۳۷ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے لئے آیت اللہ العظمیٰ عبداللہ جوادی آملی کا پیام
تقریب نیوز کے مطابق آیت اللہ جوادی آملی کا پیام درج ذیل تھا
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد اللہ رب العالمین و صلی اللہ علی جمیع الانبیاء و المرسلین و الائمۃ الھداۃ المھدیین و فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہم اجمعین بھم نتولیٰ و من اعدائھم نتبرء الی اللہ
میں آپ سب علماء، فضلاء اور دانشوروں کو ہفتہ وحدت اور پیمبر اکرم ﷺ کے میلاد کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا وند متعال اس مولود کے صدقہ میں دنیا اور آخرت کی خیرو صلاح اور فلاح تمام عالم اسلام کو نصیب فرمائے۔ ہم اس پروگرام کو منعقد کرنے والوں کے شکر گذار ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جس جس عزیز نے بھی کوئی مقالہ پیش کیا ہے اور اس کانفرنس کے علمی وزن میں اضافہ کیا ہے اور جو یہ کام آئندہ انجام دیں گے خداوند سبحان ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔
موضوع مد نظر یہ ہے کہ ادیان و مذاہب الہی میں پائی جانی والی مشترک قدروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وحدت کو حاصل اور محفوظ کیا جائے جو تمام انبیائے الہی لائے تھے اور جو تمام اولیائے الہی کا پیام ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اختلاف زمینی ہے اور وحدت الہی اور آسمانی ہے۔ زمین کی وسعت میں ، اس کی کانوں میں، دریاوں اور پہاڑوں میں وحدت پیدا نہیں ہوتی ہے ذات اقدس الہی کا اپنے پیمبرﷺ سے خطاب ہے کہ’’ لو انفقت ما فی الارض جمعیا ما الفت بین قلوبہم‘‘ (۱)۔ اگر زمین کے تمام ذخیروں کو بھی خرچ کردو کہ معاشرہ متحد ہوجائے تب بھی یہ تمہارے بس میں نہیں ہے کیونکہ وحدت آسمانی امر ہے ۔ وحدت توحید کے پرتو میں اور اسمائے حسنی الہی پر اعتقاد اور قیامت جیسی چیزوں سے حاصل ہوتی ہے۔ مال و دولت سے معدن ڈھونڈے جاسکتے ہیں لیکن معاشرہ کو متحد نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ لو انفقت ما فی الارض جمعیا ما الفت بین قلوبہم‘‘۔
اس بات کا راز کہ وحدت زمینی نہیں ہے بلکہ آسمانی ہے یہ ہے کہ زمینی موجودات باہم جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس آسمانی موجودات سب کے سب باہم ہیں۔ آسمانی کتابوں میں ہر چند کچھ اختلاف ہے لیکن آسمانی کتابوں کے پیام میں کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے۔ اانبیائے الہی کے منصوبوں اور حکمت عملی میں اختلاف ہے لیکن خود ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ممکن ہے کہ نبیوںؑ کے درمیان ایک دین کے باب میں اختلاف نظر ہو مگر ان کے درمیان مخالف نہیں ہے۔ ہمارا یہ بیان قرآن کے ساتھ مختص نہیں ہے کہ ’’ لوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا‘‘۔(۲) تورات کا اول و آخر ایک ہے، انجیل کا اول و آخر ایک ہے زبور کا اول و آخر یکساں ہے یہاں تککہ قرآن کا بھی صدر و ذیل یکساں ہے۔
اسی بنا پر قرآن کریم کے معارف اور تعلیمات متحد ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ آسمان سے نازل ہوئے ہیں یہ زمینی نہیں ہیں۔’’ لوکان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا‘‘۔ اختلاف آسمان سے نہیں آتا بلکہ زمین سے پھوٹتا ہے۔ ہمیں دو کام کرنے چاہئیں ایک یہ کہ آسمانی منصوبوں کو دقت کے ساتھ سمجھیں اور ان کو قبول کریں اور دوسرا یہ کہ زمینی منصوبوں کو پوری دقت کے ساتھ چلائیں (ان کی ادارت کریں)۔
قرآن کریم میں ارشاد باری ہے کہ جو کچھ زمین ہے میں نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے ۔ پس اگر زمین سطح اور زیر زمین سب انسان کے لئے مسخر ہے تو پھر انسانوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے کہ وہ اس کمی اور حرص و لالچ کی وجہ سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں اور دو علاقوں کے درمیان ہونے والی جنگیں سب کوتاہ فکری کی وجہ سے چھڑیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اختلاف نقصان دہ ہے۔ پیمبر اکرمﷺ کا یہ نورانی بیان کہ ’’ایاکم والبغصہ۔۔۔۔ فانہا الحالقۃ للدین‘‘۔ (۳) آپسی اختلاف سے ہوشیار رہو کہ یہ ایک تیغ ہے جو تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ ایک یہ کہ یہ تیغ دین کی جڑوں کو کاٹتی ہے اور دوسرے یہ کہ اساس کو گرا دیتی ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی ذیحجہ کی دس کو منا میں اپنے بال منڈوا لے تو اس کے بال اتنی جلدی نہیں اگتے۔ اگر اس کے ہاتھ میں استرا ہو اور ہر روز اپنا سر منڈتا رہے تو اس کے بال اگیں گے ہی نہیں۔اس حدیث میں بھی آنحضرتﷺ نے یہی فرما یا کہ ’’ایاکم والبغصہ۔۔۔۔ فانہا الحالقۃ للدین‘‘۔ مبادا ایک دوسرے سے کینہ رکھنے لگو کیونکہ بغض و عداوت ایک تیز دھار تیغ ہے جو دین کی جڑوں کو کاٹ دیتی ہے اور دین کے پھولوں کو کھلنے نہیں دیتی، اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ دین کے برگ و ثمر پیدا ہوں ’’ایاکم والبغصہ۔۔۔۔ فانہا الحالقۃ للدین‘‘ یہ اختلاف ہے جو دین کے بطن میں تیغ رکھ دیتاہے۔
مخالفت سے بی دینی کا خطرہ ہے اور بی دینی کا انجام جہنم کی آگ میں جلنا ہے دنیا کی رسوائی اس کے علاوہ ہے۔ لیکن وحدت، وحدت آسمان سے نازل ہوئی ہے خدا نے فرمایا ’’ واعتصموا بحبل اللہ جمعیاً ‘‘۔(۴) خدا کی رسی یہ حبل اللہ آسمانی کتابوں کے وسیلہ سے زمین پر آویزاں ہیں، یہ زمین پر گری ہوئی نہیں ہے۔ توریت ہو انجیل ہو یا زبور داود ہو یہ خدا کی لکھی ہوئی ہیں جو زمین پر القا ہوئی ہیں پھینکی نہیں گئی ہیں، یہ زمین پر متجلی ہوئی ہیں ، یہ زمین پر آویزان ہوئی ہیں زمین پر ڈالی نہیں گئی ہیں۔ ان کو زمین پر نہیں ڈالا گیا کہ ان میں اور آسمان میں فاصلہ پیدا ہو۔ یہ آسمانی کتاب، یہ خدائی کتاب ایک طرف سے لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور ایک طرف سے ہاتھوں سے بے نیاز خدا کے ہاتھ میں ہے۔ غیر تحریف شدہ توریت ایسی ہی ہے، غیر تحریف شدہ انجیل ایسی ہی ہے اسی لئے خدا نے کہا ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔
وہ تعلیمات و معارف جو آسمانی کتب میں ہیں یعنی خدا کی وحدانیت، ابدیت، ازلیت، معاد و قیامت کی حقانیت اور اس جیسے دوسرے معارف اگر وہ دلوں میں بس جائیں تو معاشرے کبھی بھی ایک دوسرے کی جان کے درپے نہ ہوں ۔ نہ عالمی جنگ اول کی ضرورت ہو نہ دوسری عالمی جنگ کی نہ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کی نہ کسی اور اختلاف کی۔
پس وہ چیز جس کانام وحدت ہے وہ آسمان میں ہے اور جو چیز نازل ہوئی ہے وہ آویزاں ہونے کے معنی میں ہے ڈالنے یا گرانے کے معنی میں نہیں ہے۔ یعنی جس وقت اوپر موجود ہے اسی وقت میں وہ نیچے بھی موجود ہے۔ اس حبل اللہ کے واضح ہونے کے لئے انسانی فکر کو آسمانی ہونا ہوگا۔ یہ انسان کو ایک تفکر دیتی ہے کہ انسان الہی طرز پر سوچے سمجھے۔ ایک قلب دیتی ہے کہ خدائی طرز تفکر کو اپنائے۔ کہا گیا کہ تم لوگ بہترین طریقہ سے زندگی گذارو اور بہترین زندگی وحدت کے سائے میں (ممکن) ہے مخالفت کے سائے میں بہترین زندگی نہیں ہے۔ بہترین زندگی جنگ اور فوجی نظام کے سائے میں بھی نہیں ہے بلکہ عفو و درگذر اور ایثار کے سائے میں ہے۔ بہترین زندگی گذارنے کے لئے آپ دو نکتوں پر توجہ کیجئے ایک یہ کہ عالم خلق اور نظام خدا وندی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ آپ جتنا جینا چاہتے ہیں جی سکتے ہیں جہان میں اس قدر وسائل موجود ہیں جو آپ سب کی طولانی عمروں کے لئے بھی کافی ہیں ۔ یہ ہوئی پہلی اصل۔
دوسری اصل یہ ہے کہ جو کچھ جہان میں موجود ہے وہ سب خدانے آپ کے لئے مسخر کر دیا ہے۔ نہ تو انسان کو یہ حق ہے کہ وہ کہے ’’میں نہیں کر سکتا‘‘ اور نہ ہی کسی آسمانی یا زمینی موجود کو یہ حق ہے کہ وہ کہے ’’ میں انسان کے تابع فرمان نہیں ہوں‘‘۔ دونوں امتناع ممنوع ہیں۔ اگر انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ کہے کہ میں نہیں کرسکتا اور جہان کو یہ حق نہیں کہ کہے میں بات نہیں مانتا بلکہ انسان عنایات الہی کے سائے میں توانا اور طاقتور ہے اور سارا جہان مسخر ہے تو اس بنا پر کسی قسم کی کوئی کمی اور کاستی ہے ہی نہیں کہ جس کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جائیں۔ لیکن لالچی افراد کی طبیعت جو کبھی سیر نہیں ہوتی اس کا معاملہ الگ ہے اور یہی لالچی طبیعت فساد کی راہ ہموار کرتی ہے۔
قرآن کریم میں آیا ہے کہ اتحاد اور ہم آہنگی زمینی نہیں ہے بلکہ آسمانی ہے۔ ’’ لوانفقت ما فی الارض جمیعا ما الفت بین قلوبہم۔‘‘ اس کے آسمانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی موحد ہوگا تو اس کو خداکے سوا نہ کسی پر اعتماد ہوگا نہ کسی کی پروا۔ اس قلب اور جسد خدا تفکر الہی میں ڈوبے ہیں۔ وہ دوسروں کے لئے بھی خیر کا طلب گار ہوتاہے۔ کیا زمین اور کیا زمان، جو کچھ اس نظام میں موجود ہے وہ سب خدانے بشر کے لئے خلق کیا ہے ۔ فرمایا: جعل لکم اللیل و النہار‘‘ اس نے شب و روز کو تمہارے لئے خلق کیا ہے۔ انسان کو اپنے دن رات کو منظم کرنا چاہئے۔ دن اور رات کے لئے اس کے پاس درست منصوبہ بندی ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنی شخصی کاموں کو بھی انجام دے سکے اور اجتماعی کاموں کو بھی۔ اس کے پاس ذات اقدس الہی کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنے کا وقت بھی ہو اور اجتماعی کاموں وقت بھی ہو۔ انسان زمان کی درست منصوبہ بندی کر کے اس کو منظم کرسکتا ہے کیوں کہ کہا گیاہے کہ ’’جعل لکم اللیل و النہار۔ آسمان اور زمین جو کہ خدائی نظام ہیں انسان ان کو بنیاد قرار دے سکتا ہے ، فائدہ حاصل کرنے کے لئے۔ آسمان کوئی موجود نہیں مگر یہ کہ وہ مسخر شدہ ہے اور انسان اس کو تسخیر کرسکتا ہے پس اس بنیاد پر عالم میں تو کسی قسم کی کمی نہیں ہے کہ اس کمی کی وجہ سے یعنی زمین، زمان یا جگہ کی کمی کی وجہ سے اختلاف در پیش ہو۔
اگر کسی کی حرص اور لالچ بڑھی ہوئی ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی اخلاقی تربیت کرے وگرنہ عالم میں کوئی ایسا موجود نہیں کہ خدا نے اس کو انسان کے لئے خلق نہ کیا ہو۔ یہ قول کہ خلق لکم ما فی الارض جمعیا ‘‘ یا یہ کہ ’’ خلق لکم‘‘ یعنی وہ سب کچھ جو آسمان اور زمیں میں ہے یا ’’خلق لکم‘‘ یعنی جو کچھ خدائی نظام میں موجود ہے سب کچھ تمہارے لئے خلق ہوا ہے۔ اسی بنا پر کسی چیز کی کوئی کمی ہے ہی نہیں کہ انسان اس کی وجہ سے اختلاف کرے۔
انسان ہر چیزکی ادارت کرنا چاہئے حتی زمان کو کیونکہ فرمایا گیا ہےکہ ’’ خلق لکم اللیل و النہار‘‘۔ انسان کو زمین کی بھی ادارت کرنا چاہئے اور تمام خدائی نظام کی بھی۔ ان تمام کی منصوبہ بندیوں کے ساتھ انسان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ خدا کی پیشکشوں اور اس کے تحفوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ خدا کے یہاں وحدت اور ہم آہنگی کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔ دریاوں کے صفحات میں اتحاد نہیں ہے کیونکہ یہ کثرت کی جگہ ہے ، ایک دوسرے کو لعن کرنے کی جگہ ہے برابری اور اس جیسی دوسری چیزوں کا مقام ہے۔
نتیجہ: اتحاد ایک امر الہی ہے جو نازل ہوتا ہے تجلی کی صورت میں (یعنی نزول کے بعد بھی ایسا نہیں کہ وہ بلند مرتبہ کو چھوڑ دیتا ہو بلکہ وہ عالی اور سافل دونوں میں مرتبوں میں ایک ساتھ ہوتا ہے) اتحاد کا امر تجافی کی صورت میں نازل نہیں ہوتا ( تجافی یعنی ایسا نازل ہونا کہ جب نزول ہو تو بلند مرتبہ کو چھوڑ دے اور نچلے مرتبہ پر آجائے جیسا کہ بارش کے قطرے جب آسمان سے گرتے ہیں تو آسمان کو خالی کرنے زمین پر آجاتے ہیں)۔ اختلاف ایک امر زمینی ہے اور انسان کی فکر جب تک زمینی ہوگی اور انسان زمین محور رہے گا اس وقت تک وہ کسی بھی صورت میں اتحاد تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر انسان آسمانی تفکر کا حامل ہوجائے تو وہ اتحاد کی حفاظت بھی کر سکتاہے اور دنیا اور آخرت کی سعادت بھی حاصل کر سکتا ہے۔
میں ایک بار پھر آپ سب کا شکر گذار ہوں اور دعا گو ہوں کہ ہر وہ چیز جو دنیائے اسلامی کی خیر و صلاح اور فلاح ہے اور جس میں مسلمانوں کے لئے رفاہ ہے وہ قرآن و عترتؑ کی برکت سے مہیا ہوجائے۔
غفر اللہ لنا و لکم والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
جوادی آملی۔۔۔
۱۔ سورہ انفال آیہ ۶۳
۲۔ سورہ نساء آیہ ۸۲
۳۔ دعائم الاسلام جلد ۲ صفحہ ۳۵۲
۴۔ سورہ آل عمران آیہ ۱۰۳