افغانستان میں ایران کے سفیر نے افغانستان سے امریکہ کے شرمناک انخلاء کا ذکر کرتے ہوئے کہا: افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کا یہ مطلب نہيں ہے کہ اس نے خباثت چھوڑ دی ہے، بلکہ اب وہ فوجی حملے کے بجائے داعش خراسان کو مضبوط کر رہا ہے۔
حسن کاظمی قمی نے شہداء کی یاد میں قم میں منعقد ایک پروگرام میں کہا: ہم اس بات کا خیال رکھ رہے ہیں کہ امریکی ماضی کی طرح کے حالات افغانستان میں پیدا نہ کر پائيں اور افغانستان کے سلسلے میں ایران کی پالیسی، اس ملک میں خانہ جنگی یا کسی پڑوسی ملک سے اس کے تصادم کو روکنا ہے۔
افغانستان میں ایران کے سفیر نے کہا: امریکی 20 برسوں کے بعد افغانستان سے اپنے فوجیوں کو نکالنے پر مجبور ہو گئے، یہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی، افغانستان سے جانا نہیں چاہتے تھے لیکن وہ مجبور ہو گئے اور یہ ان کی ایک بہت بڑی شکست ہے۔
انہوں نے اسی طرح یمن کے انصار اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی طاقت دو گنا بڑھ گئی ہے اور آج مزاحمتی محاذ حقیقی معنوں میں بن چکا ہے اور یہ جو یمن میں جنگ بندی قبول کی گئی ہے وہ بھی اسی مزاحمت کا ثمرہ ہے۔
انہوں نے کہا: رجعت پسندوں اور صیہونیت نے گزشتہ 2 عشروں میں ہمیں تمام تر نقصانات پہنچانے کے باوجود، وہ ہر محاذ پر شکست سے دوچار ہوئے ہیں اور امریکہ کا نئے مشرق وسطی کا منصوبہ ختم ہو چکا ہے، شام میں وہ سن 2011 سے بشار اسد کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہيں لیکن انہیں ہٹانے کی کوشش کرنے والے دہشت گرد ہی ہٹ گئے ۔
کاظمی قمی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ لبنان کا مزاحمتی محاذ بھی آج زیادہ مضبوط ہے، کہا کہ آج استقامت و مزاحمت صرف غزہ میں ہی نہيں بلکہ غرب اردن اور مقبوضہ فلسطین میں بھی شباب پر ہے اور ہر روز کم سے کم 30 کارروائیاں کرتی ہے۔
انہوں نے کہا : مقدس دفاع کے دوران 8 برسوں تک کی جانے والی مزاحمت علاقائی ملکوں اور لاطینی امریکہ میں مزاحمتی محاذ کی تشکیل کا باعث بنی اور وینزوئيلا، بولیویا اور برازیل جیسے ملکوں میں بر سر اقتدار آنے والی حکومتیں بائيں بازو کی اور انقلابی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمتی محاذ، اپنے مد مقابل کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہے۔
افغانستان میں ایران کے سفیر نے معیشت کو ایک اہم رکن قرار دیتے ہوئے کہا: رہبر انقلاب کے الفاظ میں، معاشی محاذ پر بھی جنگ جاری ہے اور اس کے لئے بھی کمانڈر، تنظیم، منصبوے، بہادری اور جہادی مینیجمنٹ کی ضرورت ہے اور تمام حکام کو مزاحمتی معیشت کے منشور سے رجوع کرنا چاہیے۔