رہبر انقلاب اسلامی نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1401 کے پہلے دن ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہونے والی اپنی تقریر میں، نوروز اور نئي صدی کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، نئے سال کے نعرے کی تشریح کی اور مساوات کے ساتھ اقتصادی ترقی اور غربت کے مسئلے کے حل کی واحد راہ، نالج بیسڈ معیشت کی راہ پر آگے بڑھنا بتایا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان، یوکرین اور یمن میں جاری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے واقعات، سامراج سے مقابلے میں ایرانی قوم کی حقانیت اور اس کے موقف کی درستگی کو عیاں کرتے ہیں۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نوروز کی قومی عید کے موقع پر ذکر خدا، دعا، مناجات اور معنویت کی تقاریب کو ایرانی نوروز کی اہم خصوصیت بتایا اور کہا: موسم بہار امید کا مظہر اور طراوت و روئیدگي کے پیغام کا حامل ہے اور اس سال، پندرہ شعبان کے ایام کی ہمراہی کی وجہ سے جو تاریخ اور انسانیت کی بہت بڑی امید کے جنم لینے کا دن ہے، یہ امید دوبالا ہو گئي ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امید، تمام کاموں اور ترقی و پیشرفت کا سرچشمہ ہے، کہا: جو لوگ عوام سے وابستہ رہتے ہیں، یا کچھ لکھتے ہیں یا انھیں پیغام دیتے ہیں، وہ لوگ جہاں تک ممکن ہو، عوام کے اندر امید پیدا کریں کیونکہ امید، پیشرفت کا اہم عنصر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے ایک عشرے میں مختلف برسوں کے نعروں اور اسی طرح سنہ 1401 کے نعرے کے لیے معاشی عناوین کے انتخاب کی وجہ بتاتے کہا: اس سال کے لیے اور سال کے نعرے کے لیے معاشی عنوان کے انتخاب کی وجہ، معیشت کے مسئلے کی کلیدی اہمیت اور اسی طرح پچھلے عشرے کے معاشی چیلنجز ہیں جن سے چھٹکارے کے لیے تدبیر اور صحیح عمل و اقدام کی ضرورت ہے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج ملک کے عہدیداروں اور ملک کا نظام چلانے میں دخیل افراد کا سب سے اہم مسئلہ، معیشت ہے، کہا: البتہ عوامی سطح پر بھی کچھ سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں جو مناسب طریقے سے جاری رہیں تو بڑی امید افزا ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ معاشی ترقی حاصل کرنے کا واحد راستہ، نالج بیسڈ معیشت کی سمت میں آگے بڑھنا ہے، کہا: نالج بیسڈ معیشت سے مراد، سبھی میدانوں میں پیداوار کو سائنسی اور تکنیکی نظر سے دیکھنا ہے جس کا نتیجہ، پیداوار کے اخراجات میں کمی، فائدے میں اضافہ، پروڈکٹس کی کوالٹی میں بہتری، عالمی منڈیوں میں پروڈکٹس کا کمپیٹیشن کے لائق بننا اور ملک کے اندر مصنوعات کی تیاری کی قیمت میں کمی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں متعدد عالمی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کے لیے تدبیر اور صحیح حرکت، فیصلے اور اقدام کی ضرورت ہے، کہا: جب دنیا کے معروضی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو سامراجی محاذ کے مقابلے میں استقامت پر استوار ایرانی قوم کے موقف کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ استکبار کے مقابلے میں ایرانی قوم کا انتخاب، 'استقامت، ہتھیار نہ ڈالنے، عدم انحصار، خود مختاری کی حفاظت اور نظام اور ملک کی داخلی تقویت' تھا، کہا: یہ قومی فیصلے تھے جو بالکل صحیح تھے۔
آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مظلوم مسلمان ملک افغانستان کے حالات، اس ملک پر ہونے والے ظلم اور بیس سال کے مظالم و جرائم کے بعد امریکیوں کے انخلاء کے طریقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یوکرین کے واقعات بھی ایک دوسرا نمونہ ہیں کہ اس ملک کا صدر، جسے خود مغرب والوں نے اقتدار میں پہنچایا ہے، آج ان سے سخت لہجے میں بات کر رہا ہے۔
انھوں نے اسی طرح یمن کے واقعات اور اس ملک کے مزاحمت کار عوام پر روزانہ ہونے والی بمباری اور دوسری طرف 80 نوجوانوں اور بچوں کی گردن کاٹنے کے سعودی عرب کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ ساری باتیں، دنیا پر حاکم ظلمت اور خونخوار بھیڑیوں کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ہاتھوں میں دنیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ یوکرین کے واقعات کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اس سے مغرب کی نسل پرستی عیاں ہو گئی۔ آپ نے کہا: سیاہ فاموں کو سفید فاموں سے الگ کرنا، انھیں ٹرین سے نیچے اتار دینا یا مغربی میڈیا میں مغرب والوں کا اس بات پر افسوس ظاہر کرنا کہ جنگ، مشرق وسطی کے بجائے یورپ میں ہو رہی ہے، مغرب کی کھلی نسل پرستی کے کچھ نمونے ہیں۔
انھوں نے ملکوں میں ظلم و ستم سے نمٹنے کے طریقۂ کار میں، مغربی دنیا کے دوغلے پن کا ایک اور نمونہ بیان کرتے ہوئے کہا: اگر ان کے کسی فرمانبردار ملک میں ظلم ہوتا ہے تو وہ کوئي بھی ردعمل ظاہر نہیں کرتے اور اتنے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کا دعوی بھی کرتے ہیں اور اس جھوٹے دعوے کے ذریعے خودمختار ملکوں سے غنڈہ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا: یہ ظلم و استکبار کے میدان میں عصر حاضر کا سب سے شرمناک دور ہے اور دنیا کے عوام ان مظالم اور دوغلے رویے کو براہ راست دیکھ رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں، پچھلے سال، سال کے پہلے دن کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ملکی معیشت کو امریکی پابندیوں سے جوڑنے اور یہ بات کہنے سے منع کیا تھا کہ جب تک پابندیاں رہیں گي، صورتحال یہی رہے گي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: بحمد اللہ ملک میں نئي پالیسیوں نے دکھا دیا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود ترقی و پیشرفت کی جا سکتی ہے، خارجہ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، علاقائی معاہدے کیے جا سکتے ہیں اور تیل اور دیگر اقتصادی امور میں کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔