سرحدی تنازعات پر افغانستان کے ساتھ اس ملک کی کشیدگی اور عدم تحفظ کے عوامل کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں غیرمعمولی اضافے کو دیکھتے ہوئے، اسلام آباد اسلامی جمہوریہ ایران کی دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں اس کے موثر تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے مشاورت کرنے کا سوچ رہا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم کے معاون خصوصی فیصل کریم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقصد سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ایک نئے اتفاق رائے کے لیے حکومتی فیصلے کا اعلان کیا۔
پاکستان دہشت گردی کے خطرے کو روکنے کے لیے خاص طور پر پاکستان تحریک طالبان گروپ کے حملوں سے پیدا ہونے والے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد کا منتظر ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی فیصل کریم نے اسلام آباد میں میڈیا کے ساتھ انٹرویو کے دوران اعلان کیا: پاکستان جلد ہی ایک وفد ایران بھیجے گا۔
اس پاکستانی عہدیدار نے اس حوالے سے مزید تفصیلات کا ذکر نہیں کیا تاہم باخبر ذرائع نے زور دے کر کہا کہ اسلام آباد دہشت گردی کے چیلنج پر قابو پانے کے لیے تہران کے ساتھ تعاون کا منتظر ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ایک وفد بھی افغانستان بھیجا گیا ہے اور طالبان رہنما ہیبت اللہ اخندزادہ سے ملاقات میں اس ملک سے کہا جائے گا کہ وہ افغانستان سے پڑوسی ممالک میں دہشت گردانہ حملوں کو روکنے میں تعاون کرے۔
پاکستان میں باخبر حکام کا کہنا ہے کہ: گزشتہ ہفتے پشاور کی ایک مسجد پر ہونے والے مہلک حملے، جس میں کم از کم ایک سو افراد کی جانیں گئیں، نے اسلام آباد کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اپنے پڑوسیوں سے رابطہ کرنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔