بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛
شنگھائی تعاون کونسل رکن ممالک کے درمیان سیاسی اور اقتصادی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے کے تحت قائم ہوئی اور ایران سمیت مختلف ممالک کی شمولیت کے بعد رکن ممالک کی عالمی طاقتوں پر احتیاج میں کمی ہوئی ہے۔
شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں بدھ کو شروع ہوا۔ ایران کے وفد کی قیادت وزیر صنعت، معدن اور تجارت سید محمد اتابک کررہے ہیں۔
گذشتہ دہائیوں کے دوران شنگھائی تعاون کونسل کے رکن ممالک اقتصادی طور پر کئی چیلنجز سے روبرو ہوئے ہیں جس سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی ضرورت پیش آئی۔ شنگھائی تعاون کونسل کے پلیٹ فارم سے رکن ممالک کو اقتصادی، توانائی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کا موقع میسر ہوا۔ رکن ممالک ایک دوسرے کی مدد سے بین الاقوامی سطح پر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور عالمی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں۔
اس طرح یہ کونسل عالمی سطح پر ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر خود کو پیش کرچکی ہے جو عالمی نظام میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
شنگھائی تعاون کونسل کی ایک اہم کامیابی رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون ہے۔ رکن ممالک میں اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہوئے کونسل نے باہمی روابط اور تعاون کو بڑھایا۔ حمل و نقل اور توانائی کے شعبوں میں باہمی تعاون میں اضافہ ہوا۔ باہمی تعاون اور روابط کی وجہ سے رکن ممالک کی امریکہ اور یورپی ممالک سمیت عالمی طاقتوں کی طرف جھکاو اور ضرورت میں کمی واقع ہوئی۔
روس اور چین نے دو بڑے عالمی ممالک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔ ایشیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ان دو بڑے ممالک کے باہمی تعاون سے کونسل ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر سامنے آگئی جس سے رکن ممالک کی خودمختاری محفوظ ہونے لگی۔
شنگھائی تعاون کونسل ریک دفاعی ادارے کے طور پر بھی رکن ممالک کی دوسرے ملکوں کی طرف ضرورت کو کم کرتی ہے۔ رکن ممالک کے درمیان دہشت گردی، انتہاپسندی اور سمگلنگ کی روک تھام میں تعاون اس تنظیم کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ کونسل کے اراکین ایک دوسرے سے تعاون کرکے ان خطرات کو کم یا ختم کرسکتے ہیں۔ رکن ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی مشقیں ایک دوسرے کی مہارتوں اور تجربات سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
شنگھائی تعاون کونسل ثقافتی شعبے میں ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر خود کو پیش کرچکی ہے۔ رکن ممالک باہمی روابط کے ذریعے ثقافتی تبادلے اور سفارتی تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مزید نزدیک ہوسکتے ہیں۔
شنگھائی تعاون کونسل نے رکن ممالک کو اتنی جرائت عطا کی ہے کہ عالمی طاقتوں اور گروپ 20 جیسی تنظیموں کے سامنے خود کو پیش کریں۔ باہمی تعاون اور روابط کے ذریعے رکن ممالک عالمی سطح پر درپیش مشکلات کا آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔
توانائی ایسا شعبہ ہے جس میں شنگھائی تعاون کونسل کے اراکین زیادہ سے زیادہ تعاون کرسکتے ہیں۔ ایران سمیت کونسل کے کئی رکن ممالک کے پاس توانائی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہ ممالک باہمی تعاون سے توانائی کے بحران کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ماحولیات اور اس کے متعلق شعبوں میں بھی رکن ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔
ان تمام مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شنگھائی تعاون کونسل اقتصادی، سفارتی، ثقافتی اور سیکورٹی شعبوں میں ایک موثر پلیٹ فارم بن سکتی ہے جو رکن ممالک کے درمیان ان شعبوں میں تعاون کو فروغ دیتے ہوئے عالمی طاقتوں اور تنظیموں پر اپنے احتیاج کو مزید کم کرسکتی ہے۔
اسلامی جمہوری ایران کے علاوہ چین، روس، پاکستان، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغزستان، بھارت اور بیلاروس شنگھائی تعاون کونسل کے رکن ممالک ہیں۔