تاریخ شائع کریں2021 6 May گھنٹہ 21:39
خبر کا کوڈ : 502804

'بیڈ بلاکنگ فراڈ' صرف سترہ مسلمانوں کو ہی نشانہ کیوں بنایا گیا؟

'بیڈ بلاکنگ' کہلانے والے کے اس مبینہ فراڈ کو حکمراں جماعت بی جے پی کے ارکان پارلیمان نے سامنے لانے کی بات کہی ہے، جس کے بعد سات افراد کو گرفتار کیا گیا یے۔ تاہم اس معاملے نے ایک مذہبی رنگ اختیار کر لیا ہے۔
انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں کورونا وائرس کے مریضوں کو بیڈ دلانے کے ایک مبینہ فراڈ کے سکینڈل نے اس وقت ایک مذہبی رنگ اختیار کر لیا جب بینگلورو ساؤتھ کے رکن پارلیمان اور بی جےپی کی یوتھ ونگ بھارتیہ جنتا یووا مورچا کے قومی سربراہ تیجسوی سوریا نے بظاہر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے سترہ نوجوانوں کو بنا کسی ثبوت نشانہ بنایا۔

'بیڈ بلاکنگ' کہلانے والے کے اس مبینہ فراڈ کو حکمراں جماعت بی جے پی کے ارکان پارلیمان نے سامنے لانے کی بات کہی ہے، جس کے بعد سات افراد کو گرفتار کیا گیا یے۔ تاہم اس معاملے نے ایک مذہبی رنگ اختیار کر لیا ہے۔

سیاستدانوں کی ایک ٹیم نے کرناٹک کے دارالحکومت بینگلورو میں کووڈ کے مریضوں کی سہولت کے لیے بنائے گئے بینگلورو ساؤتھ وار روم میں بیڈ بیچنے کے معاملے کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا کہا تھا۔

اس ٹیم کی قیادت بینگلورو ساؤتھ کے رکن پارلیمان اور بی جےپی کی یوتھ ونگ بھارتیہ جنتا یووا مورچا کے قومی سربراہ تیجسوی سوریا کر رہے تھے۔

تیجسوی سوریا نے کیا کہا

سوریا نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے ان مریضوں سے بات کی ہے جن کے نام پر بیڈ بک کیے گئے تھے اور پھر پیسے لے کر کسی اور کو بیچ دیے گئے۔ مدد مانگنے والوں کو بیڈ فراہم کرنا وار رومز کی ذمہ داری ہے۔

ایک کیس میں بنا علامات والے ایک کووڈ مریض کو گھر پر ہی علیحدہ رہنے کے لیے کہا گیا تھا اور بینگلورو مہانگر پالیکا (بی بی ایم پی) کے ڈاکٹر ان کی حالت پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

اس مریض کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آنے کے دس دن بعد ان کے نام پر ایک بیڈ کسی دوسرے مریض کو دے دیا گیا تھا۔ سوریا کا دعویٰ ہے کہ آدھی رات کو خالی ہونے والے بیڈ کو بھی دو منٹ کے اندر کسی اور مریض کو دے دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں، 'ایک مریض اس جگہ پر تیس سیکنڈ کے اندر کیسے پہنچ سکتا ہے۔ میری جماعت اقتدار میں ضرور ہے لیکن جب اس سطح پر بدعنوانی ہو رہی ہو اور ہلاکتیں ہو رہی ہوں تو ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔'

ریاست میں اپنی حکومت کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ بی ایس یےدییورپا نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔

مذہبی تعصب کا رنگ کہاں سے آیا؟

منگل کو پریس کانفرنس کرنے سے پہلے سوریا اور ریاستی اسمبلی کے کچھ دیگر ارکان نے وار روم کا دورا کیا اور اس تنازع پر وہاں کے حکام سے بات کی۔ سوریا کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں سوریا حکام سے بات چیت کے دوران بینگلورو ساؤتھ کے وار روم میں کام کرنے والے سترہ اہلکاروں کا نام لیتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد سوریا سوال کرتے ہیں کہ ان کو کس طرح تعینات کیا گیا ہے؟

تیجسوی سوریا نے جو نام پڑھے تھے وہ تمام نام مسلم تھے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر کافی تنقید ہونے لگی کہ وہ ’بیڈ سکینڈل‘ میں وار روم میں کام کرنے والے افراد کا نام لے کر اس معاملے کو مذہبی رنگ دے رہے ہیں۔

حکام کے مطابق وار روم میں مجموعی طور پر 206 افراد کام کرتے ہیں جو کووڈ مریضوں کو بیڈ اور ضروری اشیا دلاتے ہیں۔

کرناٹک کے کانگریس رہنما شریوتس وائیبی نے ٹویٹ کیا 'بینگلورو ساؤتھ زون کووڈ وار روم میں 206 افراد کام کرتے ہیں۔ تیجسوی سوریا نے صرف 17 کا نام لیا اور بیڈ گھوٹالے کے بارے میں بات کی۔‘

انھوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ’بی جے پی کے وزیر اعلیٰ، اراکین پارلیمان جن کے تحت بی بی ایم سی اور پوری ریاست ہے، وہ اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں، لیکن کال سینٹر میں کام کرنے والے 17 لڑکے ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی کی جنونیت کی سطح یہ ہے۔

کال سینٹر کے لڑکوں کا کیا کہنا ہے؟

ان سترہ میں سے ایک لڑکے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی ہندی سے بات کی۔ انھوں نے کہا، 'سر، ہم لوگ بےحد نچلی سطح پر کام کرتے ہیں۔ ہم یہ طے نہیں کرتے کہ کسے بیڈ ملنا چاہیے یا کسے نہیں۔ ہم وہی کرتے ہیں جو شفٹ پر موجود ڈاکٹر ہم سے کرنے کو کہتے ہیں۔'

'ہم کال ریسیو کرتے ہیں اور ڈاکٹر کو بتاتے ہیں اور پھر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کس کے لیے بیڈ بک کرنا ہے۔ ہم ان کے احکامات کو پورا کرتے ہیں۔'

مسلسل اس گزارش کے ساتھ کہ ان کا نام منظر عام پر نہیں آنا چاہیے انہوں نے کہا، 'ہم کو ایک نجی کمپنی نے کام پر رکھا تھا اور کہا تھا کہ ہمیں وار روم میں کام کرنا ہے۔ ہمیں دو ماہ بعد پہلی بار 12,000 روپے ملے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اور ان کے ساتھیوں کو پولیس تھانے بلایا گیا تھا لیکن ان سے پوچھ گچھ نہیں کی گئی، تاہم منگل کی شام کو کچھ دیگر اہلکاروں سے پوچھ گچھ ضرور کی گئی، لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھے۔

چار لوگوں کی گرفتاری

بینگلورو پولیس کمشنر کمل پنت نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ 'ہم نے چار لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سے دو، نیتراوتی اور روہت کمار کو منگل کی رات کو گرفتار کیا گیا تھا اور باقی دو کو آج گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے نام ریحان اور ستیش ہیں۔'

گرفتار کیے گئے افراد اس برادری سے نہیں ہیں جن کا نام بی جے پی کے ایم پی نے اپنی لسٹ میں پڑھا تھا۔

کانگریس کے رکن ریاستی اسمبلی رضوان ارشد نے ٹویٹ کرتے ہوئے سوریا پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے لکھا، 'کوئی شرم ہے تیجسوی سوریا۔ اگر آپ اور بی جے پی سرکار مدد نہیں کر سکتے، تو کم سے کم اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مذہبی منافرت کا زہر تو نہ پھیلاؤ۔ کرونالوجی ۔۔ وار روم میں 212 لوگ کام کرتے ہیں، تیجسوی اوران کا گینگ 17 مسلم نام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ لسٹ مدرسے سے ہے۔'

بی بی سی ہندی نے تیجسوی سوریا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کے دفتر کے تین اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کے باوجود ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم دیہی ترقی اور پنچایت کے ریاستی وزیر کے ایس ایشوراپا نے صحافیوں کو بتایا کہ بینگلورو میں 'بیڈ بلاکنگ' کے پیچھے 'ایک مسلم گروہ' کا ہاتھ ہے اور سرکار اس میں شامل افراد کے خلاف کارروائی کرے گی۔
https://taghribnews.com/vdciuraw5t1auv2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ