امریکی سینیٹر نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم میں اپنے ملک کے ملوث ہونے پر کڑی تنقید کی۔
تقریب خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امریکہ کی ریاست ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے یہودی سینیٹر "برنی سینڈرز" نے X سوشل نیٹ ورک (سابقہ ٹویٹر) پر اپنے ذاتی صفحے پر لکھا: "امریکی عوام کی اکثریت نیتن یاہو کی جنگی مشین سے لیس کرنے کے لیے مزید ہتھیار بھیجنے کے خلاف ہیں۔"
سخت بیانات کے سلسلے میں اس سینیٹر نے کہا کہ بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور امریکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو کی انتہا پسند حکومت نے نہ صرف حماس کے خلاف بلکہ فلسطینی عوام کے خلاف بھی جنگ شروع کر رکھی ہے۔
سینڈرز نے نوٹ کیا کہ غزہ میں مرنے والوں میں 60 فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں، غزہ میں لاکھوں لوگ کئی بار بے گھر ہو چکے ہیں، اور شمالی غزہ کے تمام باشندوں کو تشدد اور غذائی قلت سے موت کے خطرے کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسرائیل ان خاندانوں کو نام نہاد محفوظ علاقوں کی طرف لے گیا لیکن وہاں بمباری کر کے بہت سے لوگ مارے گئے۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ غزہ میں ہزاروں بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور اسرائیل نے غزہ کے 84 فیصد طبی مراکز اور 70 فیصد صحت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے امریکہ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے اس ملک پر غزہ میں اسرائیل کے جرائم میں ملوث ہونے اور مالی معاونت کا الزام لگایا۔
سینڈرز نے نیتن یاہو کی حکومت کو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ انتہا پسند قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ اس پر ایسے لوگوں کا کنٹرول ہے جنہیں اسرائیلی عدالتوں میں سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔
منگل کے روز، انہوں نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا: میں نے غزہ میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں سے ملاقات کی ہے اور ان بچوں کا علاج کیا ہے جن کے سر پر گولیاں لگی ہیں۔
امریکی سینیٹر نے مزید کہا: "ان میں سے زیادہ تر اموات ریاستہائے متحدہ میں بنائے گئے ہتھیاروں سے ہوئیں اور ان کی ادائیگی امریکی ٹیکس دہندگان نے کی۔"
پچھلے ہفتے، سینڈرز نے بھی ایک ٹویٹ میں اعلان کیا: میں کانگریس میں ووٹ کے لیے اسرائیل کو بعض امریکی ہتھیاروں پر پابندی لگانے کا منصوبہ پیش کروں گا۔