ایسا معاشرہ نہ صرف یہ کہ کسی بھی ظالم اور جابر کی دھونس اور دھمکی کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ احکامات الہی کی تکمیل میں کسی مصلحت کا شکار ہوتا۔ اس معاشرے میں بسنے والے افراد بصیرت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جن کا تعارف سورہ عصر خسارہ میں مبتلا افراد کے مدمقابل کروارہی ہے کہ صرف وہ لوگ خسارے میں نہیں ہیں جو ایمان لائے، اعمال صالح انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں
تحریر: حجت الاسلام یوشع ظفر حیاتی
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ولادت باسعادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور یوم مادر کی مناسبت پر مداحان اہلیبیت کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت سارے اہم نکات بیان فرمائے وہیں ایک انتہائی اہم نکتے کی جانب اشارہ فرمایا جسے ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے کلیدی نقشہ راہ تصور کرسکتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ دشمن کا سب سے اہم ہتھیار، ڈرانا اور خوف و ہراس پھیلانا ہے۔ دشمن اس بات کا پروپیگنڈا کرتا ہے کہ آپ کے ہاتھ خالی ہیں تاکہ آپ میں مایوسی پھیلا سکے۔ آپ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم دشمن کی جانب سے اس خوف و ہراس، اختلافات اور مایوسی پھیلانے کا مقابلہ کریں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خوف چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی انسان کو اس کے عزائم سے دور کردیتا ہے اور انسان اپنے خوف کی وجہ سے وہ سب کچھ حاصل نہیں کرپاتا جو اسکے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔
عام زندگی میں اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمیں ایسے بہت سارے انسان نظر آٹے ہیں جو کسی نہ کسی طرح کے خوف اور فوبیا میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اور یہ خوف اور فوبیا انہیں کسی کام کے قابل نہیں چھوڑتا۔مثال کے طور پر ایک ایسا شخص جو پاکی یا ناپاکی کے فوبیا میں مبتلا ہو وہ اپنا پورا وقت انہی امور کی انجام دہی میں صرف کردیتا ہے۔ اسی طرح کسی کو بات کرنے کا خوف ہوتا ہے تو کسی کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کے مقابلے میں آواز اٹھانے کے نتیجے میں پیش آنے والی مشکلات کا۔ جس کی وجہ سے اسکی زندگی کے دیگر امور انجام ہی نہیں پاتے نتیجتا وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
اسی موضوع کو اگر ہم انفرادی کیفیت سے نکال کر اجتماعی میدان میں دیکھیں تو ہمیں یہی انفرادی مشکلات کسی بھی معاشرے کے لئے ناسور کی کیفیت اختیار کئے ہوئے دکھائی دیتی ہیں اور یہ ڈر، خوف اور فوبیا معاشرے میں بسنے والے افراد کو ترقی اور رشد و کمال کی سڑھیاں طے کروانے کے بجائے انہیں جہالت اور ذلت کے گھنگھور اندھیروں میں دھیکلتا دکھائی دیتا ہے۔
ایک اسلامی معاشرے سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہاں نا امیدی کا زرہ برابر بھی امکان موجود ہو۔ کیونکہ اسلامی معاشرہ اللہ کی مدد پر پورا یقین رکھتا ہے اور وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں اسے اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ خود بھی قرآن مجید میں اس بات کی تاکید کررہا ہے کہ لا تقنطوا من رحمۃ اللہ۔۔۔۔دیکھو اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا۔ اگر تم پر مشکلات آن پڑی ہیں تو تم ان مشکلات میں ہی ان سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈو۔ اگر تم الہی مدد و رحمت پر ایمان رکھتے ہوئے ثابت قدمی سے ان مشکلات کے مدمقابل ڈٹے رہو گے تو کامیابی کچھ اس طرح تمہارے قدم چومے گی کہ تم پہلے سے زیادہ مظبوط اور قوی ہو کر باہر نکلو گے اور یہی تمہاری زندگی کی اہم کامیابی ہوگی۔
قرآن نا امیدی کی مذمت کرتے ہوئے اسے کافروں کا عمل قرار دیتا ہے۔ سورہ یوسف کی 87 ویں آیہ شریفہ حضرت یعقوب کی جانب سے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرنے کے قصے کو کچھ یوں بیان کرتا ہے۔
یا بَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَ أَخیهِ وَ لا تَیْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لا یَیْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْکافِرُونَ
اے میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور اسکے بھائی کو تلاش کرو اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو، کیونکہ خدا کی رحمت سے کافروں کے سوا کوئی اور مایوس نہیں ہوتا۔
یعنی یہ ایک ایسا ناپسندیدہ عمل ہے جسے کافروں سے منسوب کردیا گیا ہے۔ مومن ہمیشہ امیدوار ہے لیکن یہ واضح رہے کہ مومن وہ ہے جو خدا کے فرمان پر من و عن عمل کرے اور دستورات الہی کی انجام دہی میں کسی قیل و قال سے کام نہ لے۔ ایسا انسان ہمیشہ الہی احکامات کی انجام دہی میں سرگرم رہتا ہے اور نتیجے کی فکر نہیں کرتا بلکہ اس کا نتیجہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے۔
نا امیدی کے مقابلے میں الہی وعدے کی امید انسان کی روح اور جسمانی کیفیت کو قوت بخشتی ہے اور انسان اسی الہی وقت اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے امور کی انجام دہی میں مشغول رہتا ہے۔
ویسے یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی کام کو فائدے کی امید اور نقصان کے ڈر سے انجام دیتا ہے۔ لیکن جب بات الہی امور کی آتی ہے تو انسان صرف اور صرف احکامات الہی کی انجام دہی کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے اور اسے کسی بھی فائدے یا نقصان کی فکر ہی نہیں ہوتی۔ اسے اگر امید ہوتی ہے تو اس بات کی ہوتی ہے کہ وہ الہی حکم کو پورا کررہا ہوتا ہے اور اگر خوف ہوتا ہے تو اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ حکم الہی پورا ہونے سے نہ رہ جائے۔ ایسے انسان کے لئے خداوند کریم قرآن حکیم میں فرماتا ہے مَن كَانَ يَرْجُوا لِقَاء اللّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللّهِ لاَت وَ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔۔۔ جو شخص خداوند متعال کے دیدار کی امید رکھتا ہے وہ جان لے کہ خدا کی جانب سے اسکی اجل نزدیک ہے اور وہی سمیع اور علیم ہے۔
بس کرنا یہ ہے کہ خدا کے دیدار کی امید کو ہر دم زندہ رکھتے ہوئے اعمال صالح انجام دینے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی ڈر اور خوف کا شکار نہیں ہونا۔ یہی ڈر اور خوف کے بغیر معاشرے میں اعمال صالح انجام دینے کا عزم اس معاشرے کو اختلافات سے بچائے گا کیونکہ جب معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کا مطمع نظر حکم الہی کی تکمیل ہوجائے گی تو پھر ایک دوسرے سے اختلافات میں پرہیز کیا جائے گا اور ایسا معاشرہ حبل الہی کو مظبوطی سے تھام کر الہی وعدے کی تکمیل کی امید دل میں سجائے امورات الہی کی انجام دہی میں مشغول ہوجائے گا۔
اس مرحلے تک پہنچنے میں اگر کوئی معاشرہ تا حد امکان کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے ڈرا دھمکا کر اپنے مفادات حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔ ایسا معاشرہ الہی امید کا حامل ہوگا جسے رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ آپ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں یعنی ایک مومن اور پر امید معاشرہ کے ہاتھ کبھی خالی نہیں ہوتے بلکہ وہ معاشرہ الہی وعدے اور الہی امید سے سرشار ہوتا ہے۔
ایسا معاشرہ نہ صرف یہ کہ کسی بھی ظالم اور جابر کی دھونس اور دھمکی کو قبول نہیں کرتا بلکہ وہ احکامات الہی کی تکمیل میں کسی مصلحت کا شکار ہوتا۔ اس معاشرے میں بسنے والے افراد بصیرت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جن کا تعارف سورہ عصر خسارہ میں مبتلا افراد کے مدمقابل کروارہی ہے کہ صرف وہ لوگ خسارے میں نہیں ہیں جو ایمان لائے، اعمال صالح انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔