تاریخ شائع کریں2017 22 May گھنٹہ 14:04
خبر کا کوڈ : 268846

کیا وحی کی سرزمین پر حکمرانی کے یہی تقاضے ہیں؟

دنیا دیکھ رہی ہے پڑوسی یمن کے مظلوم مسلمانوں کا دو سال سے کس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے، جبکہ فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کیساتھ آل سعود کی دوستی
دنیا دیکھ رہی ہے پڑوسی یمن کے مظلوم مسلمانوں کا دو سال سے کس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے، جبکہ فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کیساتھ آل سعود کی دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں
کیا وحی کی سرزمین پر حکمرانی کے یہی تقاضے ہیں؟
تحریر: نصرت شاہانی
بشکریہ اسلام ٹائمز


اللہ تعالٰی کے حکم سے حجاز کی مقدس سرزمین پر محسن انسانیت (ص) نے اپنے اہلبیت و جانثار صحابہ کرام کیساتھ سخت ترین مصائب و آلام جھیل کر اسلامی حکومت قائم کی۔ یہ حکومت محدود زمانے اور فقط حجاز کیلئے نہ تھی بلکہ اس کا مقصد اللہ کی پوری زمین پر تاقیامت اسلام کے نجات دہندہ نظام کو نافذ کرنا تھا۔ حضور کے وصال کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں اسی نظام اور فکر کا تسلسل رہا، یہاں تک کہ حضرت مولانا مودودی کی تعبیر کے مطابق خلافت ”ملوکیت“ میں تبدیل ہوگئی۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قرآن کی اس مقدس سرزمین پر قرآن کا نظام تو درکنار، نام بھی صاحب قرآن یا اہلبیت و صحابہ سے منسوب کرنے کی بجائے شخصی بادشاہت کے بانی”سعود“ کے نام پر ”سعودی“ عرب رکھ دیا گیا۔ اتنا فہم و ادراک تو جوش ملیح آبادی جیسے رند کو بھی تھا، جن کا یہ سادہ سوال اپنے اندر معانی کا ایک جہان رکھتا ہے:
اسلام کا شاہی سے تعلق کیا ہے؟
کیا رسول اکرم (ص) اور اہلبیت و صحابہ کی قربانیاں اس خاندان کی موروثی شہنشاہیت کیلئے تھیں؟ کیا حکمران شاہی خاندان کا رہن، سہن، رفتار و کردار ان پاک ہستیوں کی سیرت کے مطابق ہے؟ اسی سرزمین سے نبیء رحمت نے اعلان فرمایا کہ کسی ذی روح حتٰی کہ درخت کی ٹہنی کو بھی بلا وجہ نہ مسلا جائے، مگر دنیا دیکھ رہی ہے پڑوسی یمن کے مظلوم مسلمانوں کا دو سال سے کس طرح قتل عام کیا جا رہا ہے، جبکہ فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کیساتھ آل سعود کی دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

محض سیاسی اختلاف کی بنا پر اپنے بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، وطن عزیز پاکستان اور دیگر ممالک میں مذہب کے نام پر دہشتگرد تنظیموں کی مبینہ بالواسطہ، بلاواسطہ سرپرستی اس مقدس سرزمین پر حکمرانی کے تقاضوں کے صریح منافی نہیں۔؟ قومی دولت سے آل سعود نے اپنے لئے تو محلات پر محلات تعمیر کئے، لیکن کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے 1925ء میں مدینہ منورہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع کو تاراج کرتے ہوئے جگر گوشہء رسول فاطمة الزہرا، امہات المومنین اور صحابہ کرام کے مزارات منہدم کئے۔ اس ظلم عظیم کے باوجود ”خدمت حرمین“ کا دعویٰ سمجھ سے بالاتر ہے! اسی سرزمین پر بانی شریعت (ص) نے قیامت تک کے حلال و حرام بیان فرما دیئے۔ 20 مئی 2017ء کو چشم فلک نے ”خادم حرمین“ کو سرعام امریکی خاتون اول سے مصافحہ کرکے احکام قرآن کی دھجیاں اڑاتے دیکھا۔ چند ماہ قبل پاکستان کے وجود کے دشمن اور لاکھوں کشمیریوں کے قاتل نریندر مودی کو اعلٰی ترین سعودی اعزاز سے نوازنے کے بعد اب ”خادم حرمین“ نے فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے سرپرست امریکی صدر کو بھی اسی اعزاز سے نواز کر ارض مقدس کی حکمرانی کے تقاضے ایک بار پھر پورے کئے۔

آل سعود کی امریکہ سے شرمناک دوستی کے ایک مظاہرہ سے تو غیور مسلمان چونک گئے تھے، جب اسی سال فروری میں بدنام زمانہ سی آئی اے نے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو دہشتگردی کے خلاف خدمات انجام دینے پر میڈل سے نوازا۔ قومی دولت سے خریدا جانیوالا امریکی اسلحہ اسرائیل یا بھارت نہیں بلکہ یمن کے مظلوم ہمسایہ مسلمانوں کے قتل عام میں استعمال ہوگا۔ کسی اہل دانش نے بجا طور پر سوال کیا ہے کہ کیا ہمارے ہر دلعزیز سابق آرمی چیف کے 34 ملکی فوجی اتحاد کی سربراہ بننے کا کوئی فائدہ کشمیر یا فلسطین کو بھی پہنچے گا؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے سعودی عرب کے حالیہ دورہ میں اس سوال کا جواب ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcdoj0x9yt09j6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ