ترجمان وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یورپی ملکوں کو الزام تراشی کے بجائے ، ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنی کوتاہیوں کا جواب دینا چاہیے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ ایران ، مناسب ، متوازن اور سنجیدہ رد عمل کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ ناصر کنعانی نے پیر کے روز اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں ، قرارداد 2231 کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی حالیہ نشست کے بارے میں کہا کہ یک طرفہ پابندیوں کو امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ایک غیر قانونی حربے کے طور پر ایران کے خلاف تسلسل کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پابندیاں غیر قانونی، ایرانی قوم کے حقوق اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
ترجمان وزارت خارجہ نے واضح کیا: جہاں تک جے سی پی او اے کی بات ہے تو افسوس کہ امریکہ غیر قانونی طور پر ایٹمی معاہدے سے نکل گیا اور یورپی بھی اپنی ذمہ داریوں پر عمل سے بچتے رہے اور وہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی غیر موجودگی سے ہونے والے نقصان کی تلافی کرنے میں ناکام رہے۔
ناصر کنعانی نے کہا: ہمارے خیال میں یورپ کے تین ملکوں نے ایٹمی معاہدے کی امریکہ کے جتنی ہی خلاف ورزی کی ہے اور انہیں اس کا جواب دینا چاہیے اور جہاں تک یہ بات ہے کہ ان حالات کے باوجود وہ مدعی بنے ہیں اور ایران کے خلاف الزامات عائد کرکے ، پابندیاں لگا رہے ہیں تو یہ پوری طرح سے غیر قانونی عمل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ اقدامات غیر تعمیری و لا حاصل ہیں ، اس راستے پر امریکہ اور یورپ برسوں سے چلتے آئے ہيں اور اس طرح سے انہوں نے اہم اختلافات کو حل کرنے کے لئے تیار کئے جانے والے کثیر جہتی اصول و ضوابط کو بے کار و کمزور کر دیا ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے کہا: یورپی ملکوں کو الزام تراشی کے بجائے اپنی کوتاہیوں کا جواب دینا چاہیے اور انہیں جان لینا چاہیے کہ ایران ، مناسب ، متوازن اور سنجیدہ رد عمل کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے اسی طرح کہا: صدر ایران ، آج دیر رات کو کینیا ، یوگینڈا اور زیمابوے کا اپنا دورہ شروع کریں گے جس کے دوران ایران اور این تینوں ملکوں کے درمیان تعاون کے عمل میں نئي اور تیز رفتار ترقی ہوگي۔
انہوں نے کہا کہ بر اعظم افریقہ ، مواقع کا بر اعظم ہے اور وہاں بے پناہ گنجائشیں موجود ہیں اور چونکہ حالیہ برسوں میں اس بر اعظم کی معیشت میں پیشرفت ہوئی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے اہم ممالک اس پر توجہ دے رہے ہيں اس لئے فطری ہے کہ ہم بھی فریقین کے مشترکہ اقدار اور معاشی گنجائشوں کے مد نظر ایک دوسرے سے تعلقات میں توسیع لائيں۔