ناجائز صہیونی ریاست کے جوہری فوجی پروگرام عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں
اقوام متحدہ میں تعینات ایران کے مستقل مندوب اور نمائندے نے تخفیف اسلحہ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ صہیونی ریاست کے جوہری فوجی پروگرام عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
"علی بحرینی" نے اس کانفرنس میں علاقائی اور عالمی سلامتی کے موجودہ ماحول کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کے بڑھتے ہوئے انحصار اور ان بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر عالمی برادری کی اولین ترجیح جوہری تخفیف اسلحہ ہونا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک یہ ہتھیار موجود ہیں، انسانیت کے خلاف ان کے استعمال کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے اور تخفیف اسلحہ کانفرنس کے لیے ضروری ہے کہ اس عالمی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے مذاکرات پر توجہ دی جائے۔
جنیوا میں ایرانی سفیر نے 1974 میں جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی بنانے کے نظریے کا حوالہ دیتے ہوئے، جسے ایران نے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا تھا، اس بات پر زور دیا کہ صہیونی ریاست ایک ایسے خطے کی تشکیل میں واحد رکاوٹ ہے جو امریکہ اور اس کی حمایت میں بین الاقوامی نگرانی سے باہر اپنے جوہری فوجی پروگراموں کے ساتھ خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ سمجھی جاتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین کے تنازعے کے آغاز سے ہی اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف واضح اور مستقل رہا ہے اور اس نے مختلف سطحوں پر متعدد بار اس کا اعلان کیا ہے۔
بحرینی نے ایران کے میزائل پروگرام اور قرارداد 2231 کے حوالے سے مغربی ممالک کے دعووں کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ ایران کے میزائل ڈیفنس پروگرام کا قرارداد 2231 کے متن اور روح سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ہمارے میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے ہیں؛ ہمارے پاس ایسے جوہری ہتھیار نہیں ہیں جنہیں لے جانے کے لیے میزائلوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا شکار ہے جو صدام حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں جن کے اکثر جرمنی نے فراہم کیے تھے کے زخموں سے دوچار ہے۔
بحرینی نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے ہتھیاروں کے استعمال یا استعمال کے خطرے کے خلاف واحد ضمانت ان ہتھیاروں کے حامل ممالک کی طرف سے ان کی مکمل اور ناقابل واپسی تباہی ہے۔