قوموں کی زندگی میں قومی دن اپنے پس منظر کو اجاگر کرنے، ان کی اہمیت کو واضح کرنے اور نئی نسل کو ماضی کے اہم سنگ ہائے میل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے نہایت مفید ہوتے ہیں۔ گاہے ایسے ایام تہواروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ میلوں ٹھیلوں کی طرح منائے جاتے ہیں۔ ان کا پس منظر اوجھل ہوجاتا ہے یا انھیں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں رہتی۔ ایسے رویوں کا تعلق قوموں کی مجموعی اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال سے بہت گہرا ہوتا ہے۔ ان میں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے مقاصد کیا ہیں، قوم کے ماضی و مستقبل سے ان کا نظریاتی تعلق کتنا اور کیسا ہے کیونکہ نظریاتی تعلق ہی عملی تعلق کی بنیاد بنتا ہے۔
پاکستان کا یوم آزادی مناتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں کہ برصغیر کے مسلمان قائدین نے مسلمانوں نے کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا۔ ہمارے مطالعے کے مطابق مسلمانوں کے لیے ہندوستان میں الگ ریاست کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات تھیں:
(1) ہندو جو برصغیر میں اکثریت میں تھے، ایک طویل عرصہ مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے تھے۔ انھوں نے بعدازاں انگریزوں کی قربت حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بھی حکومت چونکہ مسلمانوں سے لی تھی اس لیے زیادہ ردعمل کی توقع بھی ان کی طرف سے تھی۔ کئی صدیاں اس سرزمین پر مسلمانوں کی حکومت رہی تھی۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی قربت اس پس منظر میں قابل فہم ہے۔
(2)مسلمانوں کو حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ مجموعی طور پر وسائل زندگی کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کردیا گیا تھا۔
(3) کئی بڑے بڑے معرکے ہندوستان میں مسلمانوں ہی نے انگریزوں کے خلاف لڑے تھے، خاص طور پر 1857ء کی جنگ آزادی تو برپا ہی مسلمانوں نے کی تھی۔
(4) مغرب سے آنے والا جمہوریت کا تصور ہندو کو خوب بھاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی تصور جمہوریت کی مدد سے برصغیر پر وہ اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے زیر اقتدار رکھ سکتے ہیں۔
(5)مسلمان بھی برصغیر میں کوئی معمولی اقلیت نہ تھے۔ اپنی ماضی کی تاریخ کے زیراثر وہ اقلیت کا کردار قبول کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں، جس میں اس وقت موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے، تقریباً 40فیصد مسلمان آباد تھے۔ بعض صوبوں میں انھیں اکثریت بھی حاصل تھی۔
(6) مسلمان محسوس کرتے تھے کہ انھیں معاشی اور سماجی طور پر جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔
(7) مسلمانوں کا یہ بھی احساس تھا، جو ہندوستان کے طول وعرض میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں درست بھی تھا کہ ہندو اپنی اجتماعی اکثریت اور مذہبی تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور انھیں بہت سے مقامات پر آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
(8) مسلمانوں کے ممتاز راہنماؤں جن میں قائداعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں نے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے اتحاد اور مسلم ہندو یگانگت پر زور دیا اور ہندوستان کی وحدت کی بقا کے لیے آواز اٹھائی لیکن مسلسل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوؤں کی قیادت مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل میں کانگریس نے وہاں بھی مسلمانوں کو محروم رکھنے کے لیے سو طرح کے جتن کیے۔
اس ساری صورت حال سے گزرنے کے بعد مسلمان راہنماؤں نے آخر کار الگ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز ایک آزاد خود مختار ریاست کا تصور اختیار کرتے کرتے مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ اس سے پہلے اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی داخلی خود مختاری کی تجویز بھی زیر غور رہی ہے۔ تاہم جب 23مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظورہوئی تو برصغیر کے ہرمسلمان نے اسے اپنے دل کی آواز سمجھا ۔ اسی آواز نے 14اگست 1947 کو پاکستان کا روپ اختیار کر لیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یوم آزادی مناتے ہوئے تشکیل پاکستان کی وجوہات پر غوروفکر کرتے رہیں۔ اصولی طور پر وطنی ریاستوں کا تصور انسانی وحدت کے تصور سے بہت فاصلے پر ہے۔ کرہ ارض پر انسان جب مل جل کر رہنے پر تیار ہو گئے، انھوں نے اختلافات کے ساتھ ایک دوسرے کوبرداشت کرکے جینے کا سلیقہ سیکھ لیا اور آزادی کی حدودوقیود کی پابندیوں کو خوشدلی سے اختیار کر لیا اور مختلف ثقافتوں، افکار، رواجات، تاریخی ورثے اور تجربات کے اختلاف کے اندر چھپے ہوئے انسانی مزاج کی افتاد کے اختلاف کا حُسن تلاش کر لیا تو پھر الگ الگ وطنی ریاستوں کے وجود پر انسان اندر سے شرمسار ہونا شروع ہوگا۔ البتہ اس کے لیے سب انسانوں کو ایک اللہ کی مخلوق ماننا ضروری ہوگا تاکہ ہر انسان کی نظرمیں دوسرے انسان پر بھی عیال اللہ کا مصداق قرار پائیں۔
نیز اس کے لیے دل کے اندر اس ایمان کا چراغ روشن کرنا ہوگا کہ ہمارا اور اس ساری کائنات کا مالک ایک ہی مہربان خدا ہے جس نے یہ زمین بھی پیدا کی ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے ہم اللہ کے بندے ہیں اور سارے انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں۔انسانوں کی ایک دوسرے سے علیحدگی اور جدائی اس پس منظرمیں فطری دکھائی نہیں دیتی لیکن جب ایک انسان اپنی انسانی حیثیت کے خلاف دوسرے انسانوں کے تجاوز کا تماشا دیکھتاہے تو اس کے لیے علیحدگی کی خواہش کے علاوہ گاہے کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
یہی خواہش تشکیل پاکستان کی بنیاد ہے،: آئیے غورکر لیتے ہیں کہ کیا آج کے پاکستان میں ہم کسی علاقے کے رہنے والوں،کسی مذہب کے ماننے والوں یا کوئی اور الگ بنیاد رکھنے والوں کے خلاف وہی حالات تو پیدا نہیں کررہے کہ جو علیحدگی کی خواہش کو پروان چڑھاتے ہیں۔ کیا ہم فطرت کے رشتوں کو توڑ کر دوسرے فطری ردعمل کی طرف کسی گروہ کو دھکیل تو نہیں رہے۔آج پاکستان کا یوم آزادی ہمیں اس سوال پر بھی غورکرنے کا موقع دیتا ہے۔یہ موقع عوام کے لیے بھی ہے اور حکمرانوں کے لیے بھی۔
حکمرانوں سے تو لوگ باتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ انھیں تو عام طور پر اپنے چند روزہ وقتی اقتدار سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے روزوشب اسی اقتدار کے استحکام اوراس سے متمتع ہونے کے لیے مختلف طریقے سوچنے میں گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہ ایسے میں عوام اس سوال پر غور کرلیں کیونکہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دو راستے ہیں ایک صحیح قیادت کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دینا اور دوسرا علیحدگی کی جدوجہد کرنا۔ علیحدگی سے پھر اگر ایسے ہی حکمران برسراقتدار آگئے تو پھر کیا ہوگا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
آئیے انسانوں کو مزید تقسیم سے بچانے کے لیے حکمرانوں کی اصلاح کا نسبتاً آسان اور بہتر راستہ اختیار کریں۔ موجودہ قیادت اگر ان مقاصد کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تو ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو ان مقاصد سے زیادہ ہم آھنگ دکھائی دے۔
تحریر: ثاقب اکبر
پاکستان کا یوم آزادی مناتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں کہ برصغیر کے مسلمان قائدین نے مسلمانوں نے کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیوں کیا۔ ہمارے مطالعے کے مطابق مسلمانوں کے لیے ہندوستان میں الگ ریاست کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات تھیں:
(1) ہندو جو برصغیر میں اکثریت میں تھے، ایک طویل عرصہ مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے تھے۔ انھوں نے بعدازاں انگریزوں کی قربت حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بھی حکومت چونکہ مسلمانوں سے لی تھی اس لیے زیادہ ردعمل کی توقع بھی ان کی طرف سے تھی۔ کئی صدیاں اس سرزمین پر مسلمانوں کی حکومت رہی تھی۔ انگریزوں اور ہندوؤں کی قربت اس پس منظر میں قابل فہم ہے۔
(2)مسلمانوں کو حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ مجموعی طور پر وسائل زندگی کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کردیا گیا تھا۔
(3) کئی بڑے بڑے معرکے ہندوستان میں مسلمانوں ہی نے انگریزوں کے خلاف لڑے تھے، خاص طور پر 1857ء کی جنگ آزادی تو برپا ہی مسلمانوں نے کی تھی۔
(4) مغرب سے آنے والا جمہوریت کا تصور ہندو کو خوب بھاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی تصور جمہوریت کی مدد سے برصغیر پر وہ اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے زیر اقتدار رکھ سکتے ہیں۔
(5)مسلمان بھی برصغیر میں کوئی معمولی اقلیت نہ تھے۔ اپنی ماضی کی تاریخ کے زیراثر وہ اقلیت کا کردار قبول کرنے کو بھی تیار نہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں، جس میں اس وقت موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے، تقریباً 40فیصد مسلمان آباد تھے۔ بعض صوبوں میں انھیں اکثریت بھی حاصل تھی۔
(6) مسلمان محسوس کرتے تھے کہ انھیں معاشی اور سماجی طور پر جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے۔
(7) مسلمانوں کا یہ بھی احساس تھا، جو ہندوستان کے طول وعرض میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں درست بھی تھا کہ ہندو اپنی اجتماعی اکثریت اور مذہبی تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور انھیں بہت سے مقامات پر آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔
(8) مسلمانوں کے ممتاز راہنماؤں جن میں قائداعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں نے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے اتحاد اور مسلم ہندو یگانگت پر زور دیا اور ہندوستان کی وحدت کی بقا کے لیے آواز اٹھائی لیکن مسلسل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوؤں کی قیادت مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل میں کانگریس نے وہاں بھی مسلمانوں کو محروم رکھنے کے لیے سو طرح کے جتن کیے۔
اس ساری صورت حال سے گزرنے کے بعد مسلمان راہنماؤں نے آخر کار الگ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز ایک آزاد خود مختار ریاست کا تصور اختیار کرتے کرتے مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ اس سے پہلے اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی داخلی خود مختاری کی تجویز بھی زیر غور رہی ہے۔ تاہم جب 23مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظورہوئی تو برصغیر کے ہرمسلمان نے اسے اپنے دل کی آواز سمجھا ۔ اسی آواز نے 14اگست 1947 کو پاکستان کا روپ اختیار کر لیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یوم آزادی مناتے ہوئے تشکیل پاکستان کی وجوہات پر غوروفکر کرتے رہیں۔ اصولی طور پر وطنی ریاستوں کا تصور انسانی وحدت کے تصور سے بہت فاصلے پر ہے۔ کرہ ارض پر انسان جب مل جل کر رہنے پر تیار ہو گئے، انھوں نے اختلافات کے ساتھ ایک دوسرے کوبرداشت کرکے جینے کا سلیقہ سیکھ لیا اور آزادی کی حدودوقیود کی پابندیوں کو خوشدلی سے اختیار کر لیا اور مختلف ثقافتوں، افکار، رواجات، تاریخی ورثے اور تجربات کے اختلاف کے اندر چھپے ہوئے انسانی مزاج کی افتاد کے اختلاف کا حُسن تلاش کر لیا تو پھر الگ الگ وطنی ریاستوں کے وجود پر انسان اندر سے شرمسار ہونا شروع ہوگا۔ البتہ اس کے لیے سب انسانوں کو ایک اللہ کی مخلوق ماننا ضروری ہوگا تاکہ ہر انسان کی نظرمیں دوسرے انسان پر بھی عیال اللہ کا مصداق قرار پائیں۔
نیز اس کے لیے دل کے اندر اس ایمان کا چراغ روشن کرنا ہوگا کہ ہمارا اور اس ساری کائنات کا مالک ایک ہی مہربان خدا ہے جس نے یہ زمین بھی پیدا کی ہے۔ یہ زمین اللہ کی ہے ہم اللہ کے بندے ہیں اور سارے انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں۔انسانوں کی ایک دوسرے سے علیحدگی اور جدائی اس پس منظرمیں فطری دکھائی نہیں دیتی لیکن جب ایک انسان اپنی انسانی حیثیت کے خلاف دوسرے انسانوں کے تجاوز کا تماشا دیکھتاہے تو اس کے لیے علیحدگی کی خواہش کے علاوہ گاہے کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
یہی خواہش تشکیل پاکستان کی بنیاد ہے،: آئیے غورکر لیتے ہیں کہ کیا آج کے پاکستان میں ہم کسی علاقے کے رہنے والوں،کسی مذہب کے ماننے والوں یا کوئی اور الگ بنیاد رکھنے والوں کے خلاف وہی حالات تو پیدا نہیں کررہے کہ جو علیحدگی کی خواہش کو پروان چڑھاتے ہیں۔ کیا ہم فطرت کے رشتوں کو توڑ کر دوسرے فطری ردعمل کی طرف کسی گروہ کو دھکیل تو نہیں رہے۔آج پاکستان کا یوم آزادی ہمیں اس سوال پر بھی غورکرنے کا موقع دیتا ہے۔یہ موقع عوام کے لیے بھی ہے اور حکمرانوں کے لیے بھی۔
حکمرانوں سے تو لوگ باتیں کرتے ہی رہتے ہیں۔ انھیں تو عام طور پر اپنے چند روزہ وقتی اقتدار سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ان کے روزوشب اسی اقتدار کے استحکام اوراس سے متمتع ہونے کے لیے مختلف طریقے سوچنے میں گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہ ایسے میں عوام اس سوال پر غور کرلیں کیونکہ مسائل کو حل کرنے کے لیے دو راستے ہیں ایک صحیح قیادت کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دینا اور دوسرا علیحدگی کی جدوجہد کرنا۔ علیحدگی سے پھر اگر ایسے ہی حکمران برسراقتدار آگئے تو پھر کیا ہوگا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
آئیے انسانوں کو مزید تقسیم سے بچانے کے لیے حکمرانوں کی اصلاح کا نسبتاً آسان اور بہتر راستہ اختیار کریں۔ موجودہ قیادت اگر ان مقاصد کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی تو ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو ان مقاصد سے زیادہ ہم آھنگ دکھائی دے۔
تحریر: ثاقب اکبر