ایرانی سائنسدانوں اور سیاستدانوں کی بڑی تعداد مغربی اور صہیونی دہشت گردی کی نذر ہوچکی ہے
بتشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی_سیاسی ڈیسک
گذشتہ چار عشروں کے دوران ایرانی سائنسدانوں اور سیاستدانوں کی بڑی تعداد مغربی اور صہیونی حمایت یافتہ دہشت گردی کی نذر ہوچکی ہے۔
1979 میں حضرت امام خمینی کی بے لوث قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ، صہیونی حکومت اور مغربی ممالک کی جانب سے اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے کثیر الجہتی سازشیں شروع کی گئیں جس کےتحت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ سائنسدانوں، سفارتکاروں اور سیاستدانوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کیا گیا۔
گزشتہ چار دہائیوں میں امریکہ، صیہونی حکومت اور ایران مخالف دہشت گردوں نے ایران کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور اپنے شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 1979 کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کو دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دوسری جانب منافقین خلق تنظیم نے ایرانی شہریوں اور سرکاری اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہونے کے ناطے اسلامی جمہوریہ ایران کو دہشت گردی کے بڑے سانحات کا سامنا رہا ہے چنانچہ 1981 میں ایرانی وزیر اعظم کے دفتر میں بم دھماکہ دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں 17000 سے زیادہ شہریوں کی شہادت اور حالیہ برسوں میں عظیم ایٹمی سائنسدانوں کی شہادت جیسے واقعات رونما ہوئے۔
1979 سے 1982 تک نئی تشکیل شدہ اسلامی حکومت کے لیے سب سے زیادہ خونریز سال رہے ہیں۔ اس دوران ایرانی سیاسی شخصیات، پالیسی سازوں اور علماکی بڑی تعداد کو قتل کیا گیا۔ 29 اگست 1981 کو وزیر اعظم کے دفتر میں ہونے والے بم دھماکے میں وزیر اعظم باہنر اور صدر رجائی سمیت متعدد اعلی عہدیدار شہید ہوگئے۔
28 جون 1981 کو تہران میں اسلامی جمہوریہ پارٹی کے ہیڈکوارٹر میں بم دھماکہ ہوا جس میں ایران کے چیف جسٹس محمد بہشتی سمیت ستر سے زائد اعلیٰ ایرانی عہدیدار شہید ہوئے تھے۔ منافقین خلق کو بم دھماکے کے لیے بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔
منافقین خلق آرگنائزیشن کو دنیا کے متعدد ممالک دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔ 1979 میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس تنظیم نے دہشت گردی کے ذریعے 17000 سے زائد بے گناہ افراد کو شہید کردیا ہے۔ 1986 میں ایران سے بھاگنے کے بعد اس تنظیم کے سرپرستوں مسعود رجوی اور مریم رجوی نے عراقی سابق ڈکٹیٹر صدام حسین سے مدد لینا شروع کیا۔
1980 سے 1988 کے درمیان ہونے جنگ کے دوران منافقین خلق نے عراقی بعثیوں کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف لڑتے ہوئے حکومتی عہدیداروں اور سویلین کا قتل عام کیا۔ صدام حسین نے عراقی صوبے دیالہ میں اشرف کیمپ کے نام سے ان کو مرکز بناکر دیا تھا جہاں تنظیم کے ارکان دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کرکے ایران اور عراق میں انقلاب اسلامی کے حامیوں کے خلاف کاروائی کرتے تھے۔
2003 میں امریکہ کی جانب سے حملے کے نتیجے میں صدام کی حکومت ختم ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے اس تنظیم کو اپنے مفادات کے لیے اور اسلامی جمہوری ایران کے خلاف استعمال کرنے کی خاطر البانیہ منتقل کیا۔
تنظیم کے منحرف اراکین نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب سمیت کچھ ممالک کی طرف سے امداد دی جاتی ہے۔ 2012 میں سعودی عرب اور دیگر ممالک کی لابنگ کے نتیجے میں امریکہ نے منافقین خلق کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کردیا۔ ایک سال بعد امریکہ اور فرانس نے باقاعدہ تصدیق کی تھی کہ اس دہشت گرد تنظیم کو امداد فراہم کی جاتی ہے۔
تنظیم کی سربراہ مریم رجوی سابق امریکی حکومت کے عہدے داران جان بولٹن اور مائکل پوممپو اور فرانسیسی اعلی حکام سے بھی ملاقات کرچکی ہیں۔
تنظیم کے متعدد دہشت اراکین کسی مشکلات کے بغیر فرانس میں رہتے ہیں۔ اس کے ارکان اب آزادانہ طور پر اپنے وطن کے خلاف امریکہ اور فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کی پشت پناہی سے کام کر رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں ایران کے عظیم ایٹمی سائنسدان سی آئی اے اور موساد کی خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی میں ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔
2010 اور 2012 کے درمیان، چار ایرانی جوہری سائنسدانوں مسعود علی محمدی، ماجد شہریاری، دریش رضائی نژاد، اور مصطفی احمدی روشن کو بے دردی سے قتل کیا گیا، جب کہ ایک اور فریدون عباسی کو قتل کی کوشش میں زخمی کر دیا گیا۔
27 نومبر 2020 کو ایران کے نامور سائنسدان اور وزارت دفاع کی ذیلی تنظیم کے سربراہ محسن فخر زادہ کو تہران کے مشرقی مضافاتی علاقے میں قتل کر دیا گیا۔ دہشت گردوں نے ڈاکٹر پر حملہ کرنے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں اور پیچیدہ طریقوں کا استعمال کیا۔ حملے کی باریک بینی اور پیچیدگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس دہشت گردانہ کارروائی کے پیچھے صیہونی حکومت کے ایجنٹ کا ہاتھ تھا۔