اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نکی ہیلی نے کہا
امریکی حکام کی جانب سے اعلی ایرانی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے لئے اعلان آمادگی کے باوجود اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نے دعوی کیا ہے کہ ان سے ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
شیئرینگ :
امریکی حکام کی جانب سے اعلی ایرانی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے لئے اعلان آمادگی کے باوجود اقوام متحدہ میں تعینات امریکی سفیر نے دعوی کیا ہے کہ ان سے ملاقات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں مستقل امریکی مندوب نکی ہیلی نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کو صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی دعوت دیئے جانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ایسا اسی وقت ہو سکتا جب دونوں طرف سے ایسا کرنے کے لیے سیاسی عزم پایا جاتا ہو۔
اس سے پہلے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اتوار کے روز کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور ایرانی دیگر عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تیرہ اگست کو عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے عظیم الشام اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں فرمایا تھا کہ مضبوط دلائل، ماضی کے تجربات اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بے تحاشہ نقصانات کو دیکھتے ہوئے، ہم ایک دھوکے باز اور منہ زور حکومت کے ساتھ ہرگز مذاکرات نہیں کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے پندرہ اگست کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے اپنے اقدامات کے ذریعے مذاکرات کے لیے لازمی ماحول کو نابود کر دیا ہے۔
صدر مملکت کا اشارہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی اور تہران کے خلاف پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی جانب تھا۔
دوسری جانب امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ترپن سابق عہدیداروں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ایران کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں اور ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے واشنگٹن کے لیے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
اس بیان پر دستخط کرنے والے سابق امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت امریکہ نے ایران سے اپنے مطالبات کے لیے سفارتی طریقوں کو نظر انداز کیا ہے۔
مذکورہ امریکی عہدیدروں کا کہنا ہے کہ حکومت امریکہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کے ذریعے ایران اور دیگر فریق ملکوں کے تعاون سے اس معاہدے کو بہتر بنانے کے لیے مذاکرات کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
طلبہ نے آسٹریلوی وزیراعظم کی اسرائیل اور غزہ کے بارے میں پالیسی کے خلاف نعرے بازی کی اور آسٹریلوی حکومت سے غزہ میں تشدد کی شدید مذمت کرنے کا مطالبہ کیا۔