شیعہ اور سنی اسلام کی پرواز کے دو پر ہیں انکی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی اسلام کے نسبت لا پرواہی
تقریبی جمعوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اور اتحاد بین المسلمین کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے آج مورخہ ۲۵ مئی ۲۰۱۲ء کو برصغیر کے لئے تقریب خبر رساں ادارے کے بیورو چیف اور عالمی مجلس برای تقریب بین المذاہب اسلامی کے رکن جناب حجۃ الاسلام والمسلمین عبد الحسین کشمیری نے اپنے رفقاء کے ساتھ ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے خانصاحب تحصیل میں واقع جامعہ مسجد آریگام میں باجماعت جمعہ کی نماز ادا کی۔
تقریب خبر رساں ادارے (تنا) کے مطابق اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین عبد الحسین کشمیری نے کہا کہ:اللہ سبحان و تعالی نے جملہ موجودات کو " خَلَقَ لَكُم(۱)"،" سَخَّرَ لَكُم(۲)"،" مَتاعاً لَكُم(۳)" کی ضمانت کے ساتھ انسان کیلئےخلق کئے ہیں اور خود انسان کو " لِيَعْبُدُون (۴)" اپنے لئے خلق کیا ہے۔جس کی ضمانت اور بشارت کوآخری آسمانی الہی پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےکتاب (قرآن)کی صورت میں ہمارے درمیان چھوڑا ہے اور اس طرح انسان کو کمال حاصل کرنے کیلئے کتاب محوری کے ساتھ سیکھنے اور سکھانے کا "دو" نقاطی منشور انسانیت کے سامنے رکھا ہے اور مسلمان کو اس ثقافت کاعلمبردار بنے رہنے کیلئے رہنمائی فرمائی ہے لیکن مسلمان قول اور عمل میں فاصلہ رکھنے کی وجہ سے ایسے مقام سے دور ہوا ،جسکی بازیابی بہت زیادہ ضرورت ہی نہیں بلکہ ہر ایک مسلمان اور خدا دوست انسان کی منزل ہے۔
حاج عبد الحسین کشمیر ی نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو اللہ نے ہم پر اپنی نعمت" نِعْمَتَ اللَّهِ (۵) " کہہ کر اسکی عظمت بیان فرمائی ہے ہمیں اس نعمت کی قدردانی کرتے ہوئے اسلامی اخوت (إِخْواناً) (۶)کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں رہنا ہے۔شیعہ اور سنی اسلام کی پرواز کے دو پر ہیں انکی حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی اسلام کے نسبت لا پرواہی ہے۔جب شیعہ کے پاس سنی عقائد کی اہانت کرنے کیلئے کوئی ماحول بناتا ہو یا سنی کے پاس شیعہ عقائد کی اہانت کرتا ہو، اسے شعوری یا غیر شعوری خدا کی نعمت "نِعْمَتَ اللَّهِ (۷)"کا دشمن تصور کرنا چاہئے اور اسکے شر سے اپنے اور سماج کےدامن کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
انہوں نے مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی عملی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ: عام سنی کے پاس کوئی آتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ شیعہ اگر مسلمان ہیں تو وہ امام باڑے کیوں بناتے ہیں جبکہ اسلام میں ایسی کوئی جگہ ہی نہیں ملتی،کیا آنحضرت کے زمانے میں امام باڑہ ہوا کرتا تھا؟ وغیرہ۔۔۔ظاہر سی بات ہے ایسے سوال سے سنی کے ذہن میں شیعہ کے بارے میں منفی سوچ پیدا ہو گی کیونکہ اسے امام باڑے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔اسلئے ایسا سوال عام اہلسنت سے کرنے کے بجائے کسی شیعہ عالم دین سے کیا جائے تاکہ صحیح جواب مل سکے اورغلط فہمی کا بیج بونے نہ دیا جائے۔اسی طرح عام شیعہ سے کہا جائے کہ اہلسنت ابو جہل کو صحابی جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس نے آنحضرت کی زیارت کی وہ صحابی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ سنی کے بارے میں منفی سوچ پیدا ہو گی ۔جبکہ ایسا سوال سنی عالم دین سے کرنا ہے جہاں پر صحیح جواب مل سکے۔
عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے نمایندے نے مزید کہا کہ جملہ پانچ اسلامی مسلکوں(حنفی،شافعی،مالکی،حنبلی اور جعفری) میں کوئی بھی ایک مسلک یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ مسلک کا ہر پیروکار قرآن او رسنت کا سو فیصد پابندہے اسی طرح کسی بھی ایک مسلک کے بارے میں کوئی یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ سو فیصد قرآن اور سنت کے خلاف ہیں۔یعنی قرآن و سنت کی پیروی کے مشترکات موجود ہیں جو کہ ۹۰ فیصد سے زائد ہیں انہیں جاننا اور نکھارنا ہم سب کا فریضہ ہے تاکہ ہم " نِعْمَتَ اللَّهِ (۸)" کے مہمان اور خاصان خدا" الصَّالِحينَ (۹)"کہلائیں گے ،ورنہ مویشیوں کے مانند "كَالْأَنْعامِ (۱۰)" بلکہ اس سے بھی بدتر " بَلْ هُمْ أَضَلُّ(۱۱)" کہلائيں گے۔
آخر پر ہفت روز ہ تقریب کے چیف ایڈیٹر عبد الحسین کشمیری نے کہا کہ ہم سبھی جامع مسجد میں حاضر سنی ،شیعہ نماز گزار اللہ کی بارگاہ سے دست بہ دعا ہیں ہمیں غفلت سے ہمیشہ بیدار رہنے اور اللہ کی رسی کو تھامے رہ کر امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے کا حق ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
اس موقع پر جامعہ مسجد آریگام کے امام جمعہ جناب مولانا سید شمس الدین صاحب نے کہا کہ دور حاضر میں ضروری ہے کہ اختلافی مسائل کو بالائے طاق رکھکر اتحاد بین المسلمین کے پیغام کو عام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان فروعی مسائل میں اس قدر الجھ گیا ہے کہ جو اصلی مسائل ہیں ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی اور یہی وجہ ہے کہ فتنہ و فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔
‘‘انہوں نے کہا کہ ہم نے طریقہ حبّ خدا اور طریقہ رسول خدا( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو ترک کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کس نے کیا لباس پہنا ہے اس پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ کوئی بلند آواز میں درود پڑھتا ہے تو کوئی آہستہ اس پر بھی بحث ہوتی ہے۔ افسوس کہ اس بات پر بحث نہیں ہوتی کہ فلاں جگہ فلاں لڑکی کو زندہ کیوں دفنایا گیا؟ فلاں جگہ فلاں لڑکی کو شادی کے سات دن بعد طلاق کیوں دیا گیا؟ معاشرہ میں بڑھ رہی سماجی واخلاقی گراوٹ پر کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوتا۔’’
مولانا سید شمس الدین نے کہا کہ ایک شیطانی جماعت ہے جن کا کام ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرے۔
‘‘مسلمان اس وقت دنیا کے تما م اقوام کے نشانہ پر ہیں۔ غیر مسلم اور مسلم دشمن قوتیں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس وقت ہمیں چاہئے کہ متحد ہوکر دین اسلام کے حقیقی سپاہی بنکر دین کی حفاظت کریں۔’’
جامعہ مسجد آریگام کے امام جمعہ نے امت مسلمہ خصوصاً علماء کرام سے گذارش کی کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اس حوالے سے اپنا رول ادا کریں۔
انہوں نے کہا : علماء کو چاہئے کہ لوگوں کو سمجھائیں کہ جو اختلاف مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہیں وہ فقط علمی ہیں۔ ہمارا اختلاف اگر ہے تو وہ بے نمازی سے ہے۔ اس سے ہے جو روزہ نہیں رکھتا، جس کی وجہ سے مساجد میں تالیں پڑتے ہیں۔ علماء کرام کو چاہئے کہ اپنے خطبوں میں اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیں اور لوگوں کو اسلام دشمن عناصر کی سازشوں سے باخبر کریں۔
مولانا سید شمس الدین نے کہا کہ ہندوستان کی ہندو تنظیم ‘شیو سینا’ کے سربراہ بال ٹھاکرے نے حال ہی میں اپنی تقریر میں ہندو لوگوں سے کہا کہ تم ان لوگوں سے ڈرتے ہو کہ جن کو ۱۴۰۰ سال گزرنے کے بعد بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے کہ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرنی ہے یا ہاتھ کھول کر۔
‘‘مولانا نے مزید کہا کہ اس میں قصور ہمارا ہی ہے ہم اس قدر فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں کہ ہماری پہچان ہی وہی بنی ہے۔ قیامت کے دن ہم سے نماز کی ادائیگی کے بارے میں سوال ہوگا یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہاتھ باندھ کر پڑھی یا ہاتھ کھول کر۔’’
مولانا سید شمس الدین نے عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے نمایندے حاج عبد الحسین کشمیر ی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اتحاد کے حوالے سے ان کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ‘‘ مسلمانوں کا خدا ایک ہے، نبی ایک ، قرآن ایک، قبلہ ایک تو پھر ایک دوسرے سے یہ دوری کیوں؟’’
انہوں نے مزید کہا کہ : مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے علماء باعمل نہیں ہیں۔ اگر عالم کا قول و فعل ایک ہوتا تو اس کا مقتدی بھی اس کی صحیح معنوں میں پیروی کرتا ۔ جیسا کہ صحابہ کرام( رضوان اللہ علیہم ) نے ہمارے سامنے ایک نمونہ رکھا۔ ان کے قول و فعل میں کوئی تضا د نہیں تھا۔ اگر مسلمان حکمراں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کے طریقہ پر عمل پیرا ہوتے تو مسلمانوں کو کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی۔
انہوں نے مسلمانوں کو اسلام دشمن عناصر سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے پہلے عراق پر حملہ کیا، پھر افغانستان پر حملہ کیا اور اب پاکستان اور ایران کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اتحاد بین المسلمین کے پیغام اور تقریبی جمعوں کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے گذشتہ جمعہ ۱۸ مئی کو حاج عبد الحسین کشمیری نے اپنے رفقاء کے ساتھ ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ (اسلام آباد) کی جامعہ مسجد میں باجماعت جمعہ کی نماز ادا کی اور نماز گزاروں کو عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کے پیغام سے متعارف کیا۔
۔۔۔۔۔۔
منابع:
۱. سورہ بقرہ/۲۹،سورہ الشعراء۱۹۹و سورہ الروم/۳۱
۲. سورہ ابراہیم/۳۲و۳۳،سورہ النحل/۱۳،سورہ حج/۶۵،سورہ لقمان/۲۰،سورہ الجاثیہ/۱۲و ۱۳
۳. سورہ المائدہ/۹۶،سورہ النازعات/۳۳ وسورہ عبس/۳۲
۴. سورہ الذاریات/۵۶
۵. سورہ آل عمران/۱۰۳،سورا بقرہ/۲۳۱،سورہ المائدہ/۱۱،سورہ ابراہیم/۲۸و۳۴،سورہ النحل/۷۲و۸۳ و۸۳،سورہ لقمان/۳۱،سورہ فاطر/۳
۶. سورہ آل عمران/۱۰۳
۷. سورہ آل عمران/۱۰۳
۸. سورہ آل عمران/۱۰۳
۹. سورہ آل عمران/۱۱۴
۱۰. سورہ الاعراف/۱۷۹
۱۱. سورہ فرقان/۴۴