تاریخ شائع کریں2017 29 May گھنٹہ 12:14
خبر کا کوڈ : 269594

شیطان بزرگ، سعودی سلطنت اور ناجائز صہیونی ریاست کا دفاع

سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے والا سب سے اہم ملک امریکہ ہے، جس نے گذشتہ چند سالوں کے دوران سعودی عرب کو ایف 15 لڑاکا طیاروں اور کنٹرو
دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب اور اس تیل کے سب سے بڑے خریدار امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنے پہلے دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کیا تھا، جہاں صدر ٹرمپ نے عرب اسلامک امیریکن اجلاس میں شرکت کی۔
شیطان بزرگ، سعودی سلطنت اور ناجائز صہیونی ریاست کا دفاع
اسرائیل اور امریکہ کیخلاف ایران کی جارحانہ پالیسی کے خلاف خطے کے ممالک کی قیادت کرنے کا تاثر دینے کے باوجود سعودی عرب حالات کو اپنے حق میں سازگار کرنے میں ناکام رہا۔ چند سال قبل امریکہ کی سعودی سلامتی کے حوالے سے کم ہوتی دلچسپی سے خوف زدہ ہوکر سعودی عرب نے نیا دفاعی ڈاکٹرین اپنایا، بش کی حکومت کے خاتمے کے بعد سعودی عرب نے ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ مصر میں جنوری 2011ء کے انقلاب کے دوران سابق صدر اوباما نے حسنی مبارک کا ساتھ نہیں دیا تھا، سابق صدر اوباما نے شام کے تنازعہ میں میں براہ راست امریکی مداخلت کی مخالفت کی اور زور دیا کہ سعودی عرب کو اصل خطرہ داخلی محاذ پر ہے، جس کے بعد سعودیوں کی نظر میں امریکہ ناقابل اعتبار ہی نہیں بلکہ ایران کے حق میں جھکاؤ رکھنے والا ملک بن گیا۔ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے والا سب سے اہم ملک امریکہ ہے، جس نے گذشتہ چند سالوں کے دوران سعودی عرب کو ایف 15 لڑاکا طیاروں اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم سمیت اربوں ڈالر کا دفاعی ساز و سامان فراہم کیا ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ دورہ کے دوران سعودیہ امریکہ سے 120 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ بھی کرچکا ہے۔

دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب اور اس تیل کے سب سے بڑے خریدار امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنے پہلے دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کیا تھا، جہاں صدر ٹرمپ نے عرب اسلامک امیریکن اجلاس میں شرکت کی۔ سعودی عرب میں ریاض سمٹ میں شرکت سے قبل اپنے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سچ بات یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ سے اچھے طریقے سے پیش نہیں آرہا کیونکہ ہم سعودی سلطنت کے دفاع کے لئے بھاری رقم کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب سے قبل اپنی مہم کے دوران بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔ انہوں نے وسکونسن میں صدارتی مہم کے دوران کہا تھا کہ کوئی بھی سعودی عرب سے نہیں الجھ سکتا، کیونکہ ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمیں اس کی مناسب قیمت نہیں چُکا رہا اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ لیکن سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اسی طرح کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب بطور اتحادی اپنی ضروریات خود پوری کر رہا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس 70 سالہ اتحاد کی سب سے اہم بات تیل کے بدلے سکیورٹی کی فراہمی رہی ہے۔

تاہم اس عرصے میں دونوں ممالک کے روابط میں اتار چڑھاؤ آیا۔ برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے اپنی پہلی تیل مراعات کے حوالے سے معاہدہ 1933ء میں امریکی کمپنی سٹینڈرڈ آئل کمپنی کے ساتھ کیا۔ پانچ سال بعد سعودی عرب کے مشرقی علاقے دمام سے تیل کے ذخائر برآمد ہوئے۔ 1944ء میں عریبیئن امیریکن آئل کمپنی (ارامکو) قائم کی گئی، جو 1952ء تک نیو یارک میں واقع رہی۔ سعودی حکومت نے 1980ء میں اس کمپنی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے اسٹریٹجک روابط ماڈرن سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے زمانے سے ہیں، جب وہ امریکی صدر فینکلن روزوولٹ سے 1945ء میں امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ملے۔ سوئز کنال میں ہونے والی اس ملاقات میں دو اہم امور پر بات ہوئی۔ ایک فلسطین میں یہودی ملک کا قیام اور دوسرا سعودی امریکی معاہدہ، جس کے تحت امریکہ سعودی عرب کو سکیورٹی فراہم کرے گا اور بدلے میں سعودی تیل تک امریکہ کو رسائی دی جائے گی۔ 1973ء کی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ میں اوپیک نے ان ملکوں کو تیل فراہم کرنے پر پابندی عائد کر دی، جنہوں نے اسرائیل کی حمایت کی۔ ان ممالک میں امریکہ بھی شامل تھا۔

اس پابندی نے امریکہ اور عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ 1979ء میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا، جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مجاہدین کی فوج تیار کی گئی۔ اس فوج کی تیاری میں امریکہ کا ساتھ دیا سعودی عرب اور پاکستان نے۔ اس فوج میں ہزاروں سُنی جنگجو شریک ہوئے بشمول اسامہ بن لادن جو بعد میں القاعدہ کے سربراہ بھی بنے۔ 1991ء میں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کے لئے امریکہ نے سعودی عرب فوج بھیجی۔ چند سخت موقف رکھنے والی سعودی مذہبی شخصیات نے سعودی عرب میں امریکی فوج کی تعیناتی کی مذمت کی۔ امریکی فوج کا سعودی عرب سے انخلا 2003ء میں ہوا، جب عراقی صدر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا گیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے روابط مزید مضبوط ہوئے اور سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سعودی عرب امریکہ سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات 11 ستمبر 2001ء میں امریکہ پر حملے کے بعد خراب ہوئے، جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جن 19 ہائی جیکروں نے جہاز ہائی جیک کئے تھے، ان میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔

2003ء میں سعودی عرب نے امریکہ کی جانب سے عراقی صدر صدام حسین کو ہٹانے کے فیصلے کی مخالفت کی۔ اسی لئے سعودی عرب امریکی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ سعودی عرب کا کہنا تھا کہ صدام حسین کو ہٹائے جانے سے عراق فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ 2015ء میں امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے پر سعودی عرب کو احساس ہوا کہ اس کو دھتکارا گیا ہے۔ سعودی عرب نے دیگر تیل سے مالا مال سُنی عرب ملکوں کے ساتھ مل کر جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اس نے بحرین میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لئے فوج بھیجی، مصر میں عبدالفتح السیسی کی جانب سے حکومت الٹنے کی حمایت کی اور یمن میں جاری خانہ جنگی میں اپنی فوج کو اتارا۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ایک بیان میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو پیچیدہ قرار دیا۔ ستمبر 2016ء میں امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا، جس کے تحت ستمبر 11 کے حملوں میں ملوث ہونے پر سعودی عرب پر امریکی شہری مقدمہ دائر کرسکتے ہیں۔ اس بل کو رکوانے کے لئے وائٹ ہاؤس اور سعودی عرب نے بے حد کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ سعودی عرب نے یہاں تک کہا کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو سعودی عرب امریکہ میں اپنی سرمایہ کاری ختم کر دے گا۔

2017ء میں صدر ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ ان کے نزدیک ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ اوباما کی ایران کے حق میں پالیسی خاص طور پر ایران سے نیوکلیائی معاہدے کے بعد سعودیہ اور اس کے اتحادی اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر امریکہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نہیں روکنا چاہتا تو یہ کام اپنی طاقت کے بل پر خود کرنا ہوگا، یہ کئی برس بعد سعودی عرب کی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی تھی، پہلے سعودیوں کو یقین تھا کہ وہ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی انتظامیہ کے وقت میں سعودی عرب کی سلامتی کے حوالے سے کئے جانے والے امریکی وعدوں پر اعتبار کرسکتے ہیں، پرانی امریکی پالیسی کا تعلق سعودی عرب کی تیل کی دولت سے تھا، سعودی عرب نے اپنی تیل کی پالیسی کو امریکیوں کے حق میں رکھا، جس سے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کو بہت فائدہ ہوا، اس زمانے میں بھی سعودی عرب نے اپنی سکیورٹی پر کافی خرچ کیا مگر وہ کوئی مضبوط فوجی طاقت نہیں بن سکا، سعودی لمبے عرصے تک مہنگے امریکی اسلحے کے خریدار رہے۔

سعودی عرب نے تیل کی سیاست کے ذریعے مخالفوں کو خلیج فارس سے دور رکھا اور اپنے ملک کا استحکام یقینی بنایا، سعودی عرب کی مغرب نواز پالیسی کو ہمیشہ کارآمد نہیں رہنا تھا، سعودی عرب کی قیادت کے لئے امریکہ سے تعلقات رکھنا پیچیدہ عمل تھا، یہ اسی طرح تھا جیسے عراقی آمر صدام حسین کے سعودی عرب سے تعلقات تھے، جب تک صدام حسین ایران سے جنگ کرتا رہا، سعودی عرب اس کی مدد کرتا رہا، لیکن جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو دھمکایا تو امریکہ نے سعودیوں کی مدد کی۔ موجودہ حالات میں لگتا ہے کہ شام میں اسد حکومت قائم رہی گی اور یہ تہران کی بہت بڑی اسٹریٹجک فتح ہوگی۔ سعودی عرب نے یمن کے معاملے کو بھی خطے میں جاری ایران کے ساتھ کشمکش کے تناظر میں دیکھا، ریاض اپنے پڑوس میں ایک نئی حزب اللہ کو قبول نہیں کرسکتا تھا، جس سے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہوا اور ایران کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہو جائے، اس لئے سعودی فضائیہ اپنے ایف۔15 طیاروں کے ساتھ یمن جنگ میں شامل ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق یمن جنگ کے اخراجات 200 ارب ڈالر ہیں جبکہ سعودی عرب نے اپنے جنگی اخراجات کی مالیت کم ظاہر کی ہے، یمن میں مداخلت کے نتیجے میں سعودی عرب کے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا۔

حوثی مجاہدین ایران کے مزید قریب ہوگئے، یمن تنازعے نے سعودی عرب کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا، یمن میں سعودی عرب کی کارکردگی سے کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی۔ سعودی عرب کو حوثیوں کی جانب سے 1930ء سے مزاحمت کا سامنا ہے، 2015ء کے فوجی آپریشن سے قبل سعودی عرب 2009ء میں بھی حوثی مجاہدین سے لڑنے کے لئے زمینی فوج یمن بھیج چکا تھا، یہ ایک مختصر تصادم تھا، جس میں شکست کے بعد سعودیوں کو یمن سے فوج واپس بلانا پڑی، مگر انہوں نے فیصلہ کیا کہ بعد میں اس شکست کا بدلہ لیا جائے گا۔ سعودی عرب کے اہم اتحادی عرب امارات کو ریاض کی طرح خلیج فارس کے مغربی حصے میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ پر شدید تشویش ہے، مگر عرب امارات نے یمن میں بھی سعودیوں کا ساتھ دیا، کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ اتحادیوں کے بغیر سعودی جنگ ہار جائیں گے۔ یمن پر حملے سے ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان کو سمجھنا بھی بہت اہم ہے، سعودی عرب خطے کے سب سے غریب ترین ملک پر 2 سال سے بغیر کسی تفریق کے اندھا دھند بمباری کر رہا ہے، اسی لئے دسمبر 2016ء میں اوباما انتظامیہ نے سعودی عرب کو مزید بم اور گولہ بارود فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اس سے قبل بھی شہری ہلاکتوں پر اوباما انتظامیہ نے سعودی عرب کو کلسٹر بم کی فراہمی روک دی تھی، مگر کانگریس نے اسلحہ کی فراہمی کو بحال کر دیا تھا، سعودی عرب نے یمن کی تعمیر نو کے لئے 10 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر یہ انسانی المیے کے مقابلے میں بہت معمولی رقم ہے، جس کا مکمل ذمہ دار ریاض ہے۔

اس ساری صورتحال میں میڈیا بھی یمن کے تنازعے کو بھول چکا ہے اور اس کی ساری توجہ شام کے انسانی المیے پر ہے۔ سعودی عرب کا خطے میں ایک فعال اور جارحانہ فوجی طاقت ہونے کا تاثر دینے کا تجربہ ناکام رہا، سعودی عرب کی مسلح افواج پیچیدہ ملٹری آپریشنز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہیں، اسی لئے حال ہی میں جب سعودی عرب نے شام میں زمینی فوج تعینات کرنے کے لئے رضامندی کا اعلان کیا تو اسے ایک مذاق کے طور پر لیا گیا، سعودیوں کا علاقے میں سرگرم دیگر قوتوں سے کوئی مقابلہ نہیں، بیروت سے قاہرہ اور قاہرہ سے دوحہ تک، سعودی عرب کی خطے میں سیاسی ماحول کو حق میں کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں رہی ہیں، ہر موڑ پر ان کو مزاحمت اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ کے اہم اتحادی اور سعودیہ کے دیرینہ دوست ملک پاکستان کی مسلح افواج کے سابق چیف کو ریاض کا خاص مہمان بنانے کے باوجود شاہ سلمان یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ سعودی سلطنت عیاش عرب شہزادوں کے ہاتھ لگا کھلونا نہیں۔ ریاض سمٹ میں ایران کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، لیکن مجموعی طور پر ٹرمپ کے وزٹ کا زیادہ فائدہ ایران کو ہوا۔ پاکستان سمیت پورے خطے میں عوامی اور سیاسی سطح پر یہ رائے زیادہ گہری ہوئی ہے کہ سعودی سلطنت حرمین شریفین کا نام استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل کے دفاع میں مصروف ہے۔
https://taghribnews.com/vdceoo8wejh8pni.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ