اس وقت عالمی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور سعودی عرب امریکہ کی خارجہ سیاست میں اپنی اہمیت اور مقام کھوتا جا رہا ہے۔ امریکہ نے چین مخالف پالیسیاں اپنا رکھی ہیں جبکہ کرونا وائرس کے عالمی پھیلاو نے بھی حالات تبدیل کر دیے ہیں
شیئرینگ :
تحریر: سید نعمت اللہ
گذشتہ ہفتے خام تیل کی عالمی مارکیٹ میں ایک انہونا واقعہ رونما ہوا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ امریکہ میں خام تیل کی قیمت کی بنیاد فراہم کرنے والی کمپنی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے خام تیل کی قیمت اچانک شدید انداز میں گرنا شروع ہو گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گذشتہ ایک صدی میں اس کمپنی کی خام تیل کی قیمت نہ صرف فی بیرل صفر ڈالر ہو گئی بلکہ منفی 39 ڈالر تک جا پہنچی۔ تیل کی قیمت میں اس قدر شدید گراوٹ سب کیلئے انتہائی غیر متوقع تھی۔ بعض اقتصادی ماہرین کی جانب سے اس تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ صورتحال مزید کچھ مدت کیلئے جاری رہی تو امریکہ کی اکثر تیل تلاش کرنے اور پیدا کرنے والی کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ یہی وجہ تھی جس کے پیش نظر امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیو مینوچین نے انرجی کے شعبے سے متعلق حصص خریدنے پر زور دیا تھا۔ ان کا مقصد ملک کو درپیش حالیہ بحران سے نجات دلانا تھی۔ یاد رہے امریکہ میں خام تیل کے ذخائر سے تیل نکالنے کے اخراجات معمول سے زیادہ ہیں جس کے باعث عالمی سطح پر تیل کی قیمت گرنے سے امریکہ کی تیل کی صنعت شدید متاثر ہو جاتی ہے۔
دوسری طرف گذشتہ 75 برس سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان جاری اسٹریٹجک تعاون بھی توجہ کا مرکز بن رہا ہے کیونکہ اس تعاون کی بنیاد بھی خام تیل پر استوار تھی اور اب تیل کی قیمت میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ اس اسٹریٹجک تعاون میں بھی کچھ انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ فارن پالیسی نامی میگزین میں دو محققین کیٹ جانسن اور رابی گریمر نے مشترکہ طور پر ایک تحقیقاتی مقالہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ اور سعودی عرب میں جاری اسٹریٹجک تعاون کے ممکنہ خاتمے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کا آغاز فروری 1945ء میں ہوا۔ اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام سے پانچ ماہ قبل 14 فروری 1945ء کے دن سویز کینال میں یو ایس ایس کوینسی نامی امریکی بحری بیڑے پر سعودی فرمانروا ملک عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ امریکہ سعودی عرب کی قومی سلامتی کو یقینی بنائے گا جبکہ سعودی عرب امریکہ کو اپنے تیل کے ذخائر تک رسائی فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ درحقیقت خام تیل کے قدرتی ذخائر کے بدلے قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا معاہدہ تھا۔
اس کے بعد 1970ء میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دور میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک اور اہم معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی رو سے سعودی عرب اس بات کا پابند ہو گیا کہ وہ اپنا خام تیل صرف اور صرف ڈالر کے بدلے فروخت کرے گا اور امریکہ بھی سعودی عرب کی فوجی امداد کرے گا۔ اس معاہدے کے بعد سیاسیات سے مربوط حلقوں میں پیٹرو ڈالرز (Petro Dollars) کی اصطلاح رائج ہو گئی تھی اور اس معاہدے کے نتیجے میں خام تیل کی عالمی مارکیٹ پر ڈالر کی حکمرانی کا آغاز ہو گیا۔ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب کے ان اسٹریٹجک تعلقات کو جس مشکل کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ 1945ء معاہدے کی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں۔ کیٹ جانسن اور رابی گریمر نے اپنے مقالے میں کہا ہے کہ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب میں جو تعلقات قائم ہیں وہ صرف اور صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی رجحانات کے باعث ہیں اور اگر فروری میں انجام پانے والے نئے صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن جیت جاتے ہیں تو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں اہم اور بنیادی تبدیلی کا امکان بڑھ جائے گا۔
اس وقت عالمی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور سعودی عرب امریکہ کی خارجہ سیاست میں اپنی اہمیت اور مقام کھوتا جا رہا ہے۔ امریکہ نے چین مخالف پالیسیاں اپنا رکھی ہیں جبکہ کرونا وائرس کے عالمی پھیلاو نے بھی حالات تبدیل کر دیے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی توقع کی جا رہی ہے جن میں سے ایک 1945ء میں منعقد ہونے والے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کا خاتمہ ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اب اپنی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کے کردار کو اس قدر اہم نہیں سمجھتا کہ اس کی حفاظت سودمند ثابت ہو۔ دوسری طرف گذشتہ دو سال کے دوران واشنگٹن میں سعودیہ مخالف موقف کو تقویت ملی ہے۔ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس سے وابستہ اراکین کانگریس نے کھل کر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران، روس اور چین کے خلاف بے جا اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں اب خام تیل کی عالمی مارکیٹ پر ڈالر کی حکمرانی بھی ختم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے 1970ء کا امریکہ سعودی عرب معاہدہ بھی کمزور ہو چکا ہے۔ لہذا یوں دکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان طویل شادی کے بعد طلاق ہونے والی ہے۔