تاریخ شائع کریں2012 24 January گھنٹہ 17:25
خبر کا کوڈ : 67921
از:عبدالحسین کشمیری

اسلامی جمہوری ایران میں عدلیہ نظام پر ایک اجمالی نظر

تنا(TNA)برصغیر ہند بیورو
انڈین لا انسٹی ٹیوٹ نئ دھلی میں اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کی طرف سے “موجودہ عہد میں اسلامی قانون کی معنویت”کے زیر عنوان دو روزہ ۲۸-۲۹مئ 2011کانفرنس میں عبدالحسین کا پیش کردہ مقالہ
عبدالحسین کشمیری
عبدالحسین کشمیری
مقدمه:
عدلیہ نظام جسے فارسی میں”قوه قضائیہ” اور انگریزی میں Judiciary Systemاور اردو میں عدلیہ نظام کہا جاتا ہے۔ اور میرے مقالے کا عنوان”Judicial System of Iran”رکھا گیا ہے یعنی ایران کا عدلیہ نظام۔جبکہ میرے نزدیک یہ ایک متنازعہ موضوع ہے۔ شاید میرا اس موضوع کو متازعہ عنوان کرنے پر آپ تعجب کریں ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران کے عدلیہ نظام کے ساتھ اسلام اضافہ نہ کرنے سے ہم در اصل استعمار کی غیر شعوری حمایت کرتے ہیں۔ 

امریکا سالانہ رسمی طور کروڑوں ڈالر ایران سے اسلام الگ کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے غیر رسمی طور کتنا خرچ کرتا ہوگا وہ الگ۔ مغربی میڈیا میں جو ایران کے بارے میں خبریں سننے ، دیکھنے یا پڑھنے میں ملتی ہیں کہ ایران میں عوام، حکومت کے خلاف ہیں اور مظاہرے کرتے ہیں وہ در اصل انہی استعماری ڈالروں کی چمک ہے، جب تک پیسہ پھینکا جائے گا وہاں ویسا تماشا دیکھنے کو ضرور ملے گا جو کہ صرف اور صرف تماشے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایران کے اکثر مسلمان صرف اور صرف اسلام کے شیدائی ہیں ،اس لئے ایران کو اسلام سے جوڑ کر اور اسلام سے توڑ کر دونوں پہلوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے تب جا کے اسلام عنوان کا وزون،اہمیت اور عظمت سامنے آئے گی اور استعمار کی ولایت فقیہ کے ساتھ دشمنی کا راز بھی سمجھ میں آئے گا۔
 
ایران کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑا حسن اسلام ہے، اسلام کو چھوڑ کر ایران کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔

اس میں ظرافت کی بات یہ ہے کہ اس حقیقت کو اسلام کے رفیق اور رقیب دونوں بخوبی سمجھ چکے ہیں ۔رفیق میں ایرانی قوم جو کہ اسلام کے قابل رشک شیدایی ہیں اور دنیا بھر کے وہ تمام مسلمان جن کے دلوں میں اسلام کی حاکمیت اور دنیا میں عدل و انصاف کے اجراء کی آرزو ہے شامل ہیں۔ اور رقیب میں امریکا،اسرائیل اور اسکے تمام حلیف ہم پیالہ و ہم نوالہ حکومتیں اورمزدور جماعتیں شامل ہیں۔

عملی طور پر اسلام اور استعمار آپس میں نبرد آزما ہیں اور جب تک عوامی شعور نہیں بڑھتا تب تک اسلام کی مکمل حاکمیت ممکن نہیں بلکہ استعمار کا ہی غلبہ رہےگا۔ 

دنیا بھر میں صرف تین ملکوں میں ایران ، عراق اور بحرین اس کے علاوہ کسی حد تک لبنان میں شیعہ جعفری اثنا عشریوں کی اکثریت ہے جو کہ ہمیشہ اور دور حاضر میں خاص طور پر استکبار کے خلاف برسر پیکار رہیں ہیں اور ابھی تک صرف ایرانی عوام اپنے ملک سے استکبار کی جڑیں اکھاڑ پھیکنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہاں اسلامی حکومت قائم ہے۔

اسطرح موجودہ دور میں اسلامی ملکوں کے درمیان ایک تنہا ملک ایسا ہے جس میں اسلامی شریعت نافذ اور اسلامی حکومت حاکم ہے جو کہ "ولایت فقیہ" کے نام سےایک اسلام شناس ماہر استاد، شجاع مدیر و مدبر کی رہبری و امامت میں چلتا ہے جسے جمہوری اسلامی ایران یا نظام ولایت فقیہ کے نام سے جانا اور مانا جاتا ہے۔
 
اس ملک میں ہر شعبے میں اسلامی قوانین کے نافذ ہونے کے باوجود ایرانی اسلامی حکومت اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ یہاں پر ابھی سو فیصد اسلامی نظام حاکم نہیں ہواہے بلکہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد تمام قوت کے ساتھ جاری ہے ۔ 

رہا سوال جمہوری اسلامی ایران کے عدلیہ نظام کا اس کے بارے میں پہلےاسلامی حکومت کے آئین کے چار دفعات (دفعہ ۱۱،۱۲،۱۳ اور ۱۴) کا تذکرہ کر کےموضوع کو آگے بڑھانے کیلئے مناسب سمجھتا ہوں۔
 
آئین کے دفعہ گیارہ میں آیا ہے کہ :
دفعہ۱۱:
به حكم آيه كريمه (إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ۔انبیاء/۹۲) همه مسلمانان يك امت اند و دولت جمهوري اسلامي ايران موظف است سياست كلي خود را بر پايه ائتلاف و اتحاد ملل اسلامي قرار دهد و كوشش پي گيري به عمل آورد تا وحدت سياسي، اقتصادي و فرهنگي جهان اسلام را تحقق بخشد. 
ترجمہ:
آیہ کریمہ” إِنَّ هذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً واحِدَةً وَ أَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ” (الأنبياء:۹۲)کے حکم کے رو سے سارے مسلمان ایک امت ہے اور جمہوری اسلامی ایران کی حکومت ، اپنی بنیادی سیاست کو اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد پیدا کرنے اور اس ضمن میں عملی کوششیں جاری رکھنے جس سے سیاسی ، اقتصادی اور عالمی ثقافتی اتحاد محقق ہوسکے کیلئے پابند ہے۔ 

دفعہ ۱۲:
دين رسمي ايران، اسلام و مذهب جعفري اثني عشري است و اين اصل الي الابد غير قابل تغيير است و مذاهب ديگر اسلامي
اعم از حنفي، شافعي، مالكي، حنبلي و زيدي داراي احترام كامل مي باشند و پيروان اين مذاهب در انجام مراسم مذهبي، خودشان آزادند و درتعليم و تربيت ديني و احوال شخصيه (ازدواج، طلاق، ارث و وصيت )‏ و دعاوي مربوط به آن در دادگاه ها رسميت دارند و در هر منطقه اي كه پيروان هر يك از اين مذاهب اكثريت داشته باشند، مقررات محلي در حدود اختيارات شوراها بر طبق آن مذهب خواهد بود، با حفظ حقوق پيروان ساير مذاهب. ترجمہ:
اسلام ایران کا رسمی دین اور مذہب جعفری اثنی عشری ہے اور یہ اصول الی الابد تغیر پذیر نہیں ہے اور دیگر اسلامی مذاہب از جملہ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی اور زیدی مکمل احترام کے حامل ہیں اور ان مذاہب کے پیروکار اپنے دینی رسومات انجام دینے میں آزاد ہیں اور دینی تعلیم و تربیت اور احوال شخصیہ جیسے(شادی بیاہ ، طلاق ، ارث اور وصیت) اور ان سے متعلق دعوی عدالتوں میں رسمیت کے حامل ہیں اور ہر علاقے میں جہاں ان مذاہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہاں پر علاقائی حدود کے اختیارات اسی مذہب کے شورای کو ہوں گی جو سارے مذاہب کے حقوق کے تحفظ کا بھی خیال رکھیں گے۔ 

دفعہ ۱۳:
ايرانيان زرتشتي، كليمي و مسيحي تنها اقليت هاي ديني شناخته مي شوند كه در حدودقانون در انجام مراسم ديني خود آزادند و در احوال شخصيه و تعليمات ديني بر طبق آئين خود عمل مي كنند. 
ترجمہ:
ایرانی زرتشتی ، کلیمی اور عیسائی دینی اقلیتیں ہیں جو کہ قانونی دائرے میں اپنے دینی مراسم انجام دینے میں آزاد ہیں اور احوال شخصیہ اور دینی تعلیمات کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں گے۔ 

دفعہ ۱۴:
به حكم آيه شريفه «لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطينَ»‏ دولت جمهوري اسلامي ايران و مسلمانان موظفند نسبت به افراد غير مسلمان با اخلاق حسنه و قسط و عدل اسلامي عمل نمايند و حقوق انساني آنان را رعايت كنند. اين اصل در حق كساني اعتبار دارد كه بر ضد اسلام و جمهوري اسلامي ايران توطئه و اقدام نكنند. 
ترجمہ:
آیہ شریفہ کے حکم « لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطينَ»(الممتحنة:۸) کے رو سے حکومت اسلامی جمہوری ایران اور مسلمان غیر مسلمانوں کے ساتھ اخلاق حسنہ ، عدل و انصاف کے ساتھ پیش آنے اور انکے انسانی حقوق رعایت کرنے کے پابند ہیں تاکہ اسلام اور اسلامی جمہوری ایران کے خلاف کوئی سازش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ 

مذکورہ دفعات کی روشنی میں اسلام ایران کا رسمی دین اور مذہب جعفری اثنی عشری غیر قابل تغیر اصول ہونا اور غیر جعفری اثنی عشری مذاہب اسلامی کے مکمل احترام کی ضمانت اور ہر علاقے میں جہاں ان مذاہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہاں پرعلاقائی حدودکے اختیارات دیگر مذاہب کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ اسی مذہب کے شورای کو حاصل ہونا واضح ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ غیر مسلمانوں کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اخلاق حسنہ اور عدل و انصاف کی یقین دہانی موجود ہونا ولایت فقیہ حکومت کا اجمالی خاکہ ہے۔

ولایت فقیہ میں عدلیہ نظام کو بیان کرنے کے لئے دفعہ ۱۲ میں« اسلام» ،« مذہب جعفری» اور «اثنی عشری »جو اس دفعہ میں تین کلمات استعمال ہوئے ہیں کی مختصر وضاحت کرنا چاہوں گا کیونکہ اسلامی جمہوری ایران کا محور امامت ہے جسے امام علی علیہ السلام کی حکومت کی کڑی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، اس لئے ان تین کلمات کی بھی مختصر وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں،وہ یہ کہ:
مذہب جعفری، اسلام کے مقابل مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ مذہب کلمہ ذہاب کےمادّہ سے لیا گیا ہے جس کا معنی طریقہ ہے۔یعنی جس طرح دین مقدس اسلام کے آئین کےاستعمال کے سلسلے میں مختلف طریقے بیان ہو رہے ہیں جن میں مذہب جعفری بھی شامل ہے اور مذہب جعفری کی وضاحت سے پہلے لفظ شیعہ کے حوالے سے بھی توضیح دینا لازمی سمجھتا کہ شیع(جماعت) اور شیعہ(پیروکار) مصدر باب تفعل سے ہے جسکے لغوی اور اصطلاحی معنی ہیں۔الشیعہ فرقہ یا منفرد موقف رکھنے والی جماعت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ 

شيعة الرجل :یعنی دوست اور ایک مرد کے ساتھی جسکا جمع اشیاع اور شیع ہےکہ جسے مثل و ماننداور فرقہ اور جماعت کے نام سے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ في‏ شِيَعِ
الْأَوَّلينَ
(الحجر:۱۰) ۔

قرآن میں لفظ شیعہ بطور مفرد چار بار آیا ہے ، ایکبار اکیلے(مریم ۶۹) اور تین بار اضافے کے ساتھ(قصص۱۵ میں دو مرتبہ اورصافات۸۳میں ایک مرتبہ) پہلی آیت میں جماعت کے معنی کے ساتھ اور باقی میں پیروکاروں کے معنی میں بیان ہوا ہے۔ 

اصطلاح میں شیعہ حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کوکہا جاتا ہے ۔ لیکن اصطلاحی شیعہ میں اصلی شیعہ کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اصطلاحی شیعہ فرقے بہت سارے ہیں لیکن اصلی اور اکثریتی شیعہ ایک ہی ہے جسے شیعہ اثناعشری اصولی کہا جاتا ہے جن کا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ جانشینوں پر اعتقاد و ایمان ہے۔اس حوالے سے مسلم(صاحب صحیح مسلم) نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے احادیث نقل کئے ہیں جن میں آنحضرت کا اپنے بعد بارہ ائمہ متعارف کرنے کا اعتراف موجود ہے از جملہ: جابر بن سمرہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کو فرماتے سنا کہ: اسلام ہمیشہ عزیز رہے گا جب تک میرے بارہ خلیفہ ان پر حکومت کرتے ہیں ۔ اسکے بعد کچھ اورکہا میں سمجھنے سے قاصر رہا میں نے اپنے والد سے پوچھا آنحضرت نے یہ کیا فرمایا ، تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہوں گے۔(صحیح مسلم، ج۶،ص ۳، کتاب الامارہ)۔ 

حموینی نے فرائد السمطین میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ نعثل نامی ایک یہودی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)مجھے آپ سے کچھ سوال کرنے ہیں جو کہ بڑی مدت سے میری ذہن میں ہیں اگر آپ نے انکا تشفی بخش جواب دیا میں آپ پر ایمان لاوں گا ۔ آنحضرت نے فرمایا : اے ابا عمارہ پوچھو کیا پوچھنا ہے :ان سوالات میں ایک سوال آنحضرت کے وصی کے بارے میں تھا ۔ عرض کیا مجھے اپنے وصی کے بارے میں بتائیں کیونکہ ہر پیغمبر کا وصی رہا ہے ۔ جس طرح ہمارے نبی موسی بن عمران کا وصی یوشع بن نون تھا ۔ آنحضرت نے جواب میں فرمایا:<< میرے بعد میرا وصی علی ابن ابیطالب ہیں ان کے بعد حسن اور حسین اور حسین کے بعد انکے پشت سے نو امام ہیں>>۔ اس نے مذید سوال کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے نام بتائیں : آنحضرت نے فرمایا:<< حسین کے بعد انکافرزند علی ، ان کے بعد ان کا فرزندمحمد ، ان کے بعد ان کا فرزند جعفر ، ان کے بعد ان کا فرزند موسی ، ان کے بعد ان کا فرزند علی ، ان کے بعد ان کا فرزند محمد ، ان کے بعد ان کا فرزند علی ، ان کے بعد ان کافرزند حسن ، ان کے بعد ان کا فرزند حجت محمد مھدی امام ہوں گے اور یہ بارہ ہیں >>۔(فرائد السمطین ، ج۲،ص۱۳۲؛ ینابیع المودہ، ج۳، ص ۲۸۱-۲۸۲)۔اس کے علاوہ آنحضرت کی معروف حدیث <<الحسن والحسین اماما امتی بعد ابیھما>> ۔ حسن اور حسین اپنے باپ کے بعد میری امت کے امام ہیں ۔اور اس عقیدے کا تسلسل صدر اسلام سے چلا آ رہا ہے۔ 

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہی آنحضرت اپنےجلیل القدر صحابہ کرام حضرات سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود کندی ، عمار بن یاسر وغیرہ …کو امام علی علیہ السلام کے شیعہ کے نام سے یاد کرتے تھے یعنی علی علیہ السلام کے خاص دوست اور یہ سلسلہ جاری رہا، مذکورہ بارہ اماموں میں ہر امام کے لئے کچھ معتمدین اور خاص دوست ہوا کرتے تھے ۔

صدر اسلام میں حضرات صحابہ سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود کندی ، عمار بن یاسر وغیرہ پہلے امام حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کے شیعہ اور معتمد خاص تھے اور دور حاضر میں آیات عظام حضرات سید علی حسینی خامنہ ای ، سید علی حسینی سیستانی ، شیخ ناصر مکارم شیرازی ، شیخ صافی گلپایگانی، شیخ نوری ہمدانی ، شیخ عبداللہ جوادی آملی ، شیخ جعفر سبحانی وغیرہ ……شیعہ ،آخری امام کے معتمد خاص اور نائب امام ہیں۔

لہذا تشیع دین اسلام ہے اور مکتب جعفری وہی کتاب اور سنت ہے لیکن اس میں اثنی عشری(بارہ امامی) کا لفظ اضافہ کرنا ضروری ہے تاکہ باقی مکاتب جیسے اسماعیلیہ اور واقفیہ جو کہ جعفری کہلاتے ہیں لیکن ولایت اور امامت کا سلسلہ بارہوں امام تک نہیں مانتے ہیں کی علیحدگی واضح ہوجائے۔کیونکہ اکثر اصطلاحی شیعوں کی وہ باتیں جو اشتعال انگیز ہوا کرتی ہیں انہیں مکتب جعفری اثنا عشری کے عقیدے کے طور پر پیش کرکے اصلی تشیع کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جسے شیعہ حراسی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جوکہ استعمار، خاص کر صہیونزم کے اسلام دشمنی سازشوں کا حصہ ہے۔ 

اس مقدمے کے ساتھ عدلیہ نظام کی طرف بڑھتے ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران میں عدلیہ نظام کس طرح کام کرتا ہے۔
عدلیہ نظام(قوہ قضائی Judiciary System)
اسلامی جمہوری ایران کے نظام میں عادل قاضیوں کا استخدام ، عزل اور نصب رئيس قوء قضائیہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ قاضی کے صفات اور شرایط، فقہی معیار کے مطابق قانون معین
کرتا ہے (دفعہ۱۶۳) ۔
 
قاضی کا عادل ہونا یعنی اس سے گناہ کبیرہ سرزد نہ ہونا اور گناہ صغیر کو انجام نہ دینا شامل ہے جس سے قاضی اور قضاوت کا اسلامی معیار معین اور مشخص ہوتا ہے۔ 

نظام عدلیہ کے حوالے سے اسلامی جمہوری ایران کے قوہ قضائیہ کی رسمی سایٹ dadiran.ir پر«قوہ قضائیہ در یک نگاہ » کے عنوان سے عدلیہ نظام کا خاکہ دو موضوع “قوہ قضائیہ کی زمہ داریاں”اور”قوہ قضائیہ کے ادارے اور محکمے”کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے جسکا اردو ترجمہ میں پیش کرنے جا رہا ہوں۔ 

قوہ قضائیہ(عدلیہ نظام) پر اجمالی نظر 
قوہ قضائیہ سے متعلق آئين اساسی میں مقررات کا اجمالی جائزہ:
عدالت و انصاف کا قیام انسانی معاشرے کی دیرینہ آرزو رہی ہے۔ عدل و انصاف کا قیام یعنی لوگوں یا جماعتوں یا حکومتوں کے آپسی اختلافات کو قانون کی روشنی میں حل کرنا ہے۔ اور یہ سنگین زمہ داری قوہ قضائیہ جو کہ ایک آزاد ادارہ ہے پر عائد ہوتی ہے، جسے انفرادی اور اجتماعی حقوق کی حمایت اور عدل و انصاف کے قیام کا اہتمام کرنے کے ساتھ مندرجہ ذیل زمہ داریاں عائد ہوتی ہیں: 

پهلا موضوع:قوه قضائیه کی زمه داریاں
قوہ قضائیہ (عدلیہ) کی زمہ داریاں
آئین کے دفعہ ۱۵۶ کے رو سے قوہ قضائیہ کی زمہ داریاں اس طرح ہیں:
درخواست ، تعدیات ، شکایات کی تفتیش اور فیصلہ، اختلافات کا حل و فصل ، ناچاکیوں اوردشمنیوں کا خاتمہ اور اس سلسلے میں امور حسبیہ سے متعلق ضروری اقدامات جنہیں قانون نےمعین کیا ہے کو نافذ کرنا ہے۔ 

یہ زمہ داریاں بنیادی طور دادگستری(Justice) نامی عدالیہ نظام پر عائد ہوتی ہیں جوکہ دو کلیدی شعبوں » داد سرا Prosecutors یا پار کہParkh « اور » محاکم(Courts) یا دادگاہ (Bars)«کا مجموعہ ہے۔
 
آئین کے دفعہ ۱۵۹ کے رو سے تظلمات (پٹشن) اور شکایات کا رسمی مرجع داد گستری ہے۔عدالتوں کی تشکیل اور انکی صلاحیتوں کا تعین قانونی حکم پر منحصر ہے۔اس لئے حکم صادر کرنے کی زمہ داری محاکم کی ہے۔(اسطرح پیروی عدالت اور حکم صادر کرنا قانون کا کام ہے)۔ 

عمومی حقوق کی بازیابی،انصاف اورمشروع آزادی کو بڑھاوا دینا۔
قوانین کے نفاذ پر نظارت: عدالتی نظام کی بنیادی زمہ داری صرف قوانین کے نفاذ پر نظارت تک محدود نہیں ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ حسن اسلوب کے ساتھ قانون نافذ ہونے کو بھی یقینی بنانا ہے۔ عدالتوں میں حسن اسلوب کے ساتھ قانون نافذ ہونے کی نظارت عدالت عظمی(دیوان عالی) پر عائد ہے اور اداروں میں قانون کے نافذ ہونے پر نظارت کا کام سازمان بازرسی کل کشور پر عائدہے۔ 

کشف جرم اور تعقیب مجازات اور تعزیر مجرمین اور اجرای حدود اور اسلامی مدون جزائی مقررات۔ بنیادی طور داد سرا نامی عدالتی شعبے کے دائرے میں آتے ہیں۔ 

جرم کے روک تھام اور مجرموں کی اصلاح کے لئے مناسب اقدامات۔
عدالتی نظام کو اس انتظار میں نہیں بیٹھنا ہے کہ جرم ہو جائے اور اسکے بعد اسکی زمہ داری شروع ہوگی اور وہ مجرم یا مجروموں کو پکڑ کر گرفتار کرلیں ، بلکہ اس ادارے کی بنیادی زمہ داری یہ ہے کہ جرم کے اسباب کو روکنے کے لئے مناسب اقدامات پہلے سے انجام دے تا کہ جرم کا ارتکاب نہ ہو سکے۔ 

دوسرا موضوع:قوہ قضائیه کے ادارات اور محکمے:
بند۱: قوہ قضائیہ کاسربراہ(چیف جسٹس)
عدلیہ نظام میں رئیس قوہ قضائیہ نامی شخص عدلیہ کا سربراہ ہے جس کے انتصاب اور شرایط اور زمہ داریاں کچھ یوں ہیں:
رئيس قوہ قضائیہ یا چیف جسٹس کو تعین کرنے کا طریقہ
حاکم اعلی مقام رہبری(ولی فقیہ) کے جملہ وظایف میں سے قوہ قضائیہ کے سربراہ کو عزل، نصب اور استعفی قبول کرنے کا اختیارہے۔(آئین دفعہ۱۱۰ کی چھٹی شک) جو کہ آئین کے دفعہ۱۵۷کے رو سے عدلیہ کے جملہ اداروں کو چلانے کے لئے پانچ سالہ مدت کیلئے تعین ہوتا ہے۔ 

قوہ قضائیہ کے سربراہ (چیف جسٹس)کے شرایط
جو شخص عدلیہ کی سربراہی کے لئے تعین ہوتا ہے وہ عدلیہ کا عالی ترین منصب ہے۔ آئین کے دفعہ ۱۵۷ کے مطابق جس کے لئے مندرجہ ذیل شرایط لازمی ہیں:
عادل مجتہد ہونا
عدالتی معاملات کا ماہر ہونا
مدیر اور مدبر ہونا 

چیف جسٹس (رئیس قوہ قضائيہ)کے فرائض:
آئین کےدفعہ ۱۵۸ رئیس قوہ قضائیہ کی زمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں:
داد گستری (عدلیہ) میں ضروری اداروں کا آئین کے دفعہ ۱۵۸ کی روشنی میں قیام عمل میں لانا۔
جمہوری اسلامی کی مناسبت سے قانونی مسودہ تیار کرنا۔
عادل اور قابل ججوں کی تقرری اور انکا عزل و نصب ، تبدیلی اور تعیین مشاغل اور قانون کے مطابق انکی درجہ بندی اور اس قسم کے اداری مسائل انجام دینا، قانون کے دفعہ ۱۶۴ کے رو سے قاضی کی معموریت کی جگہ کو قاضی کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں کرسکتا، مگر یہ کہ جامعہ کا مفاد اسکا تقاضا کرے، ایسی صورت حال میں رئیس قوہ قضائیہ ملک کے رئیس دیوان عالی اور دادستان کل کے ساتھ مشورہ کرکے انجام دے سکتا ہے۔ 

پانچ سالہ دور کے لئے قانون کے دفعہ ۱۶۰ کی روشنی میں دیوان عالی کے قضات کے ساتھ
مشورہ کرکے دیوان عالی اور دادستان کے سربراہ کی تقرری کرنا۔ 

صدر جمہور کو وزیر داد گستری (وزیر قانونLaw Minister) کو منتخب کرنے کی سفارش کرنا ۔ (دفعہ ۱۶۰)
دیوان عالی(Supreme court ) کو تشکیل دینے کیلئے ضوابط کا تعیین کرنا۔(دفعہ۱۶۱)
دیوان عدالت اداری ،(Administrative Justice Court)رئیس قوہ قضائیہ کے ماتحت ہونا۔(دفعہ۱۷۳)
سازمان بازرسی(Audit Department)، رئیس قوہ قضائیہ کے ماتحت ہونا۔ (دفعہ۱۷۴)شامل ہیں۔ 

بند۲: محاکم داد سرائيں(Trial Courts)
قانون کے دفعہ ۶۱ کے رو سے:عدلیہ نظام دادگستری کی عدالتوں کے ذریعہ سے چلتا ہے جو کہ اسلامی معیار کے مطابق تشکیل پاکر اختلافات کو حل و فصل، عمومی حقوق کا تحفظ اورگسترش و اجرای عدالت اور حدود الہی کو قائم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔

دادگستری کے شعبوں اور عدالتوں پر دیوان عالی حاکم ہے دیوان عالی(Supreme court) اور دادستان(Attorney general ) ملک کی عدالت عظمی ہیں۔ ان دونوں اداروں کے سربراہ عادل مجتہد اور قضائی امور کا ماہر ہونےچاہئے۔ 

آئين کے دفعہ ۲۶۰ کے رو سے : ملک کا دیوان عالی عدالتوں میں صحیح طریقے سے قوانین کے نفاذ پر نظارت کے غرض سے اور عدالتی عمل میں اتحاد تشکیل دینے کے لئے جو زمہ داریاں قانون نے محول کئے ہیں، رئیس قوہ قضائیہ کی طرف سے تعین کئے گئے ضوابط کے مطابق تشکیل پاتےہیں۔ 

آئین کے مقررات کے مطابق جرایم کی تفتیش کے لئے دو محکمے موجود ہیں البتہ ہر محکمے کے لئے عدالت بھی مقرر ہے۔
الف: محاکم (Trial court)اور عمومی داد سرا (General Prosecutor)ہیں جو عمومی جرائم کی تقتیش کرتے ہیں۔
ب:محاکم اورنظامی داد سراہیں(Trial Courts and Military Tribunal) 

آئين کے دفعہ ۱۷۲ کے رو سے :خاص نظامی یا فوج انتظامی، پلیس اور یا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے زمہ داریوں سے متعلق جرائم کی تفتیش کے لئے ، فوجی عدالت قانون کے مطابق تشکیل پاتی ہے ، لیکن ان کے عمومی جرائم یا ایسے جرائم جو دادگستری کے دائرے کار میں آتے ہوں، عمومی عدالت میں تفتیش ہونے ہیں۔ 

دادستانی(Prosecuting attorney) اور دادگاہ ھای نظامی(Military Tribunal) ، ملک کے نظام عدلیہ کا حصہ ہیں اور عدلیہ سے مربوط اصول اس میں شامل ہیں۔دونوں محکموں کا آئین میں ذکر،عدالیہ کو عوامی اور نظامی سے الگ کرنا نہیں ہے بلکہ آئین کے دفعہ ۱۵۸اور۱۵۹ کے اعتبار سے ضروری ادارات یا دوسری عدالتیں ضرورت کے مطابق قائم کی جانے کی تصدیق ہے۔ چنانچہ ابھی عدالتوں کے ساتھ ساتھ انقلابی داد سراہیں بھی قوہ قضائیہ کے نظام میں موجود ہیں۔ 

بند۳: وزیردادگستری(وزیر انصاف)
دفعہ ایک سو ساٹھ کے مطابق: وزیر دادگستری (Law Minister)قوہ قضائیہ (Judiciary)،قوہ مجریہ (Judiciary Executive)اور قوہ مقننہ(Legislature) سے مربوط مسائل کا عہدہ دار ہےکہ جسے رئیس قوہ قضائیہ ،کی سفارش پر صدر جمہور انتخاب کو کرنا ہوتا ہے۔
 
رئیس قوہ قضائيہ (Chief Justice) وزیر انصاف کو مالی ، اداری کےمسائل کے ساتھ ساتھ غیر قضات کو استخدام کرنے کے اختیارات بھی تفویض کرسکتا ہے۔اس صورت میں وزیر انصاف کے وہی اختیارات اور زمہ داریاں ہوں گی جو آئين میں وزیروں کو عالی ترین منصب کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ 

بند ۴ : قضات «دادرسان» (Trial)
قاضی کا انتخاب کرنے کا طریقہ
دنیا میں قاضی کو انتخاب کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک انتخاب کرنے کا طریقہ جس طرح کہ شمالی امریکا فیڈرل محاکم سے اثتثناء قاضی عوام کی جانب سے انتخاب ہوتے ہیں یا سوئزرلینڈ میں قوہ مقننہ چودہ فیڈرل قاضیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یا جمہوریہ میکزیک میں لوگ قضات عالیہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔دوسرا طریقہ انتصاب کا ہے۔جس طرح انگلینڈ میں ،سبھی قاضی القضات کی نگرانی میں قاضی منصوب ہوتے ہیں۔ 

جمہوری اسلامی ایران کے نظام میں عادل قاضیوں کا استخدام ، عزل اور نصب رئيس قوء قضائیہ کی جانب سے ہوتا ہے۔ قاضی کے صفات اور شرایط فقہی معیار کے مطابق قانون معین کرتا ہے (دفعہ۱۶۳) 

قاضی کی زمہ داریاں 
قاضی پابند ہے کہ کوشش کرے ہر دعوای کا حکم قوانین مدوّنہ سے تلاش کرے، نہ ملنے کی صورت میں معتبر اسلامی منابع سے استناد کرے ، یا معتبر فتاوای کے ذریعہ قضیہ کا حکم صادر کرے اورقوانین مدوّنہ میں سکوت یا نقص یا اجمال یا تعارض پانے کے صورت میں حکم صادر کرنے سے خودداری نہیں کرسکتا۔(دفعہ ۱۶۷)۔ 

اسی طرح عدالتوں کے قضات مکلف ہیں کہ حکومتی تصویب ناموں اور آئين ناموں جوکہ اسلامی قوانین اور مقررات کے خلاف ہوں یاقوہ مجریہ کے دائرے اختیار سے خارج ہوں کو اجرا کرنے سے خوداری کریں اور ہر کوئی اس قسم کے مقررات کو دیوان عدالت سے، اسے خارج کرنے کی درخواست کرسکتا ہے۔(دفعہ۱۷۰) 

مذکورہ دو دفعات کی روشنی میں قاضی کی پہلی زمہ داری: دعاوی اور اختلافات کا یقینی طور حل وفصل کرکے حکم سنانا اور کسی بھی بہانے سے حکم صادر کرنے سے بہانہ
بازی نہیں کرسکتا ہے۔
 
دوسری:یہ کہ ایسے حکومتی تصویب ناموں، آئين ناموں کی مخالفت کرنا جو اسلامی قاعدے اور قانون کے خلاف ہوں یا قوہ مجریہ کے اختیار سے خارج ہوں سے اجتناب کرنا ہے۔ 

قاضی کی خصوصیت
الف: قاضی کا استقلال اور آزادی
آئين کے دفعہ ۱۶۴ کی روشنی میں:قاضی جس عہدے پر فائض ہے اس سے محاکمہ اور جرم کے ثابت ہوئے بغیر یا تخلف جو کہ انفصال کا موجب ہو، موقت یا دائمی طور پر کوئی ہٹا نہیں سکتا ہے اور قاضی کی مرضی کے خلاف اسکی پوسٹنگ یا عہدے کو تغیر و تبدیل نہیں کیا جاسکتا یا یہ کہ معاشرے کی مصلحت کے پیش نظر رئیس قوہ قضائیہ رئیس دیوان عالی اور دادستان سے مشورت کے ساتھ انجام دے۔قضات کی تبدیلی اور پوسٹنگ آئين کے قواعد و ضوابط کے تحت انجام پاتا ہے۔ 

ب:قاضی کا استحکام
آئین کے دفعہ۱۷۱کے رو سے:جب موضوع یاحکم یا حکم کے تطبیق کے سلسلےمیں قاضی تقصیر یا غلطی کا مرتکب پایا جائے جس سے کسی کا مادی یا معنوی نقصان پہنچا ہو، تقصیر کے صورت میں مقصر اسلامی قاعدے کے مطابق اسکا ضامن ہے اوردورسری صورت میں حکومت خسارت کو جبران کرنے کا زمہ دار ہے، اور بہرحل متھم اعادہ حیثیت ہو جاتا ہے۔مذکورہ اصل کے رو قاضی کی طرف سے موضوع یا حکم یا خاص مورد میں حکم کے تطبیق کرنے میں غلطی ہونے کے صورت میں، اگر قاضی مقصر نہ ہو تو خسارت حکومت کی جانب سے پورا کیا جاتا ہے۔ 

بند۵:دیوان عدالت اداری اور سازمان بازرسی کل کشور
سرکاری ملازموں کے بارے میں عوامی شکایات، تظلمات اور اعتراضات کی تفتیش اور پیروی کے غرض سے، سرکاری ادارے، سرکاری آئين نامے اور انکے حقوق کے احقاق کے لئے دیوان عدالت اداری کے نام سے رئيس قوہ قضائیہ کی نگرانی میں عدالت تاسیس ہوتی ہے جسکے حدود و اختیارات اور طریقہ کار قانون تعین کرتا ہے۔(دفعہ۱۷۳) 

اسی طرح قوہ قضائیہ کے حدود و اختیارات اور طریقہ کار کو حسن اسلوبی کے ساتھ انجام پانے پر نظارت کا طریقہ بھی قانون تعین کرتا ہے۔(دفعہ۱۷۴) 

بند۶: نظام جمہوری اسلامی ایران میں امور قضایی پر حاکم قواعد و ضوابط
پہلا اصول: محاکمات کا آشکار ہونا:
آئین کے دفعہ ۱۶۵ کے رو سے:محاکمات (Trials) علنی طور پر انجام پانا چاہئے اوراس میں عوام کی حاضری بلا مانع ہے مگر یہ کہ عدالت محاکمات کا علنی طور پر منعقد کرنے کو عفت عمومی یا نظم عمومی کے منافی ہونا تشخیص دے، یا خصوصی دعاوی میں طرفین دعوا تقاضا کریں کہ محاکمہ علنی نہ ہو۔ 

اس اعتبار سے مندرجہ ذیل تین صورتوں میں علنی محاکمات انجام نہیں پا سکتے ہیں:
علنی ہونے کو عدالت ،عفت عمومی کے منافی تشخیص دے۔
علنی ہونا عمومی نظم کے مخالف ہو۔
طرفین تقاضا کریں کہ محاکمہ علنی نہ ہو۔ 

دوسرا اصول: عدالت کے احکام مستند ہونا:
عدالت کے احکام قانونی مواد اور اصول کی روشنی میں مستدل اور مستند ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر حکم صادر ہونا ہے۔(دفعہ ۱۶۶) اس اعتبار سے قاضی مواد قانونی سے استناد کئے بغیر حکم انشاء نہیں کرسکتا ہے۔ 

تیسرا اصول:ہیئت منصفہ کی حاضری میں سیاسی اورمطبوعاتی جرائم کی پیروی
ایسے جرائم کی پیروی علنی صورت میں قائم ہونا اور محاکم دادگستری میں ہیئت منصفہ کی حاضری میں انجام پانا ہے۔(دفعہ ۱۶۸) 

چھوتھا اصول:عدم عطف قوانین جزایی بہ ماسبق
کسی بھی کام کو انجام دینا یا چھوڑنا جوکہ قانونی طور پر جرم ہو لیکن قانون وضع ہونے سے پہلے انجام پایا ہو جرم محسوب نہیں ہوگا۔ (دفعہ ۱۶۹) کیونکہ فرض اس بنا پر ہے کہ معاشرے میں قضائی نظم حاکم ہے ،حکومت ہر اس عمل یا کاروائی کو معاشرے کے لئے نقصان دہ اور انجام دینے والے کو مستحق مجازات جانے تو حکومت عدیلہ قانون کے مطابق اس بات کی زمہ دار ہے کہ عوام کو اس سے با خبر کرے۔ 

یہ ولایت فقیہ کے عدلیہ نظام کا خاکہ ہے جو کہ اسلامی ایران پر حاکم ہے یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر مذہب اور ہر عقیدے کے لوگ اپنے اور اپنے عقیدے کو محفوظ تصور کرتے ہیں ۔استعماری قوتیں ہمیشہ کوشش کرتے رہیں ہیں کہ اسلام کو مسخ کرکے پیش کیاجائے اور اسلام کے ضابطہ حیات کو نہ اسلامی ملکوں میں نافذ کرنے دیتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ عالم اسلام سے باہر اسکا نفاذ کیوں کر ممکن ہوسکے ۔ 

دنیا میں صرف ایک ملک (ایران) میں اسلامی حکومت نافذ ہے کیا دنیا کا میڈیا وہاں، قانون اور انصاف کی حاکمیت کے حوالے سے کسی حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ البتہ اگر کسی قاتل اور زانی کو سرعام سزا دی جاتی ہے اس پر سر پیٹ پیٹ کر چلاتے ہیں کہ ایک انسان کو پھانسی دی گئ ہے انسانی حقوق کویمال کیا گيا ہے۔یہ نہیں کہا جاتا کہ ایک قاتل کو سزا دی گئ ایک زانی کو اپنے انجام کو پہچایا گیا ، کرامت انسان کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ایک اور خدمت انجام دی گئ نہیں بتایا جاتا ہے۔اسی طرح کیا ذرائع ابلاغ نےکبھی جیلوں میں رہ رہے مجرموں کے بارے میں مجرم کے جیل جانے اور جیل سے رہا ہونے کے بعد کی حقیقی تصویر سامنے لائی ہے۔ وہاں کی اقلیتوں سے پوچھا گیا ہے کہ آپ اس نظام میں اپنے آپ کو کیسا پاتے ہیں۔ اسکے بدلے ایسے لوگوں کہ جنکا نہ مذہبی ، نہ اخلاقی اور نہ ہی سیاسی اجتماعی معیار ہے وہ اپنی خوشی کے لئے ہر قواعد و ضوابط کو پایمال کرکے اپنی دنیا بنانا چاہتا ہے ایسے ماحول میں یقینا گھٹن محسوس کرتے ہیں جن کہ تعداد انگشت شمار ہے اور مغرب ہمیشہ انہی پر تکیہ کرکے اسلامی نظام کو زیر سوال لانے کی بے سود کوشش کرتا رہتا ہے۔ 

اللہ کی بارگاہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی نظام جوکہ قانون و انصاف کا ضامن ہے اور کرامت انسانی کا علمبردار ہے کو اپنانے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین
عبدالحسین کشمیری
https://taghribnews.com/vdcgqy93.ak9ux40,ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ