امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے امارات اور غاصب صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا موقف اختیار کیا۔
واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر نے قابض اسرائیل کے مغربی کنارے کے الحاق اور آباد کاری سے روکنے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے میں اپنے ملک کی نااہلی کا اعتراف کیا ہے۔
امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا: اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا ہمارا معاہدہ در اصل مغربی کنارے کے الحاق کو روکنا تھا جو کہ ایک خاص مدت کے اندر ختم ہو گیا ہے، اور اب ہمارے پاس وہ اثر و رسوخ نہیں ہے جو ہم نے معاہدے پر دستخط کرتے وقت حاصل کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا: اب یہ ایک مشکل کام ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ذمہ داری اس وقت ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جو مستقبل میں (غاصب) اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے درپے ہیں۔ ابراہیمی معاہدے نے دو ریاستی حل کے لیے کافی وقت لیا لیکن مسئلے کے حل کے مالک ہی اصل فریق ہیں۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ان کے ملک نے گذشتہ تین سالوں میں صیہونی حکومت کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بنیادیں قائم کی ہیں، مزید کہا: متحدہ عرب امارات اور (غاصب) اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تجارت کی مالیت 3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور توقع ہے کہ یہ 10 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
اس اماراتی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ابوظہبی نے تین سالوں میں تل ابیب کے ساتھ مفاہمت کی 120 یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں اور فریقین کے درمیان ہر ہفتے 152 پروازیں ہوتی ہیں۔