پاکستان کی وزارت خارجہ کے اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر کے سربراہ سہیل محمود سے ملاقات میں طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے مذاکرات اور دونوں کے درمیان حالیہ اختلافات کی وجہ تلاش کرنے پر زور دیا۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد توکل نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ امیر خان متقی نے پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات میں کہا: "دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ میڈیا تبصرے اور زبانی گفتگو کرنے کے بجائے ان کے مسائل کی وجہ تلاش کریں۔ ۔"
انہوں نے یاد دلایا کہ اس ملاقات میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ نے پاکستان اور افغانستان کے مسائل کو افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی امید ظاہر کی تھی۔
طالبان کی وزارت داخلہ کے قائم مقام سربراہ سراج الدین حقانی نے پیر کے روز افغانستان کے ایک صوبے ارزگان میں ایک اجلاس میں کہا: پاکستان میں حالیہ واقعات اس ملک کا اندرونی مسئلہ ہیں اور اسے پاکستانیوں کو خود حل کرنا چاہیے۔
طالبان کے قائم مقام وزیر داخلہ نے پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے بارے میں کہا کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کے باعث یہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔
اس سے قبل پاکستان کی نائب وزیر خارجہ حنا ربانی نے طالبان پر پاکستان کے عدم تحفظ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہا: "پاکستان نے اس حوالے سے دستاویزات افغان طالبان کو بھیج دی ہیں۔"
حنا ربانی نے پاکستان کے آج نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: بعض حملوں میں وہ لوگ بھی ملوث تھے جو قانونی ویزا لے کر پاکستان گئے تھے۔
انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ بیانات کو دہرایا کہ اگر افغان طالبان دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتے ہیں تو اسلام آباد اپنے دفاع کے لیے بین الاقوامی کارروائی کرے گا، اور مزید کہا: اس ملک کو کارروائی کا حق حاصل ہے۔
ربانی نے نشاندہی کی کہ افغانستان میں سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد اس ملک میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔