اگرچہ قابض فوج نے غزہ کی پٹی میں اپنی افواج کی تعداد میں کمی کر دی ہے لیکن اس علاقے پر حملے جاری ہیں اور اس کا مستقبل بے یقینی کے عالم میں ہے۔
سما نیوز ایجنسی کے حوالے سے ہفتہ کو تقریب خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحییٰ سنور کی شہادت کے باوجود غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حکومت کے حملے جاری ہیں جب کہ ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے قتل کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے ختم ہونے کا امکان ہے۔ جنگ کے لیے لیکن یہ حکومت غزہ میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ طویل جنگ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
صیہونی حکومت کی جنوبی کمان کے سابق سربراہ جنرل یوم توف سامیح نے میڈیا کان کو بتایا: "اسرائیلی کابینہ اسرائیل کی سلامتی کے تصور کے خلاف حرکت کر رہی ہے۔"
تل ابیب میں صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کے مطالعہ کے تجزیہ کار اوفر شیلیح نے بھی کہا: "متفقہ حکمت عملی کی عدم موجودگی میں اسرائیل کو مستقبل میں دلدل میں دھنسنے کے خطرے کا سامنا ہے۔" صورتحال بہت خطرناک ہے۔ ہم اس سمت بڑھ رہے ہیں جہاں اسرائیل خود کو غزہ کا حکمران سمجھتا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی فوج لبنان میں کارروائیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، غزہ ڈویژن کی تعداد کم کر کے دو ڈویژن رہ گئی ہے اور اس میں تقریباً 10,000 سے 15,000 فوجی شامل ہیں۔ جب کہ اسرائیلی فوج حماس کی افواج پر شدید ضربیں لگانے کی شکایت کر رہی ہے، لیکن صورتحال مختلف ہے اور حماس کی افواج اسرائیلی فوج کے خلاف حملے شروع کر رہی ہیں۔
ایک فلسطینی جنگجو نے رائٹرز کو بتایا کہ "ہم اپنے اہداف کا انتخاب کرتے ہیں اور ہم زمین پر ٹینکوں سے نہیں لڑتے، لیکن ہم اس طریقے سے لڑتے ہیں کہ ہم طویل عرصے تک برقرار رہ سکیں"۔
ساما نے مزید غزہ کے حوالے سے بنیامین نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یواف گیلنٹ کے درمیان اختلافات کے تسلسل کی طرف اشارہ کیا۔
اس میڈیا نے لکھا: جب کہ اسرائیلی حکومت کی فوج نے اپنے فوجیوں کی تعداد پانچ سے کم کر کے دو ڈویژن کر دی ہے، غزہ پر اس حکومت کے حملے بدستور جاری ہیں اور غزہ کا مستقبل ابھی تک غیر یقینی کی فضا میں ہے۔
تقریب خبررساں ایجنسی کے مطابق جیسے ہی جنگ اپنے 386ویں دن میں داخل ہو رہی ہے، قابضین نے ہسپتالوں اور طبی عملے کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
قابض فوجیوں نے شمالی غزہ کے کمال عدوان اسپتال میں مرد مہاجرین کو گرفتار کیا اور تمام طبی عملے کو ایک کمرے میں جمع کیا۔
کمال ایڈوان ہسپتال کی صورتحال تشویشناک ہے۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بجلی کے جنریٹر فیل ہونے سے دو بچے دم توڑ گئے۔
قابض فوج نے کمال عدوان اسپتال کے اندر تین ایمبولینسوں اور شمسی توانائی سے متعلق آلات کو نشانہ بنایا۔