لاہور میں عالمی اسلامی تحریکوں کی کانفرنس اختتام پذیر، مشترکہ فورم، سیکرٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ
تقریب نیوز (تنا): جماعت اسلامی کے زیر اہتمام لاہور میں دو روز انٹرنیشنل کانفرنس آف مسلم لیڈرز مشترکہ اعلامیے کے اجرا کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ کانفرنس میں اردن، سوڈان، مراکش، ملائشیا، تاجکستان، ترکی، صومالیہ، فلسطین، موریطانیہ، تیونس، الجزائر، سری لنکا، نیپال، یمن، انڈونیشیا، پاکستان اور کشمیر کی اسلامی تحریکوں کے رہنماﺅں نے شرکت کی۔ مشترکہ اعلامیے میں عالمی اسلامی تحریکوں کے رہنماﺅں نے اعلان کیا ہے کہ تمام تر مظالم اور سازشوں کے باوجود اسلامی تحریکات اپنی پرامن جدوجہد جاری رکھیں گی اور وہ مصر، شام، بنگلہ دیش، فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر اور اراکان سمیت ہر خطے کے مظلوم انسانوں کے ساتھ کھڑی ہیں اور ان تمام خطوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف ہر ممکن سیاسی، سفارتی، قانونی اور اخلاقی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
مشترکہ سیکرٹریٹ:
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے تمام مظلوم انسانوں کے لیے اعلیٰ ماہرین قانون کا ایک عالمی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے گا اور مسلم ممالک میں جاری مظالم کو بے نقاب کرنے کے لیے مشترک عالمی سفارتی جدوجہد کی جائے گی ۔ عالمی اسلامی تحریکات کے مابین کوآرڈی نیشن، تبادلہ معلومات اور بھر پور تعاون کی خاطر اس کانفرنس کو ایک مستقل فورم کی حیثیت دیتے ہوئے عالمی سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا اور اس میں مزید اسلامی تحریکات اور عالمی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی جائے گی ۔ اس کی مزید تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔
حجاب اسلامی:
اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ امت کی خواتین کے لیے تعلیم، حیا، حجاب، اسلامی تعلیمات ان کے اصل سرمایہ حیات ہیں ۔ مسلم خاندان اور مسلم خواتین کے خلاف جانبدارانہ اور امتیازی اقدامات کے سدباب کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی ۔ امت کے نوجوانوں کو تباہ کن تہذیبی یلغار اور بے خدا تعلیمی نظام کی خرابیوں سے بچانے کے لیے مشترک عملی اقدامات کیے جائیں گے اور اختلافات کی خلیج کو ختم کر نے کی بھر پور جدوجہد کی جائے گی ۔
متفہ موقف:
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عالمی بین الاقوامی کانفرنس اُمت مسلمہ اور انسانیت کو درپیش سنگین بحرانوں کا جائزہ لینے، ان کے بارے میں ایک متفق علیہ موقف اختیار کرنے اور اُمت مسلمہ کے لیے عملی نقشہ کار تجویز کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے۔ اس کانفرنس میں تقریباً 20 ممالک سے 40 سے زائد رہنماﺅں نے شرکت کی۔
مصر میں فوجی انقلاب:
عالمی کانفرنس نے بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے مصری عوام کے جمہوری فیصلوں پر ڈاکہ زنی کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی سال کے بعد صہیونی اور عالمی آقاﺅں کی سرپرستی میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ہزاروں بے گناہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر وہ مظالم ڈھائے گئے کہ انسانیت اپنی پوری تاریخ کے سامنے شرمندہ ہو کر رہ گئی ۔ صد آفرین کہ ان تمام غیر انسانی ہتھکنڈوں کے باوجود، اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مصری قوم نے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔
شام:
شام میں جاری قیامت صغریٰ بھی دنیا کے ہر زندہ ضمیر انسان کی نیندیں حرام کررہی ہے۔ ظلم و جبر کے ذریعے کئی عشروں سے شامی قوم پر مسلط ایک ڈکٹیٹر نے صرف اپنے اقتدار کی خاطر پورے ملک کو تباہ اور پوری قوم کو ذبح کر کے رکھ دیا ہے۔ شام کھنڈرات میں تبدیل ہو رہا ہے اور لاکھوں عوام پڑوسی ممالک کے مہاجر کیمپوں میں سسک سسک کر جینے پر مجبور ہیں۔
بنگلہ دیش:
اُمت اسلامیہ کے اس نمائندہ اجلاس نے بنگلہ دیش میں جاری ریاستی مظالم پر بھی شدید رنج و غم کا اظہار کیا ۔ نام نہاد ٹربیونل کے ذریعے حکومت اپنے تمام مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ پھانسی ،عمر قید اور 90، 90 سال کی سزا سنائی جارہی ہے ۔ 91 سالہ پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی اور فضل قادر چوہدری سمیت لاکھوں بے گناہ اس ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ آئندہ انتخابات میں چند ہفتے رہ گئے ہیں اور حکومت ملک کو ایک پولیس سٹیٹ بناتے ہوئے ان میں بھی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات اور ہر انصاف پسند انسان حکومت بنگلہ دیش سے پُر زور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ظلم وبربریت کی سیاست بند کرے۔ تمام سیاسی اسیروں کو رہا کرے ۔
ہندوستان زیر انتظام کشمیر کی آزادی:
یہ اجلاس گزشتہ 66سال سے مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم وبربریت کی بھی شدید مذمت کرتا ہے، کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت اور استعماری سے آزادی کی خاطر مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے کئی قراردادوں کے ذریعے ان کے اس حق کا اعتراف کیا ہے۔ یہ اجلاس اپنے کشمیری بھائیوں سے مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ ساڑھے چھ لاکھ بھارتی فوجیوں کے ذریعے توڑے جانے والے مظالم اور قائد حریت سید علی گیلانی کی مسلسل نظربندی کا نوٹس لیتے ہوئے کشمیری عوام کو ان کے حقوق دلوائے ۔
میانمار:
اراکان (میانمار) کے بے نوا مسلمانوں کو بھی عالم اسلام اور عالمی برادری کی طرف سے لفظی مذمت کے سوا کچھ نہیں ملا، لاکھوں بے گناہ انسانوں سے صرف جرم اسلام کی وجہ سے حق زندگی چھینا جارہا ہے۔ پڑوس میں واقع مسلمان ملک بنگلہ دیش بھی اراکان کے لاکھوں مظلوم انسانوں کی مدد کرنے کے بجائے ظالم کا ساتھ دے رہا ہے۔ اراکان کی خود مدد کرنا تو کجا، عالمی امدادی تنظیموں کے سامنے بھی تمام راستے مسدود کردیے ہیں ۔ یہ اجلاس عالم اسلام، حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتاہے کہ اراکان میں انسانیت کو مسلم دشمنی کی آگ کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔
غزہ کا محاصرہ:
سرزمین اقصیٰ بھی بدستور نوحہ کناں ہے ۔ کئی سال سے غزہ میں اٹھارہ لاکھ انسانوں کا محاصرہ جاری ہے ۔ یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری ایک ناجائز صہیونی ریاست کی پشتیبانی کرتے رہنے کی بجائے عدل و انصاف کا ساتھ دے اور فلسطینیوں کے قتل ناحق کا سدباب کیا کرے۔ یہ اجلاس افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے اور پاکستان، یمن، صومالیہ اور دیگر ممالک پر جاری امریکی ڈرون حملوں کی مذمت اور انہیں ان ممالک کی خود مختاری پر سنگین حملہ قرار دیتا ہے ۔ امریکی استعمار کو افغانستان اور عراق سے فوراً اور مکمل طور پر نکل جانا چاہیے۔
عبادت گاہوں پر حملے:
عالمی اسلامی تحریکات، عبادت گاہوں اور بے گناہ شہریوں پر ہونے والے حملوں کی بھی شدید مذمت کرتی ہیں۔ ایک سچا مسلمان نہ ظلم برداشت کرتا ہے اور نہ خود کسی پر ظلم ڈھا سکتا ہے۔ ان سازشوں کے پیچھے اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔