ایسے راستوں کی تلاش جس سے ایران کے قومی مفادات کا تحفظ ہو سکے، ایران کی موجودہ حکومت کا اہم مقصد ہے اور تین افریقی ملکوں کے دورے اور بر اعظم افریقہ میں نئے راستے تلاش کرکے ، اس مقصد کی تکمیل کی کوشش کی جائے گی۔
کینیا ، یوگینڈا اور زیمبابوے کے صدور کی باضابطہ دعوت کے بعد ایرانی صدر " آیت اللہ سید ابراہیم رئيسی " منگل کے روز افریقہ کے لئے روانہ ہو گئے اور منگل سے لے کر جمعرات تک ، نیروبی، کمپالا اور ہرارے ، صدر ایران کی ميزبانی کرے گا۔
یہ دورہ ، خود مختاری پالیسی کا تسلسل
ایران کی موجودہ حکومت نے خارجہ پالیسی میں دنیا کے ہر گوشے میں قومی مفادات کی جستجو کی ہے اور گزشتہ دو برسوں کے دوران اسی وجہ سے دنیا کے ساتھ تعلقات میں ایک طرح کا توازن پیدا ہوا ہے۔
ایران کے پڑوسی ملکوں ، یوریشیا ، لاطینی امریکہ اور اب افریقہ، ایسے علاقے ہيں جہاں ایران کے مفادات کی تکمیل کی بے پناہ گنجائش ہے اور اسی لئے ان علاقوں میں ایران کی موجودگی، ایران کی موجودہ حکومت کے منصوبوں میں شامل ہے ۔
ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئيسی دنیا کے ہر ملک پر توجہ کی پالیسی پر کاربند ہیں اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی اس پالیسی کا دنیا کے بہت سے ملکوں نے خیر مقدم کیا ہے ۔
ایران کے لئے افریقہ کی اہمیت
حالانکہ افریقہ صدیوں تک مغربی سامراج کے تسلط میں کراہتا رہا لیکن اس کے باوجود آج بھی اس بر اعظم میں بے پناہ گنجائشيں موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ پوری دنیا کے لئے آج بھی اہم ہے۔ افریقہ میں معادن و کان بہت زيادہ ہيں اور یہ علاقہ ، سونے ، ہیرے اور ديگر بیش قیمت دھاتوں کی کانوں سے مالامال ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں سب سے زیادہ افریقہ میں ایسے معادن اور کان موجود ہیں جن کا ابھی تک پتہ نہيں لگایا جا سکا ہے تو ظاہر سی بات ہے ایسے علاقے میں ایران کی موجودگی قومی مفادات کے لئے بے حد اہم ہے۔
اب دنیا، افریقہ کو ایک غریب اور پسماندہ علاقے کے طور پر نہیں دیکھتی اور آج امریکہ ، چین اور روس جیسی بڑی معاشی طاقتیں برسوں سے افریقہ کے سلسلے میں اپنا نظریہ بدل چکی ہیں۔ آيت اللہ سید ابراہیم رئيسی کی حکومت نے افریقہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اس سلسلے میں کئي اقدامات کئے ہيں جن میں، صدر ایران کی جانب سے تین افریقی ملکوں کا دورہ، تین افریقی ملکوں کے سفارت خانوں میں تجارتی مشیر کی تعیناتی ، غلط فہمی کی وجہ سے ختم ہونے والے کچھ افریقی ملکوں سے تعلقات کی بحالی اور لیبیا میں ایرانی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنا ، اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کی کچھ مثالیں ہیں۔
نئے عالمی نظام میں ہر ملک، معاشی ترقی کے لئے کوشاں ہے اور افریقہ کی خصوصیات اس مقصد کی تکمیل میں بے حد اہم ہیں۔ ایران کے پڑوسی ملک، کئی برسوں سے اس پر توجہ دے رہے ہيں۔ مثال کے طور پر ترکیہ ، افریقی ملک ، لیبیا کو 5 ملین ڈالر تک کی برآمدات کرتا ہے اور استانبول و انقرہ سے مسلسل پروازیں افریقہ جاتی رہتی ہیں جس سے سیاحوں کی آمد و رفت بھی ہوتی رہتی ہے۔
افریقی ملکوں کے ساتھ روس کے تعلقات ميں واضح توسیع کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، ٹرانسپورٹیشن کے بحری و فضائی راستے کھول کر اور تجارتی مذاکرات کرکے، افریقہ کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کو شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں افریقہ، ایران کے لئے ضروری خام مال کی سپلائی کی ذمہ داری لے گا اور ایران ٹکنیکل و انجینیئرنگ سروسز فراہم کرے گا۔
افریقہ بر اعظم سے ایران کی قربت، اسلامی جمہوریہ ایران کو اس بر اعظم کی کئي اہم تنظیموں سے بھی قریب کر سکتی ہے جن میں " ای سی او ڈبلیو اے ایس " " ایس اے ڈی سی " اور " اے ڈی بی جی " کا نام لیا جا سکتا ہے بلکہ عرب لیگ بھی اس میں شامل ہے ۔
صدر ایران آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورہ افریقہ کا مقصد، صرف برآمدات میں اضافہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ دورہ ، طویل مدتی منصوبے کے تحت انجام پا رہا ہے جس میں سب سے اہم مقصد، اس بر اعظم میں ایرانی مصنوعات کے کارخانے بنانا ہے جس کا تجربہ کینیا میں کیا گيا اور اب یوگینڈا میں اسے دوہرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔
ایران اور افریقی ملکوں کے درمیان تعاون کی جو گنجائش ہے اس کے پیش نظر موجودہ تعلقات کی سطح قابل قبول نہيں ہے۔
ایران میں افریقہ اور افریقہ میں ایرانی تاجروں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے جو در اصل فریقین میں، ایک دوسرے کے وسائل اور گنجائشوں سے عدم آگاہی کا نتیجہ ہے۔
ان حالات میں ایران کی موجودہ حکومت، افریقی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے مشن پر عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور آئندہ تین برسوں میں افریقہ کے ساتھ تجارت کی شرح 10 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایران کی موجودہ حکومت، اپنی قوم کے لوگوں کی صورت حال میں بہتری کے لئے دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود گنجائش اور سہولت سے فائدہ اٹھانے کا عزم رکھتی ہے اور افریقہ ، ایران سے جغرافیائي ، سیاسی بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی قریب ہونے کی وجہ سے ، ایک اچھا ذریعہ بن سکتا ہے۔