اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مملکت، مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کی علامت کے عنوان سے گلے میں فلسطینیوں کا مخصوص مفلر پہنے ہوئے، اب سے تھوڑی دیر قبل ریاض پہنچ گئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی گیارہ سال کے بعد، سعودی عرب کا دورہ کرنے والے پہلے صدر ایران ہیں جو غزہ کے بارے میں اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی کے ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے ہيں۔
اس رپورٹ کے مطابق ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر صدر جمہوریہ ایران سید ابراہیم رئیسی کا سعودی حکام اور سفیر ایران نے استقبال کیا۔
صدر سید ابراہیم رئیسی غزہ کے بارے میں او آئی سی کے ہنگامی سربراہی اجلاس میں شرکت کے علاوہ اجلاس میں شریک اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات اور گفتگو بھی کریں گے۔
صدر ایران کے ہمراہ اس دورے میں وزیر خارجہ حسین امیر عبداللّہیان اور بعض دیگر اعلی رتبہ حکام بھی ریاض پہنچے ہیں۔
صدر ایران سید ابراہیم رئیسی نے سنیچر کی صبح ریاض روانگی سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک ماہ پہلے اس ہنگامی اجلاس کی درخواست کی تھی جو بعض وجوہات کی بنا پر ٹلتا رہا اور اب ہورہا ہے ۔
صدر مملکت نے کہا کہ آج غزہ میں جو ہورہا ہے اگر وہ انسانیت کے خلاف جرم نہیں ہے تو پھر انسانیت کے خلاف جرم کا مصداق کیا ہے ؟
صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکی حکام اپنے بیانات میں یہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ میں وسعت نہیں چاہتے اور انھوں نے اس سلسلے میں ایران اور بعض دیگر ملکوں کو پیغامات بھی دیئے ہیں لیکن ان کا عمل ان کی ان باتوں سے تضاد رکھتا ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ غزہ میں جنگ کی مشین امریکا کے اختیار میں ہے اور امریکا نے ہی غزہ میں جنگ بندی روک رکھی ہے ، وہ جنگ کو وسعت دے رہا ہے ، دنیا امریکا کی حقیقت کے پہچانے ۔ سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کے عوام کی نگاہیں او آئي سی کے اس ہنگامی سربراہی اجلاس پر لگی ہوئی ہیں ۔
انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان فلسطین کے بارے میں جو عالم اسلامی کا اہم ترین مسئلہ ہے، ٹھوس اور محکم فیصلہ کریں گے اور اس فیصلے پر عمل بھی ہوگا۔