تاریخ شائع کریں2017 23 May گھنٹہ 15:29
خبر کا کوڈ : 268985

ایران کے صدارتی انتخابات کے بارے میں معروف تجزئیہ نگار قندیل عباس کا خصوصی انٹرویو

اتنی بڑی تعداد میں ایرانی عوام کی الیکشن میں شرکت سے ایران کی اور انقلاب کی پالیسیوں کے ساتھ اُن کے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے بارے میں پاکستان کے معروف تجزئیہ نگار کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایرانی عوام کی الیکشن میں شرکت سے ایران کی اور انقلاب کی پالیسیوں کے ساتھ اُن کے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے ۔
ایران کے صدارتی انتخابات کے بارے میں معروف تجزئیہ نگار قندیل عباس کا خصوصی انٹرویو
اسلامی جمہوریہ ایران میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے بارے میں پاکستان کے معروف تجزئیہ نگار کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایرانی عوام کی الیکشن میں شرکت سے  ایران کی اور انقلاب کی پالیسیوں کے ساتھ اُن کے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے ۔
 
ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے معروف تجزئیہ نگار قندیل عباس کا کہنا تھا کہ ایران کے صدارتی انتخابات میں بہت زبردست مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ اس لئے کہ صدر روحانی نے عالمی سطح پر جو کامیابیاں حاصل کی اور خاص طور پر ایرانی نیوکلیئر ڈیم کے ذریعے اٹامک انرجی کے بارے میں ایران کے حق کو دنیا کی بڑی طاقتوں سے منوایا  اس کی بنیاد پر ایرانی عوام نے اُن کو سپورٹ کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ  ایران کی موجودہ پالیسیاں جاری رہیں گی اور گزشتہ چار سالوں کے دوران صدر روحانی نے جو پالیسیاں بنائی تھیں ، وہ آئندہ چار سالوں میں بھی اسے جاری رکھیں گے۔

قندیل عباس نے کہا کہ  دوسری طرف جو ایک ایشو یہ بنا ہوا تھا کہ صدر اوباما کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد ایران کے خلاف مزید  پابندیاں لگائی گئیں اور مزید اقدامات کئے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ رئیسی صاحب کو ملنے والے ووٹوں سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی عوام نے بڑے شدید انداز میں امریکیوں پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ بھی کیا ہے۔

سخت انتخابی مقابلے کے بارے میں انکا کہنا تھا کہ ایک بہت بڑا کلوز مارجن نظر آتا ہے  جبکہ زیادہ تر ایسا ہوتا  نہیں ہے۔ اور ایران کے اندر جو جمہوریت کا انداز ہے اُس میں یہ ٹرن آؤٹ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دنیا کی جو ماڈرن ڈیموکریسی ہیں جو ڈیموکریسی کا نعرہ لگاتے ہیں، اُن کا بھی بہت مشکل سے ۵۰ فیصد تک ٹرن آؤٹ جاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی جو ایران کا ٹرن آؤٹ ہے وہ غیر معمولی رہا ہے اور ابھی تک اندازہ یہ ہو رہا ہے کہ تقریباً ستر فیصد سے اوپر ٹرن آوٹ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں قندیل عباس نے کہا کہ  دنیا میں یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ایران میں ایک غیر معمولی تبدیلی آئے گی اور ایران کی جو ریجنل اور انٹرنیشنل پالیسیاں ہیں خاص طور سے شام کے بارے میں، فلسطین کے بارے میں، یمن کے بارے میں اور پھر بحرین کے بارے میں۔ یہ جو چار ایشوز ہیں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اور محسوس یہ کیا جا رہا تھا کہ ایران میں کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی۔ اس الیکشن سے ثابت ہوگیا کہ پچھلے چار سال کے دوران ایران کی جو پالیسیاں شام کے بارے میں رہیں، بحرین ، یمن اور فلسطین کے بارے میں، ایرانی عوام نے اُن پالیسیوں کی حمایت کی ہے ۔

ایران کی نیوکلیئر انرجی کے بارے میں انکا کہنا تھا کہ ایران کی نیوکلیئر انرجی کا جو حق منوایا جانا ہے  اور یورپی طاقتوں نے تو اس حق کو مانا اور اُسے ابھی تک قبول کر رہی ہیں اور اُس کا احترام کر رہی ہیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جو پالیسیاں ہیں اور خاص طور پر ابھی جو اُن کا سعودی عرب کا دورہ ہے۔ اس دورے سے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ ایران کے خلاف ایک نیا محاذ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ظاہر ہے ایران کی جو عالمی سطح پر سفارتی کامیابیاں ہیں اُس میں روس اور چین ایران کے ساتھ ہیں اور ایک امریکی کی پالیسی کی وجہ سے ایک نیو کولڈ وار کا ماحول نظر آرہا ہے۔ لیکن ایران کی ماہرانہ ڈپلومیسی کی وجہ سے اور چین و روس جو ایران کے ساتھ کھڑے ہیں اور امریکہ جو نئی پالیسیاں ہیں اُن کا راستہ روک دیا گیا ہے۔

انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ  جو لوگ ایران کی داخلی سیاست کو زیادہ اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ اور سمجھے بغیر ایران کی پالیسیوں اور ایران کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اُن کی غلط فہمی یہ ہے کہ ایران میں جو اُمیدوار آئے ہیں اُن میں سے کچھ انقلاب کے حامی ہیں اور کچھ انقلاب کے مخالف ہوں گے۔ اور اُن کا تاثر یہ ہوتا ہے، بعض کیلئے تو قدامت پرستوں کی  اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ بعض کیلئے اصلاح پسندوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں ایران کے تمام صدارتی امیدوار انقلاب کے حامی ہوتے ہیں۔ ایرانی عوام کو اُن کی حمایت ملتی ہے۔ اُن میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوتا جو انقلاب کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہوکر انتخابی کمپین چلائے۔

یہی وجہ ہے، الیکشن میں جو بھی اُمید وار سامنے آتے ہیں۔ اُن کی انقلاب کے اصولوں کے ساتھ ایک بنیادی وابستگی ہوتی ہے۔ لیکن ان امیدواروں میں جو بنیادی اختلاف ہوتا ہے، وہ یہ ہوتا ہے کہ انقلاب کو آگے کیسے بڑھایا جائے؟ انقلاب کے جو اہداف ہیں وہ کیسے حاصل کئے جائیں؟ اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے جو اسٹرٹیجی ہے اُس میں فرق ہوسکتا ہے۔ لیکن انقلاب کے جو اہداف ہیں اُس پر کبھی کسی  اُمیدوار کا کوئی مختلف بیان نظر نہیں آیا۔

اگر ایران کے سپریم لیڈر نے یہ کہا کہ کوئی بھی جیت جائے تو یہ ایرانی عوام کی جیت ہے ، اُس میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ جو ایران کا آئین ہے وہ ایرانی عوام کی اکثریت سے پاس ہوا ہے اور اُسی اساس پر ایران کی  ۳۸ سالہ  تاریخ پر ہم نظر ڈالے تو تقریباً اتنے ہیں الیکشن ہوچکے ہیں۔ اور شدید ترین جنگ کے حالات میں بھی اور جب تہران پر میزائلوں کی بارش ہو رہی تھی۔ اُس وقت بھی کبھی ایران کے کوئی الیکشن مؤخر نہیں ہوئے۔ اور کبھی بھی پولیٹیکل پروسیس رکتا نظر نہیں آیا۔

قندیل عباس نے کہا کہ ایران کے لئے کافی زیادہ چیلنجز ہیں اور بہت سے مشکلات آگے نظر آرہی ہیں۔ کیونکہ اس وقت جو سعودی عرب میں جو بات چیت ہوئی ہے۔ بظاہر تو یہ اسلامی ممالک کی ایک کانفرنس ہوئی ہے لیکن یہ کہنا پڑتا ہے کہ امریکی صدر اُس میں ایک مہمان کی حیثیت سے نہیں شرکت کر رہے بلکہ وہ اس کی صدارت کر رہے ہیں۔ اور اس کے بعد انہوں نے جاکر صیہونی حکومت کے لوگوں سے ملنا ہے اور وہاں کا دورہ کرنا ہے۔ یہ جو ایک صورتحال پیدا ہو رہی ہے یہ ظاہر ہے کہ علاقائی اور عالمی سیاست کیلئے خطرناک ہے۔ اور اس میں او آئی سی چونکہ بنی ہوئی تھی جس میں اسلامی ممالک بھی موجود ہیں ، اب اس کے حق میں کچھ فیصلے کئے جا رہے ہیں، جن میں ہم کچھ حکومتوں کو دیکھتے ہیں کہ جن میں عوام کی حمایت اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہے۔

یہ جو چیلنجز ہیں اور پھر خاص طور سے جو شام کی صورتحال ہے اور پھر یمن اور بحرین کی صورتحال ہے۔ اور فلسطین کا جو مسئلہ ہے، اس میں ایران کو زبردست کامیابیاں مل چکی ہیں۔ ان کامیابیوں کا تحفظ،ایران کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اور  اس کے ساتھ ساتھ جو ایک کافی طویل عرصے کی اکنامکس ٹینش، اُس سے ابھی باہر نکلا ہے اور ایران نے ترقی کا ایک نیا سفر شروع کیا ہے۔ اب اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی مزید پالیسیوں کی وجہ سے میرا خیال ہے مزید چیلنجز  کھڑے کرنے کی کوشش کی جائے گی ایران کے رستے میں لیکن صدر روحانی جو ہے کافی تجربہ کار سیاستدان ہے ، اور ان کو عوام کی اتنی بھاری اکثریت سے جو مینڈیٹ ملا ہے۔ میرا خیال ہے جتنی بھی مشکلات اور چیلنجز ہیں اُن کا اب کامیابی سے سامنا کرنا صدر روحانی کیلئے آسان ہوگا۔ 
https://taghribnews.com/vdch66nim23n-wd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ