تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
غیور اور تعلیم یافتہ لوگوں کی سرزمین تین ماہ ہونے کو ہیں، مسلسل غزہ بنی ہوئی ہے۔ ظلم، جبر، بربریت اور انسانیت دشمنی کی مثالیں قائم ہو رہی ہیں۔ مسئلہ حل ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ کسی اور مقصد کے لیے مسلسل اہلیان پاراچنار کو اذیت دی جا رہی ہے۔ کل کے دلخراش واقعے سے ہر درد دل رکھنے والا انسان مغموم ہے۔ سالوں پردیس میں محنت مزدوری کرکے وطن واپس لوٹنے والے وسیم عباس، حسین اور ان کے ماموں زاد اسحاق حسین کو اتوار کی رات لوئر کرم کے علاقے اوچت میں قتل کرکے ذبح کیا گیا، جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر جاری کی گئی۔ اس ظلم و بربریت پر ہر آنکھ اشکبار ہے اور ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود فرماتے ہیں کہ وہاں انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کو مقامی افراد کی جانب سے رکاوٹ کا سامنا ہے، کیونکہ مقامی لوگ ایسے شرپسند افراد کی مدد کرنا نہیں چھوڑ رہے، مگر جلد ہی حکومت اور سکیورٹی ادارے ان کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا جائے گا۔ سبحان اللہ، یہ ریاستی ذمہ دار کا بیان ہے، جو نا اہلی کی اعلیٰ مثال ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے، جس میں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور، وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت کور کمانڈر پشاور، چیف سیکرٹری کے پی، آئی جی اور متعلقہ کابینہ اراکین نے شرکت کی۔ ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ضلع کرم میں تمام بنکرز کو ختم کیا جائے گا، جبکہ علاقے میں لوگوں سے اسلحہ واپس لینے کے حوالے سے بھی بات چیت جاری ہے، تاکہ مستقبل میں ناخوشگوار واقعات سے بچا جاسکے۔ شیعہ تنظیموں نے ایدھی کو انوالو کرکے ایئر ایمبولینس شروع کی۔ فیصل ایدھی کے وہاں جانے کے بعد اہلیان پاکستان کو وہاں جنم لینے والے انسانی المیے کا پتہ چلا اور پھر میڈیا نے توجہ دی، جس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور کی پی کی حکومت نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ادویات اور کچھ مریضوں کی منتقلی کا اعلان کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر کابینہ ڈویژن کا ہیلی کاپٹر پاراچنار میں ادویات کی فراہمی، مریضوں کی منتقلی اور دیگر امدادی سرگرمیوں کے لئے مختص کر دیا گیا۔وزیراعظم کی ہدایت پر 500 کلو گرام ادویات لے کر پہلا ہیلی کاپٹر فلائیٹ آج پاراچنار پہنچا۔ پاراچنار سے واپسی پر یہ ہیلی کاپٹر 4 مریضوں کو علاج معالجے کی غرض سے اسلام آباد لے کر آیا۔ دوسرا ہیلی کاپٹر آج دوپہر مزید 500 کلو گرام ادویات لے کر اسلام آباد سے پاراچنار کے لیے روانہ ہوچکا ہے اور واپسی پر پاراچنار سے مریضوں کو اسلام آباد کے کر آئے گا۔ اگر آپ ریاستی معاملات کی تھوڑی بہت معلومات بھی رکھتے ہیں تو یہ نااہلی کی انتہاء ہے۔ یہی کوئی اسّی کلومیٹر روڈ ہے اور پوری ریاستی مشینری ان ہاتھوں میں یرغمال بنی ہوئی ہے، جنہوں نے مسافروں کا قتل عام کیا اور اب راستے بند کیے بیٹھے ہیں۔
کراچی حیدر آباد یا اسلام آباد اور لاہور میں کوئی جرم ہو جائے تو ان کے درمیان موجود موٹروے کو بند کر دیا جائے گا؟ کہ جب تک لاہور یا کراچی والے بل نہ دیں، روڈ نہیں کھلے گا؟ اجتماعی سزا کا یہ انتہائی غیر انسانی طریقہ ہے، جو فاٹا کے کالے قانون کے تحت برطانوی استعمار کو حاصل تھا۔ آج یہاں براجمان براون وہی غیر انسانی طریقہ اپنا رہے ہیں۔ ریاست چلانے والے نااہل ریاست کی تضحیک کر رہے ہیں۔ جہاں بھی مجرم ہیں، انہیں ریاست اپنی پوری طاقت سے گرفت میں لائے۔ ڈپٹی کمشتر کا بیان ہو یا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا اختیار کردہ طریقہ کار، یہ غیر انسانی ہے اور وطن عزیز کی تضحیک کا باعث ہیں۔ پاراچنار کی لوکیشن اسے خطے کا تجارتی مرکز بنانے کے لیے بہترین ہے، اسی لیے افغانستان سے سنٹرل ایشیاء جانے والی ریلوے راہداری بڑی تیزی سے افغانستان میں مکمل ہو رہی ہے۔
یہ راہداری پاراچنار سے پاکستان میں داخل ہوگی۔ یوں پاراچنار تجارت کا بڑا مرکز بننے جا رہا ہے۔ اہلیان پاراچنار کے لیے مواقع کی دنیا آرہی ہے۔ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے پاراچنار کی ڈیموگرافی تبدیل کر دی جائے۔ اسلحہ کو جمع کرنے کا اعلان ان کا کام آسان کر دے گا۔ مسائل کا حل صرف اور صرف اسلحہ جمع کرنے کو بتایا جا رہا ہے۔ روڈ تب کھلے گا، جب اسلحہ جمع ہوگا۔ جہاں بھی یہ سوچ ہے، وہ نوٹ فرما لیں، ہم نے لکھ دیا ہے کہ اسلحہ جمع کرنا پاراچنار میں شیعہ نسل کشی کی بنیاد ہوگا۔ خطے کے بنگش اور طوری شیعہ قبائل چاروں طرف سے طالبان، داعش اور افغانستان میں بھی طالبان کے حملوں کی زد میں ہیں۔ ریاست ایک روڈ کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکی۔
پاکستان ایئر فورس نے رات کو پکتیا میں خوارج کے کیمپوں پر حملے کیے ہیں، ردعمل میں پاراچنار اور پاک فوج ہی ان کا ہدف ہوگی۔ یہ گروہ پاک فوج اور اہلیان پاراچنار کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اسلحہ جمع کرنا قطعی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس صورتحال میں دہشتگرد عناصر کو قابو کیا جائے اور بلاتفریق تمام قاتلوں کو سزائیں دی جائیں۔ جن عام شیعہ سنی شہریوں کو املاک کو نقصان پہنچا ہے، اس کا ازالہ کیا جائے۔ ریاست پاکستان سے علماء کا تعاون حاصل کرے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ پاراچنار کا مسئلہ گھمبیر ہو رہا ہے، اس کی حساسیت کو سمجھا جائے اور اس کا تدارک کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کے علاقے پاراچنار میں جاری انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری محاصرے کو فوری طور پر ختم کیا جائے، تاکہ عوام کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاراچنار کے عوام کو خوراک اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھنا انسانی حقوق اور عالمی انسانی اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پاراچنار کے راستے کھولے جائیں، ضروری امداد فراہم کی جائے، امن و امان کو یقینی بنایا جائے اور دہشت گرد گروہوں کے خطرات سے نمٹا جائے۔ پاراچنار کا بحران فوری عالمی توجہ اور حکومت پاکستان کی جانب سے فیصلہ کن اقدامات کا متقاضی ہے۔ پاراچنار کا محاصرہ دنیا کی نظر میں آچکا ہے، اس لیے معاملے کو جلد حل کیا جائے۔ یاد رکھیں، وہ ایک سو بچے جو دوائیں نہ ہونے سے مر گئے، وہ اسی ریاست کے بچے تھے اور وہ لاکھوں لوگ جو تین کی بجائے ایک وقت کا کھانا کھانے پر مجبور ہیں، وہ بھی اسی ریاست کے بچے ہیں۔ بار بار لکھ چکا ہوں، محب وطن لوگوں کی پہچان کریں اور انہیں کبھی وطن دشمنوں کی گود میں نہ جانے دیں۔ پاراچنار کے عام جوان اب ہم سے یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ اگر آپ کے ساتھ ریاست یہی سلوک کرے تو آپ کب تک محب وطن رہتے۔؟