترکہ رشتے میں باندھ رکھا ہے۔ اس حوالے سے بڑی خوبصورت اور حوصلہ افزا مثالیں سامنے آرہی ہیں۔
’مثلاً آسٹریلیا کا اسلامک سینٹر اب مکمل طور پر ماحول دوست ہوچکا ہے۔ اس اسلامک سینٹر میں صرف آسٹریلیا میں رہنے والے مختلف قومیتوں کے لوگوں نے مل کر کام کیا ہے۔ پورا رمضان کوئی پلاسٹک کا برتن استعمال نہیں ہوا۔ اس میں اہم کردار اس سینٹر کے عالم اور ان کی اہلیہ کا ہے جنہوں نے پہلے خود عمل کیا پھر دوسروں نے ان کی تقلید کی۔
’جرمنی میں ایک عراقی خاتون ہیں جنہیں جرمن زبان آتی ہے تو وہ ہمارے تیار کردہ پمفلٹ، پوسٹرز اور دیگر معلوماتی مواد کو جرمن زبان میں ترجمہ کرکے لوگوں تک پہنچا رہی ہیں۔
’کراچی میں اب کچھ ٹریول گروپ ماحول دوست ہوچکے ہیں اور وہ اپنے گروپ کے لوگوں کو سفر کے لیے اسٹیل کے چمچ، دیگر برتن اور پانی کے لیے بوتل فراہم کرتے ہیں جسے دوبارہ بھرا جاسکتا ہے۔‘
زہرا کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے سفر میں پانی کے لیے بوتل رکھی تھی تو مجھے کوئی کپ استعمال نہیں کرنا پڑا۔ ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ایک بوتل استعمال کرکے آپ 100 پلاسٹک کے کپوں کی آلودگی کم کرسکتے ہیں‘۔
دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن ایک سماجی تبدیلی آرہی ہے۔ لوگ اپنی عادتیں بدل رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی راستے بند ہیں تو اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچادیں تاکہ اب جب بھی لوگ کربلا اور نجف جائیں تو تبدیلی واضح طور پر نظر آئے۔
زہرا کا کہنا ہے کہ ’ہماری اس تحریک کے نام یعنی ’پلاسٹک فری کربلا اور نجف‘ سے لگتا ہے کہ یہ صرف شیعہ افراد کی تحریک ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ کتنے ہی سُنی بہن بھائی ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ کی محبت ہر مسلمان کا اثاثہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ اپنے رسول اللہﷺ سے محبت کریں اور ان کے پیاروں سے نہ کریں‘۔