تاریخ شائع کریں2016 4 July گھنٹہ 15:30
خبر کا کوڈ : 237201

فلسفہ عید

فلسفہ عید
عید کا مادہ عود سے ہے جس کے معنی پلٹنے کے ہیں یعنی جب کسی قوم یا قبیلے کی مشکلات دور ہوجاتی ہیں تو وہ اپنی اصل حالت کی طرف پلٹتے ہیں تو ان ایام کو عید کہتے ہیں،رمضان المبارک کے روزوں ،عبادات سے انسان کی روح فکری طور پر پاکیزگی کی طرف پلٹتی ہے ،یہی عید الفطر کا خوش کا پہلو اور اس کا مفہوم عید ہے، عیدواقعی خوشی کے مفہوم میں آتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی صورت میں دو عیدیں مسلمانوں کو دے کر انہیں اپنی طرف سے ایک انعام بخشا ہے،دونوں عیدوں کے اندر اللہ نے خوشی کا ایک ہی فلسفہ پوشیدہ رکھا ہے اور وہ تقویٰ الٰہی اور بند گان خدا کا خیال رکھنا ہے،عیدالفطر رمضان کے اختتام پر روزہ داروں کو ان کے روزوں کی قبولیت اور اس صالح عمل پر شوال کے پہلے دن کو عید قرار دیا ہے اور فطرہ کی شکل میں زکوۃ فرض کر کے بندگان خدا کا خیال رکھنے کا بھی ایک عنصر رکھا ہے ،اسی طرح عیدالاضحیٰ میں اللہ کی راہ میں قربانی کے جذبے اور پھر لوگوں میں اس گوشت کو تقسیم کرنے کا پہلو رکھ کر تقویٰ الٰہی اور مخلوق خدا کی خیر خواہی کا پہلو نمایاں کیا ہے،رمضان المبارک میں جب انسان عبادت خدا تقویٰ الٰہی اور خوف خدامیں سرشار رہ کر یہ ایک مہینہ بسر کرتا ہے توجو اس کے اندر روحانی تازگی اور فکری شگفتگی کا احساس پیدا ہوتا ہے ،در اصل وہی اس عید کی خوشی کا حقیقی مفہوم ہے جیسا کہ امیرالمومنینؑ کا فرمان ہے کہ مومن کے لئے ہر وہ دن عید کا ہے جس دن وہ اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہے ،خوشی ایک لطیف جذبے کا نام ہے جب انسان کی تمام تر ترجیحات مادی ہوں گی تو اس کی خوشی کا معیار یہی ہوگا کہ وہ اچھے کپڑے پہن کر خوش ہوگا ،اچھی گاڑی میں سفر کرکے خوش ہوگا ،اچھا کھانا کھا کر خوش ہوگا لیکن اگر انسان کی ترجیحات زندگی معنوی ہوجائیں تو پھر اس کی خوشی کا معیار بھی بدل جائے گا پھر اسے اللہ کی عبادت میں خوشی محسوس ہوگی ،بندگان خدا کےلئے احسان کرنے میں خوشی محسوس ہوگی اور خود کو گناہوں سے پاک رکھنے میں وہ اپنے اندر ایک باطنی خوشی کا احساس کرے گا،جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ لفظ عید عود ۳سے بنا ہےجس کے معنی لوٹنے اور بار بار آنے کے ہیں چونکہ یہ پر مسرت دن ہر بار لوٹ کر آتا ہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیغام لے کر آتا ہے اس لئے اس دن کو عید کا نام دیا گیا ہے،جیسا کہ سورہ مائدہ آیت ۱۴ میں ذکر ہے کہ !ترجمہ: حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ نے عرض کیا اے اللہ ہم سب کو پالنے والے ہم پر خوان اتار آسمان سے کہ وہ دن ہمارے پہلوئوں اور پچھلوں کے لئے عید بنے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہترین رزق عطا کرنے والاہے۔اس آیہ مبارکہ میں عید سے مراد مسرت اور خوشی کا دن ہے۔جب انسان اشرف المخلوقات ہے تو پھر اس کی خوشی میں بھی شرف کے تقاضوں کی جھلک محسوس ہونی چاہیے ایک انسان کی حقیقی خوشی اس امرمیں ہے کہ اس کے وجود کے باعث دوسرے انسانوں کو خوشیاں میسر ہو رہی ہوں، وہ معاشرے کےلئے ننگ و آر نہ بنے اور نہ ہی لوگوں کے لئے اذیت اور تکلیف کا باعث قرار پائے ،عید الفطر میں جو فطرہ کا تصور ہے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ دوسروں کو عطا کر کے خوشی محسوس کرو اور دوسروں کا پیٹ بھر کر اپنے دل میں خوشی کا احساس پیدا کرو،آج ہماری خوشیوں کا معیار بدل گیا ہے جب عید آتی ہے تو وہ لوگ زیادہ خوش خو ش دکھائی دیتے ہیں ،جنہوں نے رمضان المبارک میں نہ روزے رکھے اور نہ ہی عبادات بجالائیں،ان لوگوں کو عید کی خوشی سے زیادہ بڑی خوشی رمضان کے رخصت ہو جانے کی ہوتی ہے کہ اب وہ آزادی سے کھائیں پیئیں گے،جبکہ عید جن لوگوں کے اللہ کی طرف سے پیغام خوشی ہے وہ رمضان المبارک کے رخصت ہونے پر غم زدہ اور رنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے لئے عید ایک خوشی کا دن ہے۔یہ عید کا دن ہمیں اندر کی منافقتوں کا ختم کرنے اور باہمی رنجشیں دور کرنے کا درس دیتا ہے اور معاشرے کے پسماندہ اور مسضعف طبقات کی خوشیوں کا خیال رکھنے کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول کرتا ہے۔
سبطین شیرازی
https://taghribnews.com/vdce7f8wzjh8xwi.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ