QR codeQR code

جو کچھ قابضین، غزہ میں انجام دے رہے ہیں وہ جنگی جرم ہے

7 Apr 2024 گھنٹہ 15:15

حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ اس حوالے سے ایران کا موقف شروع دن سے ہی روشن رہا ہے اور وہ ہمیشہ شہداء کے خون کے ساتھ وفادار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین، لبنان اور پورے خطے میں قابض رژیم کے خلاف لڑنے والوں کے لیے ایران اپنے مقام و مرتبے میں ہمیشہ حقیقی اور مرکزی اتھارٹی ہے۔


لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب اللہ" کے سربراہ "سید حسن نصر اللہ" نے یوم القدس کی مناسبت سے ایک تقریب سے خطاب کیا۔ اس تقریب میں سید حسن نصر اللہ نے القدس ریلی میں شریک تمام افراد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوم القدس ایک ایسا دن ہے کہ جس دن ہم اس عظیم کاز اور مقاومت کے ساتھ اپنا تجدید عہد کرتے ہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے حال ہی میں دمشق میں ایرانی سفارت خانے سے ملحقہ قونصلیٹ کی عمارت پر صیہونی حملے کی مذمت کی۔ انہوں نے اس حملے میں شہید ہونے والے افراد کے بارے میں کہا کہ جو عظیم شخصیات اس حملے میں شہید ہوئیں وہ ہمارے لیے اور مقاومتی راستے کے لیے تاریخی حیثیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے ان عظیم افراد کی شہادت کے حوالے سے ولی امر مسلمین آیت اللہ "سید علی خامنہ ای"، ایران کے اعلیٰ حکام، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور اس کی قدس فورس کے ساتھ ساتھ شہداء کے وارثین کو تسلیت عرض کی۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ ائندہ ہفتے سوموار کے روز دوپہر دو بجے ہم صیہونی رژیم کی جارحیت کے خلاف ایک تقریب منعقد کریں گے۔

سیدِ مقاومت نے کہا کہ صیہونی جارحیت میں ان پیاروں بالخصوص جنرل "محمد رضا زاہدی" کی شہادت ہمارے لئے بڑی غم انگیز تھی کیونکہ ان کا لبنانی مقاومت کے ساتھ ایک طویل رابطہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر صیہونی جاریت ایک مفصل بحث رکھتی ہے۔ امام خمینی رہ کی جانب سے آخری جمعۃ الوداع کو یوم القدس سے منسوب کرنے کی حکمت کے حوالے سے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے انقلاب اسلامی کی کامیابی اور ولی فقیہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ و اسرائیل کے خلاف کھل کر اپنے موقف کا اعلان کیا۔ امام راحل کی جانب سے مختلف مراجع عظام کو مقاومت فلسطین کی مدد کے لئے شرعی مالیات سے استفادہ کرنے کی اجازت دینا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ بانی انقلاب اسلامی مسئلہ فلسطین پر کس قدر اخلاقی و دینی دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی مخالفت اور قدس و مقاومتِ فلسطین کی حمایت کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کو دشمنی اور جنگ کا سامنا ہے۔ ایران نے اس حوالے سے بہت زیادہ قربانی بھی دی ہے۔ تہران نے امام خمینی رہ کے زمانے سے ہی فلسطین کاز کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان کیا جس وجہ سے ایران کو بہت زیادہ سازشوں اور دشمن کی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔

امینِ لبنان نے اپنی تقریر میں ایرانی جوہری مذاکرات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سے ڈائریکٹ امریکہ کے ساتھ جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات کو مسترد کیا ہے۔ حالانکہ امریکی ہمیشہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ مستقیم طور پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ایرانی کبھی بھی امریکیوں کے ہاتھوں دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی اس طرح تجزیہ کرتا ہے یا کہتا ہے کہ غزہ، فلسطین، عراق اور یمن میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یا لبنان میں صدارتی انتخاب کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت، امریکی و ایرانی مذاکرات کا مقدمہ فراہم کرنے کے لئے ہے تو وہ غلط سوچ رہا ہے۔ ایران کبھی بھی علاقائی تنازعات میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔ ہمیں بہت سی ایسی مضحکہ خیز باتیں سننے میں ملتی ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ اور ایران کے درمیان فقط ایک نمائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افراد مقاومت کی کسی علاقائی کامیابی پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ لوگ فریب میں مبتلا ہیں اور یقین نہیں کر رہے کہ اسرائیل علاقے میں شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جنوبی لبنان اور غزہ کی پٹی سے پسپائی کا مطلب اسرائیل کی شکست ہی ہے۔

حزب الله کے سربراہ نے کہا کہ اس حوالے سے ایران کا موقف شروع دن سے ہی روشن رہا ہے اور وہ ہمیشہ شہداء کے خون کے ساتھ وفادار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین، لبنان اور پورے خطے میں قابض رژیم کے خلاف لڑنے والوں کے لیے ایران اپنے مقام و مرتبے میں ہمیشہ حقیقی اور مرکزی اتھارٹی ہے۔ ایران نے مقاومت کی حمایت کر کے علاقے کا توازن بدل کر رکھ دیا ہے اور بہت سارے تسلط آمیز منصوبوں کو نابود کر دیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا ٹھوس موقف وہی ہے جس کا اظہار آج اس ملک کے عوام نے اپنے شاندار مارچ سے کیا اور مسئلہ فلسطین کی حمایت پر زور دیا۔ ایران وہ مضبوط قلعہ ہے جو کبھی تسلیم نہیں ہوگا۔ ایران کبھی بھی اپنے ایمان، دین، اپنے دوستوں اور مظلوموں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ایران سے رابطے پر فخر کریں۔ یہ ہمارے لیے عزت اور شرف کی بات ہے۔  سید حسن نصر الله نے مسئلہ فلسطین کے ساتھ خیانت اور قابض رژیم کی مدد کرنے والی حکومتوں کو چینلج کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو شرم آنی چاہئے جو اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ اور اس کا دفاع کرنے والی سائیڈ پر کھڑے ہیں۔ اسی طرح انہیں امریکہ سے تعلق پر شرمندہ ہونا چاہئے جو علاقے میں ساری قتل و غارت گری کا ذمہ دار ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے اس بات کی وضاحت کی کہ بلاشبہ طوفان الاقصیٰ ہمارے خطے کا ایک تاریخی حادثہ تھا کہ جس کے بعد والا زمانہ دوستوں اور دشمنوں کے لئے پہلے کی طرح کا نہیں ہو گا۔ ہم نے بہت سارے اسرائیلی حکام سے سنا ہے جو کہتے ہیں کہ 1948ء کے بعد سے ابھی تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ جس کی بنا پر ہم ایک تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ اس واقعے نے اسرائیل کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا اور اس رژیم کی شکست و کمزوری کو عیاں کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنہوں نے بھی غزہ کے خلاف جنگ شروع کی ہے ان کے پاس عقل نہیں ہے۔ اس جنگ میں اسرائیل کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اس جنگ کو سوچے سمجھے بغیر کنٹرول کر رہے ہیں۔ صیہونیوں نے اس وقت جس راستے کو اختیار کیا ہے وہ راستہ، قتل وغارت گری اور جنگی جرائم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اسرائیلی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ قابضین نہتے شہریوں پر بمباری، عمارتوں کی تباہی اور بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے بہت سارے جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس اقدام کی وجہ یہ ہے کہ صیہونی ابھی تک اپنے کسی بھی ہدف کو پانے میں ناکام رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس طریقے سے اپنا دباؤ بڑھائیں۔

 سیدِ مقاومت نے کہا کہ میدانی حقیقتیں واضح ہو چکی ہیں۔ جو کچھ قابضین، غزہ میں انجام دے رہے ہیں وہ جنگی جرم ہے۔ نہ تو انہیں میدان جنگ میں کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہی مذاکرات کی میز پر۔ صیہونیوں کا کوئی بھی دباؤ فلسطینی مذاکرات کاروں کو شمالی غزہ سے اپنے مہاجرین کی واپسی سمیت اپنے حقوق کے حصول سے پیچھے نہیں ہٹا سکا۔ اسلئے نتین یاہو اس جارحیت کو روکنے پر مجبور اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نتین یاہو اپنی شکست کو ماننے کی بجائے مکمل فتح کے بارے میں بات چیت کرتا ہے اور دوسروں کے سامنے اپنا مذاق بنواتا ہے۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد نتین یاهو نہ تو غزہ سے مقاومت و حماس کو ختم کر سکا ہے اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو واپس لا سکا ہے۔ اِن کے پاس جنگ کے بعد کا بھی کوئی منصوبہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شمالی مقبوضہ فلسطین میں حزب‌ الله کی کارروائیوں کی وجہ سے صیہونیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے ان اقدامات کے نتائج کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب تک کی سروے رپورٹس کے مطابق 80 فیصد صیہونی قبضہ کئے گئے گھروں میں واپس لوٹنا نہیں چاہتے۔ یہی بات صیہونی کالونی سازی میں وسعت کے منصوبے کو دھچکا پہنچاتی ہے۔

سید حسن نصر الله نے پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1948ء کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سارے ممالک میں اس رژیم کے ساتھ اسلحہ کی فروخت بند کرنے کے حوالے سے بحثیں شروع ہو گئیں ہوں۔ دوسری جانب امریکی صدر "جو بائیڈن" نتین یاہو سے چاہتے ہیں کہ وہ فوراََ جنگ کو روک دے کیونکہ جو بائیڈن بین الاقوامی سطح پر دباؤ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، اسرائیل کی بے پناہ اور غیر مشروط حمایت کی وجہ سے شرمندگی کا شکار ہے۔ کیونکہ چھ ماہ گزرنے کے بعد ایک بھی امریکی و اسرائیلی ہدف حاصل نہیں ہو سکا اور امریکہ میں صدارتی انتخاب بھی نزدیک ہے۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ ہم مقاومتی محاذ پر فتح کے ویژن کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ ہر طرح کی قربانیوں اور سختیوں کے باوجود ہمارا ویژن واضح ہے۔ مہم یہ ہے کہ ہم ثابت قدم رہیں، اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور فتح کی امید کے ساتھ میدان جنگ میں حاضر رہیں۔ مقاومتی مرکز ہر صورت کامیاب ہو گا۔ انہوں نے دمشق میں ہونے والی صیہونی جارحیت پر ایرانی ردعمل کے بارے میں کہا کہ صیہونی الرٹ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی تمام ریزرو فورسز کو بلا لیا ہے۔ اب ایران کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کب اسرائیلی جارحیت کا بدلہ لیتا ہے۔

لیکن وقت مہم نہیں ہے کیونکہ یہ بھی جنگ کا حصہ ہے۔ تاہم بدلہ حتمی ہے۔ ہمیں ایران کی جوابی کارروائی کے وقت کا تو معلوم نہیں لیکن ایرانی قوم اسرائیل سے بدلہ لینے پر متفق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومت ہر قسم کی صورت حال کے لئے تیار ہے۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے حوالے سے نتین یاہو کی حماقت، جنگ کا دائرہ کار پھیلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ سید حسن نصر الله نے کہا کہ ہمارے مجاہدین ہر محاذ اور مورچے پر موجود ہیں۔ سلامتی، بری، بحری اور ملت لبنان کی خودمختاری پر ہماری کامیابیوں کی برکات اثر انداز ہوں گی۔ تمام دوستوں، دشمنوں اور مزاحمت کے خلاف بھڑکانے والوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ لبنانی مقاومت کسی جنگ سے نہیں ڈرتی۔ مقاومت نے 6 ماہ سے ایک واضح اور اسٹریٹجک وژن کے ساتھ جنگ ​​کو سنبھالا ہے۔ آج ہم کسی بھی جنگ کے لیے تیار ہیں جسے دشمن شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دشمن جنگ کی تلاش میں ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ کیونکہ صیہونیوں کو اچھی طرح پتا ہے کہ لبنان کے ساتھ جنگ کے کیا معنی اور نتائج ہیں۔ آج ہم جس جنگ میں ہیں وہ ایک ایسا معرکہ ہے جس میں ہم نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہم نے اس جنگ میں داخل ہونے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ ہم آج یوم القدس کے موقع پر وعدہ کرتے ہیں کہ اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔


خبر کا کوڈ: 630950

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/news/630950/جو-کچھ-قابضین-غزہ-میں-انجام-دے-رہے-ہیں-وہ-جنگی-جرم-ہے

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com