دنیا بھر کی طرح سعودی عرب میں بھی کرونا وائرس کی وجہ سے نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں سرکاری میڈیا پر جاری اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس کے شکار مریضوں کی تعداد 12 ہزار کے قریب ہے، جن میں سے اسّی فیصد مریض غیر مُلکی بتائے جاتے ہیں۔ سعودیہ میں اس وقت حرم بیت اللہ شریف گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے مکمل طور پر بند ہے اور بیت اللہ شریف میں باہر سے کسی فرد کو نماز کیلئے جانے کی قطعی طور پر اجازت نہیں۔ اس وقت مکہ المکرمہ کا کنٹرول مکمل طور پر سعودی فوج نے سنبھال لیا ہے، جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو رہی ہیں۔ اسی طرح مدینہ شریف میں روضہ نبی آخر الزمان (ص) بھی گذشتہ ایک ماہ سے نماز کی ادائیگی کیلئے مکمل طور پر بند ہے. اس وقت صرف اشیائے خوردنوش کی خریداری کیلئے مملکت بھر میں بقالے(دوکانوں) کو صرف دوپہر تین بجے تک کھولنے کی اجازت ہے، دوپہر تین بجے سے لیکر صبح چھے بجے تک مملکت میں مکمل طور پر کرفیو نافذ اور کسی قسم کی خلاف وزری کی صورت میں دس ہزار ریال سعودی جرمانہ ہے۔
شاہی حکومت کی جانب سے کرونا کے علاج کیلئے سہولیات بھی بہتر انداز میں مہیا کی جا رہی ہیں، جن کے مطابق کرونا کے علاج کیلئے کسی قسم کے کاغذات کی ضرورت نہیں، یعنی مملکت میں مقیم غیر مُلکیوں کا بھی سعودی شہریوں اور قانونی طور مقیم افراد کی طرح بالکل مفت علاج کیا جائے گا۔ مملکت میں کاروباری صنعت بند ہونے کی وجہ سے جہاں لاکھوں افراد کا روزگار خطرے میں نظر آتا ہے، وہیں وہ تمام لوگ جن کی نوکریاں کرونا سے پہلے کسی نہ کسی وجہ سے ختم ہوکر رہ گئی ہیں اور وہ متعلقہ کمپینوں کی جانب ادائیگیوں میں تاخیر کی وجہ سے بین الاقوامی فلائٹ بند ہونے کی وجہ سے پھنس کر رہ گئے ہیں، اُنکا کوئی پرسان حال نہیں۔ سعودی عرب میں چونکہ میڈیا کی آزادی نہیں، لہذا سعودی میڈیا فقط سرکاری بیانیہ ہی نشر کرتا ہے، جبکہ سعودیہ میں اردو زبان کا اخبار (اردو نیوز) بھی پاکستانی حکومت کو میڈیا کے ذریعے اصل صورتحال سے اگاہ کرنے میں دیگر عربی اخبارات کی طرح بے بس ہے۔ یوں اس وقت صرف سوشل میڈیا واحد ذریعہ ابلاغ ہے، جس کے ذریعے یہاں پھنسے لاکھوں افراد اپنے مسائل حکومت پاکستان یا ریاض میں موجود پاکستانی سفارتخانہ یا کونصلیٹ تک پہنچانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت 15 لاکھ سے زائد پاکستانی پروفشلنز اور مزدور مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن کرونا وائرس کے بعد لاک ڈاون اور کرفیو کے دوران پاکستانی سفارت خانہ اور قونصلیٹ کسی بھی طرح متاثرین کی امداد کرنے سے قاصر ہیں۔ گذشتہ ہفتے ریاض میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے لاک ڈاون اور کرفیو کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے افراد میں راشن کی تقسیم کا اعلان کیا، لیکن دوسرے ہی دن کرفیو کا بہانا بنا کر راشن کی تقسیم کا عمل بھی روک دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سعودی عرب میں موجود پاکستانی سفارتخانہ کس قدر اثر و رسوخ رکھتا ہے، حالانکہ شاہی فرمان کے مطابق کرفیو کے دوران بھی وزارت داخلہ سے (تصریح) کرفیو پاس بنوا کر نقل حمل کرسکتے ہیں۔
سعودی عرب کے شہر ریاض، جدہ، دمام اور مدینہ شریف وہ شہر ہیں، جہاں پاکستانی دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ مقیم ہیں، جو لاک ڈاون اور کرفیو کی وجہ سے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ مملکت میں زیادہ تر پاکستانی تعمیراتی صعنت سے وابسطہ آزاد ویزے پر کام کرتے ہیں(آزاد ویزے کا مطلب کفیل کی اجازت سے اپنی مرضی کا کام کرکے کفیل کو ماہانہ ادائیگی ہے)۔ یہ کام سرکاری سطح پر غیر قانونی ہے، لیکن اس کام سے جہاں غیر مُلکی کماتے ہیں، وہیں سعودی شہری بھی غیر مُلکیوں سے کم از کم 500 ریال فی کس ماہانہ وصول کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت لاک ڈاون اور کرفیو کی وجہ سے جہاں کاروبار مکمل طور پر بند ہونے سے لوگ مسلسل بیروزگار ہو رہے ہیں، وہیں روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کا کام بھی ٹھپ ہوگیا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب میں زیادہ تر افراد بچت کیلئے ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں، لیکن اس وقت سعودی میڈیا کے مطابق محکمہ صحت اہلکاروں کی جانب سے مختلف لوگوں کے ڈیروں پر اچانک چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع ہے اور محکمہ صحت کے اہلکار غیر ملکیوں کو ایک کمرے میں صرف دو افراد کی اجازت دیتے ہیں، لیکن متبادل جگہ بھی فراہم نہیں کر رہے۔ اس وجہ سے جہاں بیرزگاری سے لوگ تنگ ہیں، وہیں اس وقت رہنے کی جگہ نہ ملنا بھی سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ سعودیہ میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی بیروزگار ہوچُکے ہیں، کئی کمپینوں نے گذشتہ چھ ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی بھی نہیں کی اور ملازمین کو کم از کم تین ماہ کمروں میں بیٹھنے یا واپس جانے کو کہا جا رہا ہے۔ خوش قسمی سے یہ ایک خبر پاکستانی میڈیا پر بھی چل چُکی ہے، لیکن ان تمام معاملات میں پاکستانی سفارت خانہ اور قونصلیٹ مکمل طور پر غافل نظر آتے ہیں۔
فارن آفس پاکستان کی ویب سائٹ پر سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے جن افراد کے موبائل درج ہیں، وہ ملازمین فون اُٹھاتے ہی نہیں۔ اس حوالے سے سعودیہ میں متحرک پاکستان کے کئی بڑے فیس بُک اور واٹس ایپ گروپس میں لوگ شدید احتجاج بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ مملکت میں پھنسے افراد مُلک میں نافذ سخت قانون کی وجہ سے نہ ہی روڈ پر نکل سکتے ہیں اور نہ کمپنیوں کے سامنے احتجاج کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین سوشل میڈیا پر ہی متحرک نظر آتے ہیں اور متاثرین سوشل میڈیا کی وساطت سے پاکستانی سفارت خانے سے مسلسل مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن سفارتخانہ کسی قسم کا تعاون کرنے سے قاصر ہے۔ ریاض میں پاکستانی سفارتخانے کے آفیشل فیس بُک پیج پر پاکستانیوں کی جانب سے سفارت خانے سے خصوصی فلائٹ چلانے اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے سعودی حکومت سے بات کرنے جیسے مطالبات اور سفارتخانے کی جانب سے مکمل خاموشی نے پاکستانی شہریوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی، تمام خلیجی ممالک اور یورپ و امریکہ سے زیادہ زرد مبادلہ کماتے اور پاکستان ارسال کرتے ہیں، لیکن اس وقت دیار غیر پھنسے ہوئے افراد کا کوئی والی و وارث نہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے لیکر پاکستانی سفارت خانہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری فقط ٹوئٹ کے ذریعے مسائل پر بات کرتے نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ وقت میڈیا پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عملی اقدمات اُٹھاتے ہوئے دیگر ممالک کی طرح اپنے شہریوں کو ریسکو کرنے کا تھا۔ تازہ ترین میڈیا خبروں کے مطابق معاون خصوصی برائے اوورسیز زلفی بخاری نے سعودی وزیر افرادی قوت عبداللہ بن نصیر سے ویڈیو لنک پر رابطہ کیا ہے، جس میں پاکستانی مزدور اور لیبر کمیونٹی کو درپیش مسائل اور ممکنہ حل پر مشاورت کی گئی ہے، جس کے تحت زلفی بخاری نے پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لئے خصوصی اقدامات کی بھی درخواست کی، جس پر سعودی عرب نے یقین دلایا ہے کہ سعودی عرب پاکستانیوں کے انٹری اور ایگزٹ ویزے کی مدت بڑھائے گا اور دسمبر تک پاکستانی مزدوروں کیلئے ویزے کی توسیع بالکل مفت ہوگی۔ اس کے علاوہ سعودی حکومت نے 3 ماہ تک کمپنیوں کو پاکستانی محنت کشوں کی برطرفی سے روکنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
مگر حقیقت کی دنیا کچھ اور ہے، جس کے بارے میں صرف یہاں پر کام کرنے والے ہی جانتے ہیں، کیونکہ کئی ہزار ایسے افراد ہیں، جن کی نوکریاں دسمبر میں ختم ہوگئیں، لیکن سعودی عرب کی کمپینوں کی جانب سے بروقت ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آج وہ سب صرف سعودی کمپینوں کی کوتاہیوں کے سبب مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ دوسری بات پاکستان کے نوے فیصد لوگ کفالت سسٹم کے تحت اپنا کام کرتے ہیں، جس سے سعودی شہری بھی پلتے ہیں۔ پچھلے تین ماہ سے لاکھوں لوگوں کا کام مکمل طور پر ٹھپ ہوگیا ہے، اب وہ لوگ جن سے سعودی شہری وصولی کرتے تھے، اُن کی کس طرح سے فنانشل امداد کی جائے گی۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ لہذا حکومت کو چاہیئے کہ اس طرح فقط میڈیا پر باتیں کرنے کی بجائے سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے کو متحرک کرے اور وہ تمام لوگ جنکی نوکریاں دسمبر سے ختم ہوچکی ہیں اور وہ سعودی کمپنیوں کی جانب سے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے پھنس گئے ہیں، اُن کی ادائیگی کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔ حکومتی سطح پر شاہی حکومت سے بات چیت کرکے روزانہ کی بنیاد پر فلائٹ چلائی جائیں، کیونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ موجودہ صورتحال میں لوگ یہاں سے کسی بھی صورت میں نکلنا چاہتے ہیں۔