پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کے روز افغانستان پر "ایک ہمسایہ اور برادر ملک کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے" کے ساتھ ساتھ دوحہ امن معاہدے کی اہم ذمہ داریوں کو نظرانداز کرنے اور اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کے لیے کام کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔
پاکستان کی وزارت دفاع نے ان بیانات کا اعلان پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل سید عاصم منیر کی طرف سے افغانستان کی سرزمین میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں اپنی شدید تشویش کے اظہار کے بعد کیا۔ افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کو قابوں کیا جائے ورنہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز موثر جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
خواجہ آصف کے مطابق پاکستان نے گزشتہ 40 سے 50 سالوں میں 50 سے60 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا: پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گرد افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر دفاع نے خبردار کیا تھا کہ موجودہ صورتحال جاری نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ وسائل اور اقدامات بروئے کار لائے گا۔
گزشتہ بدھ (21 جولائی) کو صوبہ بلوچستان میں فوجی دستوں پر ہونے والے دو دہشت گردانہ حملوں کے بعد، اس ملک کے آرمی کمانڈر نے دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کو کلیئر کرنے کے لیے آپریشن کے دوران کوئٹہ شہر کا سفر کیا۔
ژوب شہر میں دہشت گرد عناصر کے فوجی بیرکوں پر حملے کے بعد نو پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے اور ساتھ ہی صوبہ بلوچستان کے علاقے سوئی میں عسکریت پسندوں کے حملے میں تین دیگر فوجی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پاک فوج کے کمانڈر جنرل سید عاصم منیر نے کوئٹہ کے دورے کے دوران کہا کہ ’’دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلا تعطل جاری رہے گا اور مسلح افواج اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گی جب تک پاکستان سے دہشت گردی کا خطرہ ختم نہیں ہو جاتا‘‘۔
انہوں نے افغان طالبان کو خبردار کیا کہ وہ دوحہ معاہدے میں شامل ذمہ داریوں کی پاسداری کریں اور افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
پاکستانی فوج کے کمانڈر نے اس ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان کی آزادانہ نقل و حرکت اور محفوظ پناہ گاہیں اسلام آباد کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغان سرحد کی دوسری جانب سے پاکستان پر حملوں کا تسلسل ناقابل برداشت ہے اور اس کا نتیجہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے موثر جواب دیا جائے گا۔