کیہان اخبار کے چیف ایڈیٹر نے سویڈن میں حمید نوری کی غیر قانونی گرفتاری اور قید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سویڈن کو یہ جان لیناہوگا کہ جس طرح ہم نے دہشتگرد گروہ الاہوزاریہ کے سرغنہ کو ایران میں منتقل کیا اور سزا دی، اسی طرح ہم آپ کے سیکورٹی افسران کے ساتھ بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
سویڈن میں قید ایرانی شہری حمید نوری کی اپیل کی سماعت 11 جنوری کو شروع ہوئی۔ ارنا نمائندے نے اس ایرانی شہری کو گرفتار کرنے اور قید کرنے سے متعلق کیہان اخبار کے چیف ایڈیٹر "حسین شریعتمداری" کے ساتھ ایک انٹرویو کیا جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
سویڈن کی حکومت حمید نوری کے حوالے سے جو کچھ کر رہی ہے وہ دراصل الاہوازیہ دہشت گرد گروہ کا بدلہ ہے جس نے 2017 میں اہواز میں پریڈ کرنے والوں فوجیوں اور شہریوں کو گولی مار دی تھی؛ ایک گروہ جس نے کچھ عرصہ قبل اہواز میں ایک بینک کو دھماکے سے اڑا دیا تھا، جس میں 25 افراد شہید اور 60 زخمی ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اس کارروائی میں متعدد خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے۔ بعد ازاں اس دہشت گرد گروہ کے سرغنہ "حبیب اللہ اسیود" نے واضح طور پر کہا کہ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ خواتین اور بچے یا عام لوگ مارے جائیں، ہم نے یہ اس لیے کیا کیونکہ ہمارے پاس ایک مشن تھا؛ یہ مشن انہیں سویڈن کی حکومت نے دیا تھا۔
حبیب اللہ اسیود کو گرفتار کرکے ایران لانے کے بعد، اس نے کھلے عام اعتراف کیا کہ سویڈش حکومت نے اس کی حمایت کی اور اسے سویڈن میں دفتر دیا، اور یہ کہ وہ موساد کے ایجنٹوں اور بعض عرب ممالک سے رابطے میں تھا اور ایران میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتا تھا اور سویڈش حکومت کی نگرانی میں کام کر رہے تھے۔
اسیود نے کہا کہ جب میں 2006 میں ایران سے سویڈن گیا تو ایئرپورٹ پر سویڈن کے اہلکار میرے استقبال کے لیے آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور مجھے اپنا دفتر، جگہ اور رہائش گاہ دکھائی جو کہ ایک بہترین اور جدید جگہ تھی۔
اپنے اعترافی بیان میں اس کا کہنا ہے کہ میرے دفتر میں سیکیورٹی افسران سے میرے بہت سے رابطے تھے جو کہ مجھے سویڈن کی حکومت نے فراہم کی تھی۔ الاہوازیہ تحریک ایک واضح طور پر بیان کردہ گروہ تھا، اور انہوں نے خود کھلے عام اعلان کیا کہ وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور خوزستان میں ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی مثال واضح ہے۔
حبیب اللہ کی گرفتاری کے بعد اسے ایک خاص طریقے سے ایران منتقل کیا گیا۔ وہ طریقہ جو سویڈن کے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ انہیں معلوم ہونا ہوگا کہ ہم ان کے اعمال کو بدلہ لیے بغیر نہیں چھوڑیں گے اور انہوں نے خود دیکھا، ایسے لوگوں کو ایران منتقل کیا گیا جو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ ہو گا۔
الاہوزایہ گروہ کے سرغنہ نے اپنے اعترافات میں منافقین کے ساتھ ہونے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کا اعتراف کیا ہے لیکن اس نے سب سے زیادہ موساد اور سویڈش سیکیورٹی ایجنٹوں کا ذکر کیا؛ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے منصوبے ناکام ہو چکے ہیں، خاص طور پر یہ ناکامی انہیں بہت مہنگی پڑی ہے کیونکہ ہم اس گروہ کے سربراہ کو ایران لے کر آئے اور انہیں سزا دی۔ سویڈن کو معلوم ہونا ہوگا کہ جس طرح ہم انہیں لائے تھے، ہم ان کے سیکیورٹی افسران کو بھی لا سکتے ہیں؛ سویڈن کو معلوم ہونا ہوگا کہ ہم ایسے اقدامات سے لاتعلق نہیں رہیں گے۔
واضح رہے کہ حمید نوری ایرانی شہری اور ایرانی عدلیہ کا سابق ملازم ہے جنہوں نے نومبر 2019 کو سوئڈن کا دورہ کیا ہے اور سوئڈش پولیس کے ذریعے اسٹاک ہوم کے ہوائی اڈے پر پہنچنے پر گرفتار کیا گیا اور اس زمانے سے اب تک قید تنہائی میں ہے۔ اس کا الزام دہشت گرد گروہ منافقین کے دعووں پر مبنی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نوری کسی وقت ایران میں منافقین کا جیلر تھا۔