سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ 2 ارب سال پہلے چاند پر آتش فشانوں سے لاوا اُبل کر اس کی سطح پر پھیل رہا تھا۔
یہ دریافت پچھلے سال دسمبر میں چینی خلائی مشن ’’چانگ ای 5‘‘ کے ذریعے چاند سے لائے گئے پتھروں اور مٹی کے تفصیلی تجزیئے سے ہوئی ہے جس نے چاند کی ابتداء اور ارتقاء سے متعلق ہمارے اب تک کے تصورات کو چیلنج کردیا ہے۔
’’چانگ ای 5‘‘ نے یہ نمونے چاند کے ایک ایسے مقام سے جمع کیے تھے جہاں اربوں سال پہلے آتش فشاں موجود تھے۔ یہ نمونے تقریباً دو کلوگرام وزنی ہیں جو چین کی ملکیت ہیں البتہ ان کا کچھ حصہ عالمی تحقیق کےلیے فراہم کردیا گیا تھا۔
بتاتے چلیں کہ ماہرینِ فلکیات اس بات پر متفق ہیں کہ آج سے تقریباً 4 ارب 50 کروڑ سال پہلے کوئی چھوٹا سیارہ ہماری زمین سے آ ٹکرایا تھا جو اُس وقت انتہائی گرم اور مکمل طور پر پگھلی ہوئی حالت میں تھی۔
اسی تصادم کے نتیجے میں پگھلی ہوئی زمین کا کچھ حصہ الگ ہوگیا اور زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے ٹھنڈا ہونے لگا۔ آج زمین کے اسی ٹکڑے کو ہم ’’چاند‘‘ کے طور پر جانتے ہیں۔
چونکہ زمین کے مقابلے میں چاند کی کمیت 81 گنا کم اور جسامت 4 گنا کم ہے، لہذا ماہرین کا خیال ہے کہ زمین سے الگ ہوتے ہی چاند بہت تیزی سے ٹھنڈا ہونے لگا۔
اگلے ایک ارب سال میں، یعنی آج سے تقریباً ساڑھے تین ارب سال پہلے، چاند اس قدر ٹھنڈا ہوچکا تھا کہ وہاں آتش فشانی عمل بھی مکمل طور پر رک گیا۔
البتہ، چاند سے لائے گئے نمونوں میں آتش فشانی عمل کے آثار واضح طور پر موجود ہیں لیکن وہ پتھر اور کنکر صرف دو ارب سال قدیم ثابت ہوئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ چاند پر آتش فشاں ہمارے موجودہ تصورات کے مقابلے میں مزید ڈیڑھ ارب سال بعد تک سرگرم تھے اور لاوا اگل رہے تھے۔
چاند اتنے طویل عرصے تک اندرونی طور پر اس قدر شدید گرم کیوں رہا؟ کیا وجہ ہے کہ وہاں ڈھائی ارب سال تک آتش فشانی عمل جاری رہا؟ فی الحال ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی ٹھوس اور قابلِ بھروسہ جواب نہیں۔
بظاہر یہی لگتا ہے کہ نہ صرف چاند بلکہ زمین اور پورے نظامِ شمسی کی ابتداء اور ارتقاء کے بارے میں ہمارے موجودہ نظریات کو اس دریافت کی روشنی میں تبدیلیوں سے گزارنا پڑ جائے۔