اس قرارداد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مرتب کرکے پیش کیا ہے۔ حالانکہ یہ تین ممالک ہی دراصل مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نجات دھندہ تصور کئے جارہے تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقتدر حلقے بشمول رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مشترکہ جامع ایکشن پلان کی ابتدا ہی سے اس پر شدید خدشات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں
بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے جمعہ کے دن اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک قرارداد پاس کی ہے جس کی حمایت میں ۲۵ مخالفت میں ۲ ووٹ دالے گئے ہیں جبکہ ۷ ووٹ ضائع ہوئے ہیں۔
ایران کی مخالفت میں پیش کی جانے والی قرارداد کی آسٹریلیا، بیلجیئم، برازیل، کینیڈا، ایکواڈور، مصر، اسٹونیا، فرانس، جرمنی، گھانا، یونان، ہنگری، اٹلی، کویت، جاپان، مراکش، نائیجیریا، ناروے، پانامہ، سعودی عرب، سوئیڈن، برطانیہ، امریکہ، یوروگوئے اور ارجنٹائین نے حمایت کی ہے جبکہ چین اور روس نے اسکی مخالفت کی ہے اور آذربائیجان، بھارت، منگولیا، نائیجر، پاکستان اور جنوبی افریقہ کے ووٹ باطل قرار پائے ہیں۔
یہ قرارداد اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کو اپنے ایٹمی پلانٹس تک دسترسی نے دینے کے بہانے پیش کی گئی تھی۔
بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی میں ایران کے مستقبل مندوب اور نمائندے کاظم غریب زادہ نے اس قرارداد پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اپنے دشمنوں کے پے در پے بے بنیاد دعووں کے برخلاف ایٹمی ایجنسی کے نمائندوں کو اپنے ایٹمی مراکز کا معائنہ نہیں کرنے دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے گذشتہ ایک سال کے دوران ۴۳۲ مرتبہ معائنہ کاروں کو اپنے ایٹمی کراکز کا دورہ کروایا ہے جو پوری دنیا میں موجود ایٹمی راکز کے دورہ جات کا بیس فیصد ہے۔ اسی سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ۳۳ مرتبہ مکمل دسترسی فراہم کی ہے کو پوری دنیا میں اس ایجنسی کے معائنہ کاروں کی دسترسی کا ۷۳ فیصد حصہ بنتا ہے اور اب یہ اس ایجنسی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران کے تعاون کے مدمقابل شفاف عملی اقدامات انجام دے۔
اس سلسلے میں فرانس نے اپنا موقف جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران پر دبائو بڑھانے کے لئے اپنے اتحادیوں کا ساتھ دے گا۔
فرانسیسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کے لئے وہ اپنے اتحادیوں برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایران پر دبائو بڑھائے گا۔
ترجمان نے اس مسئلے پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ قرارداد بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے اقتدار کی حفاظت کے لئے نہایت ضروری ہے۔
اس قرارداد پر اپنا ردعمل دکھاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنی ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ امریکی اور صیہونی حکام نے گذشتہ دو تین سالوں کے دوران ایران اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے مابین ہونے والے معاہدے کو نابود کرنے کے اس سیجنسی پر شدید دبائو ڈالا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے اور روس، چین اور چند دیگر ممالک کے اہداف واضح اور یکساں ہیں۔
ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر محمد قالیباف نے بھی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی جانب سے ایران مخالف قرارداد پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے گزشتہ چند دنوں میں ایرانی عوام کے خلاف اپنی اصلیت، دشمنی اور اپنے ناپاک عزائم کا ایک بار پھر ثبوت پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف بغض و کینہ میں یورپی ممالک امریکہ سے پیچھے نہیں ہیں، کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی جانب سے ایران کے خلاف سیاسی قرارداد صیہونیوں کی بچہ گانہ سوچ اور منصوبہ ہے۔بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کو امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے خلاف سازش اور خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔
اس قرارداد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے مرتب کرکے پیش کیا ہے۔ حالانکہ یہ تین ممالک ہی دراصل مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نجات دھندہ تصور کئے جارہے تھے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے مقتدر حلقے بشمول رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مشترکہ جامع ایکشن پلان کی ابتدا ہی سے اس پر شدید خدشات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔
۱۷ ستمبر ۲۰۱۹ کو اپنے ایک خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی حکام سے کسی بھی سطح پر مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہاسلامی جمہوریہ ایران دھوکے میں نہیں آئے گا کیونکہ ہمارا راستہ واضح ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے۔آپ نے فرمایا کہ امریکہ منصفانہ راہ حل کے لیے مذاکرت نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کا مقصد اپنے ناجائز مطالبات ایران پر مسلط کرنا ہے۔ میں اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات کا امریکی مقصد اپنے مطالبات مسلط کرنا ہے، لیکن امریکی حکام اس قدر گستاخ ہوگئے ہیں کہ اپنی زبان سے بھی یہ بات دوہرا رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے واضح کیا کہ اس قسم کے مذاکرات کے لیے انہیں (امریکیوں کو) ان لوگوں سے رجوع کرنا چاہیے جو ان کے لیے دودھ دینے والی گائے بنے ہوئے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران، مومنین کی جمہوریت، مسلمین کی جمہوریت اور عزت و سربلندی کی جمہوریت ہے۔مذاکرات کے لیے امریکیوں کے اصرار اور یورپ والوں کو وساطت کے لیے استعمال کرنے کی ایک وجہ یہی یعنی دباؤ کی پالیسی کو کارگر ثابت کرنا ہے۔ یورپ والوں کے بارے میں پھر کسی اور وقت بات کروں گا لیکن ان کا اس بات پر اصرار کہ امریکی صدر کے ساتھ ایک میٹنگ کرلی جائے تو آپ کی تمام مشکلات حل ہوجائیں گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کامیاب ہے۔اگر امریکہ اپنا بیان واپس لے لے، توبہ کرلے اور ایٹمی معاہدے میں، جس کی اس نے خلاف ورزی کی ہے، واپس آجائے، اس وقت یہ ممکن ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے دیگر رکن ملکوں کے ہمراہ ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوجائے بصورت دیگر، اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکی عہدیداروں کے درمیان کسی بھی سطح پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، نہ نیویارک میں نہ کہیں اور۔
ادھر اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے احوال پر مشتمل اپنی کتاب "نیشنل سیکیورٹی اور اٹامک ڈپلومیسی" میں اس مسئلے کی جانب ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہماری مشکل یہ تھی کہ جب بھی مذاکرات میں کوئی پیشرفت ہوتی تو یورپی ممالک امریکی گرین سگنل کے بغیر کوئی بھی اہم کام انجام نہیں دے پاتے تھے۔ حتیٰ یورپ کی بڑی تجارتی ، اقتصادی کمپنیاں بھی امریکی رضایت کے بغیر ایران سے تعاون کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ یورپی ممالک کے نمائندے ہمیں اس مسئلے پر وضاحت دیتے ہوءے کہتے تھے کہ ہماری تجاری کمپنیاں آزاد ہیں لیکن چونکہ یہ کمپنیاں امریکہ سے بڑے پیمانے پر لین دین انجام دیتی ہیں اس لئے موجودہ شرائط میں امریکی اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ یہ کمپنیاں ایران کے ساتھ بھی تجارتی سرگرمیاں انجام دیں۔
بہرحال ان چند سالوں کے دوران جو کچھ بھی ہوا ہو ایک بات تاریخ پر سیاہ رنگ سے ثبت و ضبط ہوچکی ہے کہ دشمن پر اعتبار کرنا اور اس کی باتوں پر اعتماد کرنے سے اسلامی ممالک کو کبھی کوئی نفع نہیں پہنچا بلکہ مسلمانوں کو ہمیشہ اس کا نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ یورپ نے نہ تو ماضی میں کبھی اپنے وعدے پورے کئے ہیں نہ اب کررہا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس سے کوئی امید رکھنی چاہئے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے یورپی ممالک کی بد عہدی کے مدمقابل اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنے بھرپور رد عمل کا مظاہرہ کرے۔ لیکن بعض تجزئیہ کاروں کی نظر کے برخلاف کہ ایران کو معاہدے کی دسویں شق "اگر معاہدے کے طرفین میں کوئی ایک اس بات کا احسا کرتا ہے کہ پیش نظر حادثات و واقعات کی وجہ سے اس ملک کے مفادات کو خطرات لاحق ہیں تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی حاکمیت کی خاطر اس معاہدے سے باہر نکل سکتا ہے" پر عملدرآمد کرنا چاہئے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ اس معاہدے پر اب اپنی توانائی صرف کرنے اور توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اسلامی جمہوریہ ایران کو چاہئے کہ وہ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھنے کے لئے متبادل راستے تلاش کرے اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے نوجوانوں پر انحصار میں اضافہ کرے تاکہ خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔
یوشع ظفر حیاتی