یونیسف کی سربراہ کے بقول غزہ کے جنگ زدہ بچے بھوک اور افلاس کے اس قدر مارے ہیں کہ ان کے پاس رونے کے لیے بھی طاقت نہیں۔ کیتھرین رسل نے سی بی ایس کو بتایا کہ چھ ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری میں قریب 13 ہزار فلسطینی بچے مارے جاچکے ہیں۔
غزہ کے شمالی حصے میں ہر تیسرا بچہ شدید بھوک اور افلاس کا شکار ہے۔ محترمہ رسل کہتی ہیں کہ بچوں میں معذوری کے علائم واضح ہیں اور اگر یہ بچے ان سخت حالات میں زندہ بھی رہ گئے تو معذوری کے علائم اور اثرات عمر بھر ان کے ساتھ رہیں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال کی سربراہ نے الزام عائد کیا کہ اسرائیلی بیوروکریسی نے امداد کے راستے روکے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت امداد یہاں پہنچ رہی ہے وہ سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہے۔
اسرائیلی حکومت پر دباو بڑھ رہا ہے کہ وہ سویلین ہلاکتوں کو روکے۔ رواں ماہ اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوک سے مار رہا ہے اور جنگ سے بچ کر فرار ہونے والوں اور امدادی قافلوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔
یونیسیف مطابق دس میں سے نو افراد کے پاس کھانے کو نہیں اور 81 فیصد آبادی کو پینے کا پانی میسر نہیں۔
ادہر یورپی کمیشن کی سربراہ اورسلا فان ڈیر لیون نے دورہ مصر کے موقع پر واضح کیا ہے کہ غزہ میں قحط جیسی صورتحال قابل برداشت نہیں۔
مصر کے صدر عبد الفتح السیسی سے ملاقات کے بعد انہوں نے غزہ کی صورتحال پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
اسرائیلی حملوں سے بچ کر قریب ڈیڑھ ملین فلسطینی غزہ کے جنوبی شہر رفاح میں پناہ لیے ہوے ہیں۔
جرمن چانسلر اولاف شولٹس ان دنوں یروشلم کے دورے پر ہیں اور ان کے بقول رفاح پر ممکنہ اسرائیلی زمینی حملوں کا موضوع حل کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔
اسرائیل کے دیرینہ حامی امریکا میں بھی اس ممکنہ حملے کی مخالفت سے متعلق صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
سینیٹ میں حزب اقتدار کے رہنما چک شومر، جو امریکا میں بلند ترین مقام پر فائز یہودی رہنما ہیں، نے حال ہی میں نیتین یاہو کی قیادت پر تنقید کرتے ہوے اسرائیل میں تازہ انتخابات کا مطالبہ کیا تھا۔
نیتین یاہو نے ان کے اس بیان کو مسترد کرکے اسے اسرائیلی امور میں مداخلت قرار دیا۔
تاہم زمینی حقائق مختلف ہیں اور بہت سے اسرائیلی سڑکوں پر نکل کر حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہورہے ہیں۔
یاد رہے کہ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں میں 240 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا، جس میں بچے بھی شامل تھے تاہم بعد میں جنگ بندی کے موقع پر 120 یرغمالی رہا کردیے گئے تھے۔
اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے 34 یرغمالی جو غزہ میں تھے، مارے جاچکے ہیں۔
یرغمالیوں کے عزیز و اقارب اب بھی پر امید ہیں اور خطے میں امن کے خواہاں ہیں۔ اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شریک ایک شخص کے بقول یہودیوں اور عربوں کے مابین جنگ اور خونریزی کا راستہ روکنا ہوگا۔
ان تمام کے باوجود نیتین یاہو رفاح پر حملے کے لیے پر عزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ داخلی اور بین الاقوامی مخالفت انہیں "مکمل جیت" سے نہیں روک سکتے۔
اسرائیلی فورسز نے غزہ میں ایک طویل جنگی سرنگ کو تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی افواج رفاح پر حملے کی تیاری کر رہی ہے اور سویلینز کو ان کے بقول "ہیومینیٹیرئن جزائر" پر منتقل کیا جائے گا۔
اب تک فلسطینیوں کی لگ بھگ 31 ہزار ہلاکتوں، بھوک اور افلاس کے بعد اب مزید بمباری سے جانی ضیاع میں اضافے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔