تاریخ شائع کریں2021 6 April گھنٹہ 23:28
خبر کا کوڈ : 498971

کیا امریکہ افغاستان سے نکل جائے گا؟

افغانستان میں حالات آئے دن خراب ہوتے جارہے ہیں کیونکہ مذاکرات میں ملوث فریقین خود کو غالب رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ چار دہائیوں سے جاری اس جنگ کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔
کیا امریکہ افغاستان سے نکل جائے گا؟
بشکریہ: شفقنا اردو
 
ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہوگیا ہے جب گزشتہ برس فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے مابین دوحہ معاہدہ ہو جس میں دونوں طرف سے تشدد میں کمی لانے  اور اقتدار کے پرامن انتقال کے تاریخی بل پر دستخط ہوئے۔ تاہم 2020 کرونا وبا اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس معاہدے کے لیے ایک سست سال ثابت ہوا۔ افغان امن عمل یا دوسرے لفظوں میں بین الافغان مذاکرات دنیا کے لیے کوئی نیا عمل نہیں تھا اور یہ بالکل معمول کے مذاکرات کی طرح تھے خاص طور پر جب افغان حکومت کے نامزد نمائندگان اور طالبان کے مذاکرات کار بہ مشکل ایک ایک قدم آگے بڑھ رہے تھے۔

بلاشہ افغانستان میں حالات آئے دن خراب ہوتے جارہے ہیں کیونکہ مذاکرات میں ملوث فریقین خود کو غالب رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ چار دہائیوں سے جاری اس جنگ کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ افغان میں صحافیوں اور خاص طور پر خواتین صحافیوں اور سیاستدانوں  کے قتل کے واقعات میں اضافہ اور صوبائی دارالحکومتوں میں طالبان کا بڑھتا ہوا خطرہ افغانستانیوں کے لیے ایک بدقسمت حقیت بن چکے ہیں اگرچہ 2020 میں عام لوگوں کی اموات میں 15 فیصد کمی واقعہ ہوئی ہے مگر یہ سلسلہ مکمل طور پر رکا نہیں ہے۔ جیسے جیسے ہندو کش پر برف پگھلنے کا موسم شروع ہوگا طالبان کی جانب سے موسم بہار حملوں کے ایک اور راؤنڈ کا آغاز ہوجائے گا ۔ طالبان اس کو موسم بہار کا حملہ کہتے ہیں حالانکہ اس میں بہار جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بلکہ ان حملوں میں بڑے پیمانے پر بے گناہ جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔

دوحہ معاہدے کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ مئی 2021 تک افغانستان سے مکمل طور پر اپنی افواج کو نکال لے گا تاہم اس انخلاء کی پابندی تبھی ہوگی جب طالبان پرتشدد واقعات میں کمی لائیں گے اور امریکی افواج پر حملے نہیں کریں گے جبکہ افغان فوج پر بھی حملوں سے گریز کریں گے مگر طالبان نے ان معاہدوں کو بہت کم ہی پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور افغانستان میں اپنی پرتشدد کارروائیوں کو اسی طرح جاری رکھا ہے۔ تاہم درحقیقت طالبان کی مذاکرات کار ٹیم کے ایک رکن خیراللہ خیر خواہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان اشرف غنی کی حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور افغانستان میں حقیقی اسلامی حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔ اگرچہ گزشتہ برس بعض معاملات میں طالبان نے افغان حکومت کی مدد کی بھی ہے جیسا کہ کرونا وبا کے خلاف مہم میں حکومت کی مدد کی ہے۔ تاہم یہ مدد اس لیے بھی ضروری تھی کہ طالبان اس وبا سے خود کو بھی بچانا چاہتے تھے۔
جوبائیڈن کی آمد اور افغان امن معاہدہ 

جنوری 2021 میں ٹرمپ کی رخصتی کے بعد جوبائیڈن نے وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھا اور خارجہ پالیسی میں فوی اور بڑی تبدیلیاں لائیں ۔ اگرچہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بائیڈن نے افغانستان کے بارے میں زیادہ بات چیت نہیں کی تاہم افغانستان کا مسئلہ ان کے نزدیک انتہائی اہمیت کا ضرور تھا۔ یہ مسئلہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ کسی ملک کے لیے جنگ ناگزیر ہوجائے۔ ماضی طرح بائیڈن حکومت کو بھی یہ جنگ ورثے میں ملی  اور اس پر دلچسپ بات ی ہے کہ اس کو ایک ایسے معاہدے کو بھی آگے لے کر چلناپڑا جس کو وہ نہ تو نگل سکتا ہے اور نہ اگل سکتا ہے۔ نام نہ بتانے کی شرط پر ایک امریکی عہدیدار نے اس معاہدے کو گوبر کا سینڈوچ قرار دیا کیونکہ بائیڈن اور ان کی ٹیم یہ دیکھ رہی ہے کہ اگر یکم مئی اسے امریکہ نے انخلاء شروع کر دیا تو طالبان افغانستان پر مکمل طور پر قابض ہوجائیں گے۔

تاہم کسی فیصلے کی طرف جانے کی بجائے جو بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان کے مسئلے کو ایک جگہ پہ روک دیا ہے کیونکہ جیسے جیسے اںخلاء کو وقت قریب آرہا ہے  ویسے ویسے امریکہ کے پاس آپشنز کم ہوتے جارہے ہیں ۔ ان حالات میں امریکی وزیر جارجہ انٹنی بلنکن نے ایک آخری کوشش کے طور پر بین الافغان مذاکرات کو نئی قوت بخشنے کی کوشش کی تاکہ وہ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں جس سے امریکہ کو کم ازکم چین کا سانس نصیب ہوسکے گا کہ وہ بہتر طور پر ملک کا فیصلہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہمریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال اور طالبان کے مزید علاقوں پر قبضے کے خدشے کے پیشِ نظر بلنکن نے اشرف غنی سے کہا کہ “میں آپ پر اسی لیے واضح کر رہا ہوں شاید آپ کو میرے لہجے سے اندازہ ہو کہ ہمیں اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔”بلنکن نے خط میں مزید کہا ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ سے کہہ سکتا ہے کہ وہ روس، چین، پاکستان، ایران اور بھارت کے وزرائے خارجہ اور سفارت کاروں پر مشتمل ایک کانفرنس بلائے جو افغان امن عمل کے لیے متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر تبادلۂ خیال کریں۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ یہی وہ ممالک ہیں جنہیں افغان تنازع کے حل کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ “وہ ترکی سے بھی کہیں گے کہ آئندہ چند ہفتوں میں وہ طالبان اور افغان اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کانفرنس کی میزبانی کرے جس میں امن معاہدے کو حتمی شکل دی جائے۔ اور میں صدر غںی سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنا وفد یہاں بھیجیں۔”بلنکن نے کہا کہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ایک تجویز پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ طالبان کو موسمِ بہار میں حملوں سے روکا جا سکے۔ اس خفیہ خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کو افغان حکومت کو بالکل جگہ دینے پہ تیار نہیں کہ وہ افغان مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے ۔ درحقیقت اس خط میں امریکہ نے نہ صرف اشرف غنی پر غصے اظہار کیا ہے بلکہ اپنا فیصلہ بھی سنایا ہے۔
ماسکو میں ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ افغان کا امن عمل اور اقتدار کی منتقلی کو ابھی بات کرنا پسند کرنے سے لازما بات کرنے کے مراحل تک لانا ہوگا۔ بالفاظ دیگر افغانستان میں اس وقت بات چیت کی فضا مکمل طور پر تیار ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بات چیت کی جائے ۔ اس حوالے سے زلمے خلیل زاد مکمل تفصیل دنیا کو بتا چکے ہیں تاہم مستقبل قریب میں بات چیت کے لیے یہ تفصیل کافی نہیں ہے۔ اس بات سے قطع نظر کی خطی قوتیں افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتی ہیں اور کیا مشورہ دیتی ہیں ۔ افغانستان میں امن ان کی خواہش کے مطابق ہرگز نہیں چل سکتا کیونکہ یہ کام بنیادی طور پر طالبان، امریکہ اور افغان حکومت نے کرنا ہے۔ خطی کھلاڑی محض ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ اس لیے فی الوقت ایسا نہیں لگتا کہ موجودہ صورتحال کے پیشے نظر امریکہ افغانستان کو خیر باد کہہ سکتا ہے تاہم اب دیکھنا ہے کہ طالبان کا موسم بہار حملہ کیا رنگ لاتا ہے۔
https://taghribnews.com/vdchq6nkz23nwwd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ