قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر رئیسی نے کہا کہ فسادات کے دوران یورپی ممالک اس غلط فہمی میں رہے کہ ان کی مرضی سے مظاہروں کا رخ موڑ سکتے ہیں لیکن ابھی احساس ہوا ہے ان کے تمام اندازے غلط تھے۔
صدر آیت اللہ رئیسی نے ٹی وی پر عوام کے ٹیلی فونک سوالات کا جواب دیا اور گذشتہ دو سالوں کے دوران حکومت کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ماہ ذی الحجہ کی مناسبت سے عوام کو ہدیہ تبریک پیش کیا۔
صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر امیدوار اپنی پالیسی اور منشور کے مطابق انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔ انتخابات سے پہلے ملک میں ناامید کی فضا قائم تھی۔ عوام کی معاشی اور اقتصادی حالت بدتر تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس بحرانی صورتحال کو ختم کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اس وقت اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور انتخابات میں حصہ لیا۔ ملک کو درپیش مشکلات کے پیش نظر اور اور حکومت کو پریشانی لاحق تھی۔ سب پوچھ رہے تھے کہ ان حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں؟ بجٹ خسارے کا سامنا تھا۔ تیل کی مارکیٹ مندی کا شکار تھی۔ اجتماعی اور اقتصادی بحران کی وجہ سے لوگ مجھ سے کہتے تھے کہ ان حالات سے کیسے نمٹیں گے؟
صدر رئیسی نے مزید کہا اس وقت ملک کو درپیش کی ذمہ داری بیرونی دشمنوں اور اس وقت کی حکومت دونوں پر عائد ہوتی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اگر ان حالات میں آگے نہ آوں تو اپنے وظیفے کی ادائیگی میں کوتاہی کا مرتکب ہوجاوں گا اسی لئے میں لوگوں کے اندر امید کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے انتخابات میں حصہ لیا۔
انہوں نے کہا عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے میدان میں ہونا ضروری ہے۔ میں اپنے فیصلے سے نادم نہیں ہوں چنانچہ موقع ملا تو دوبارہ انتخابات میں شرکت کروں گا۔ اگرچہ مشکلات اور محنت طلب کاموں کی وجہ سے انسان کا دل کرتا ہے کہ گوشہ نشینی اختیار کرے لیکن میں راحت طلب نہیں ہوں اسی لئے سوچتا ہوں کہ اللہ امتحان لے رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مشکلات کی گتھیاں سلجھاوں اور عوام کے لئے کچھ کرلوں۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ مشکلات کو تکرار کرنا میری عادت نہیں ہے۔ صرف اس لئے ابتدا میں حکومت کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا تاکہ عوام کو آگاہ کروں کہ مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے اور لوگ حکومت پر اعتماد کریں۔ لوگوں کا حکومت کی کارکردگی سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو شروع میں بہت ساری مشکلات کا سامنا تھا۔ کرونا کی وجہ سے ملک کو بحران درپیش تھا۔ تجارتی اور اقتصادی مراکز کے ساتھ تعلیمی ادارے بند تھے۔ بعض لوگ ویکسین لگوانے کے لئے ہمسایہ ممالک کا سفر کررہے تھے جبکہ اس وقت کے حکمران دعوی کررہے تھے کہ ہم ویکسین تیار کررہے ہیں۔ ہم نے ویکسین کی تیاری اور برامد دونوں کی کوشش کی اور کامیاب ہوئے۔ ہمارے سائنسدانوں نے چھے قسم کے ویکسین تیار کئے۔ اس سے بیرون ممالک سے ویکسین کی درامد میں کمی ہوئی اور عوام نے بھی اس کو محسوس کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں 480 ہزار ارب بجٹ خسارے کا سامنا تھا جوکہ ملکی مشکلات کی جڑ تھی۔ مرکزی بینک سے قرضوں کا حصول اور نئے نوٹوں کی چھپائی بھی بڑی مشکل تھی۔ ہم نے ان حالات میں ملکی مصنوعات کو بڑھایا جس سے مشکلات کو حل کرنے میں مدد ملی۔ بیرون ممالک کے ساتھ تجارت کے حوالے سے بھی کچھ مشکلات تھیں۔
صدر رئیسی نے واضح کیا کہ میں عوام کے اندر امید کی کرن روشن کرنے آیا ہوں۔ اللہ کے لطف و کرم سے آج ملک میں چار ہزار سے زائد صنعتی ادارے دوبارہ فعال ہوگئے ہیں اور اسی مقدار کے مطابق نوکریوں اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ ایک عشرہ بہت سارے شعبوں کی بندش کا عشرہ تھا۔ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری حالت اچھی نہیں تھی۔ میں اس کی وجوہات بیان کرنا نہیں چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ترقی کی شرح 4۔0 سے بڑھ کر 5۔4 تک پہنچ گئی ہے۔ مہنگائی پر قابو پایا گیا ہے۔ ہماری حکومت کی تشکیل کے وقت مہنگائی کی شرح 3۔59 تھی جو کم ہوکر 20 فیصد کم ہوکر 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ تیل کی فروخت ناممکن ہے لیکن ہم فروخت کرکے دکھایا اور اس کی قیمت بھی وصول کرلی۔ ہماری حکومت کے ابتدائی دنوں میں شنگھائی تعاون کونسل میں ایران کی رکنیت کا معاملہ زیر غور تھا۔ اس سلسلے میں ہونے والے اقدامات سابقہ حکومت کے دور سے پہلے ہی انجام دئے گئے تھے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت کی نظر صرف چار ممالک پر مرکوز نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مشرقی ممالک سے بھی رابطے ہورہے ہیں۔ سابقہ حکومت ملک میں ویکسین درامد کرنا چاہتی تھی لیکن فنانشل ٹاسک فورس کی شرایط قبول کرنے سے پہلے ویکسین منگوانے کو ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ در حقیقت ویکسین جوہری معاہدے سے وابستہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا اور ویکسین کی سپلائی کو بھی جوہری معاہدے سے منسلک نہیں کیا ہے۔ ہم جوہری پروگرام کے حوالے سے عزت، حکمت اور مصلحت کے تحت مزاکرات کریں اور کسی سے رحم کی اپیل نہیں کریں گے۔ ہم عزت اور اقتدار کے ساتھ سفارتی کوششیں جاری رکھیں گے۔ روس، چین، انڈونیشیا سمیت مشرقی اور مغربی ممالک کے ساتھ روابط ہیں اور دنیا کے ساتھ باہمی احترام کے جذبے کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے چنانچہ امریکہ یا صہیونی حکومت سمیت کوئی ملک ہم سے دشمنی مول لے تو کھل کر مقاومت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی بعض مخصوص ممالک کے گرد نہیں گھومتی ہے بلکہ ملکی اقتصاد، سیاست اور اجتماعی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی بنائیں گے۔ دوسرے ملکوں سے تعلقات میں اپنے مفادات کا خیال رکھیں گے۔ میرا ہر سفر ملکی مفادات اور اقتصادی فوائد کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حوالے انہوں نے کہا کہ چین کے سفر کے دوران صدر شی جن پنگ نے کہا کہ انہوں نے ریاض میں سعودی حکام سے دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے بات کی اور سعودی عرب نے تعلقات بحال کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے تو میں بھی جواب دیا کہ ایران کو اس حوالے سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلا اور دونوں ملکوں نے اپنے نمائندے بیجنگ روانہ کئے اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی عرصے سے اختلافات تھے لیکن ایران نے کبھی سعودی عرب کو اپنا دشمن نہیں سمجھا ہے۔ ہمیں اپنے اصلی اور حقیقی دشمن کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ صہیونی دشمنوں کو ہمیں نہیں بھولنا چاہئے۔
انہوں نے یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ یورپی ممالک کے سامنے ہم نے اپنے مطالبات اور شرائط پیش کئے اور انہوں نے ان مطالبات کو معقول قرار دیا لیکن جب ایران میں فسادات شروع ہوئے تو یورپی ممالک نے غلط اندازہ لگایا اور تصور کیا کہ فسادات کی آڑ میں اپنی خواہشات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
آج ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور آج ایران کو مسلسل پیغام بھیج رہے ہیں۔ انہوں نے ایران کے اقتدار اور استحکام کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے۔ اگر طرف مقابل منصفانہ طریقے سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں تو ہم بھی مذاکرات کریں گے۔ انہوں نے وعدے توڑے ہیں اور معاہدے پر عمل نہیں کیا ہے۔