ڈاکٹر شہید پیشہ کی لحاظ سے طب سے وابستہ تھے۔ ان کی ایک پہچان تنظمی، تحریکی، مجاہد اور مبارز کی ہے، لیکن ایک مشن جو انہوں نے اپنے لیے چنا، وہ ملت کے لیے تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دینا تھا۔
شیئرینگ :
تحریر: نثار علی ترمزی
بشکریہ:اسلام ٹائمز
شہید نے ہر دو حوالے سے خدمات انجام دیں ہیں، روحانی فلاح و مادی فلاح۔ یہاں شہید کے ایک پہلو کا تذکرہ مقصود ہے۔ آپ بنیادی طور پر ڈاکٹر تھے تو خدمات کا ایک دائرہ اس نسبت سے سامنے آتا ہے۔ آپ ہر جگہ جہاں ایک تنظیمی رہنماء تھے، وہاں ایک مسیحا بھی تھے۔ آپ جہاں جاتے تو لوگ آپ کے اس ہنر سے بھی خوب استفادہ کرتے۔ یہ فیض ملک اور بیرون ملک میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ یہ سہولت فون پر بھی میسر تھی۔ احباب اپنے مریض کو کسی ڈاکٹر کو دکھانے سے قبل یا آپریشن کروانے سے قبل آپ سے مشورہ کرنا ضروری خیال کرتے۔ اپناہیت کی وجہ سے ہفتہ کے سات دن اور دن کے چوبیس گھنٹے رابطہ کرتے رہتے تھے۔ آپ کے توسط سے معالج کا تعین، دوائی کا انتخاب وغیرہ بھی شامل ہیں۔
لاہور میں آپ کی موجودگی براہ راست علاج کے لیے بالمشافہ ملاقات، تنظیمی دفتر کے ساتھ ساتھ کلینک، ہسپتال غرضیکہ ہر جگہ مسیحائی جاری تھی۔ آپ کی تشخیص بہت اعلیٰ تھی اور اس کی شہرت دور دور تک تھی۔ لوگ دیگر ڈاکٹرز کے علاج سے اس وقت تک مطمئن نہ ہوتے، جب تک شہید سے تصدیق نہ کروا لیتے۔ آپ کی کلینک پر بیشتر مریض نسخہ لکھوا کر واجبی سی فیس جو کہ پہلے تیس روپے تھی، بعد میں پچاس تھی، ادا کرتے تھے، وہ بھی کم ہی وصول کی جاتی۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ آپ ماتمی جلوس میں گیے تو وہاں شدید زخمیوں کی مرہم پٹی کردی۔ حالات کے مطابق گھروں میں جا کر بھی مریض دیکھتے تھے۔ بعض نے بتایا کہ شہید کئی کئی سال متواتر ان کے مریض کو دیکھنے گھر آتے رہے۔ یہ بلا تخصیص مذہب و ملت فلاحی کام جاری تھا۔
جب امداد فاونڈیشن بنائی تو اس کا ایک ہدف صحت کا میدان بھی تھا۔ اس کے لیے جنرل (ر) سہیل عباس جعفری، سابقہ چیئرمین کی خدمات حاصل کیں تھیں۔ جعفری صاحب کے ساتھ لاہور کے بڑے فلاحی اداروں کا وزٹ کیا۔ صحت کے حوالے سے پہلا تصور فری ڈسپنسری کا آتا ہے، مگر اس حوالے سے جب شہید سے تذکرہ کیا تو انہوں نے اسے رد کیا کہ "یہ آسان طریقہ ہے کہ پہلے انتظار کریں کہ کوئی پہلے بیمار ہو، پھر ہم اس کا علاج کریں۔ اس سے زیادہ بہتر اور پائیدار طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ان طریقوں کی طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ کم سے کم بیمار ہوں۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر ہیپا ٹائیٹس کی ویکسین لگوا دی جائے تو وہ اس علاج سے بہت سستی ہے، جو اس مرض کے علاج پر خرچ آتا ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ آپ نے کوئی فری ڈسپنسری بنائی ہو۔
جماعت اسلامی کے ایک سکالر، ڈپٹی ڈائریکٹر ریسریچ، ادارہ معارف اسلامی منصورہ لاہور، جناب ڈاکٹر پروفیسر ظفر حجازی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ان کا سسرال بسطامی روڈ لاہور پر ہے اور ڈاکٹر صاحب کے عزیزوں کا گھر ان کے سسرال کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہر ہفتہ انہیں ملنے آیا کرتے تھے۔ ان کا جوان سال سالا ایف ایس سی میں پڑھ رہا تھا کہ شدید بیمار ہوگیا۔ جوں جوں علاج ہوتا گیا، وہ کمزور سے کمزور ہوتا گیا۔ ایک دن وہ اپنے صحن میں کھڑا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی نظر اس پر پڑ گئی۔ آپ نے آواز دے کر پوچھا کہ اے جوان تم بیمار لگ رہے ہو۔ اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے کہا کہ کیا میں اندر آکر تمہیں چیک کرسکتا ہوں تو اس نے آمادگی کا اظہار کیا۔ یوں ڈاکٹر صاحب نے اس کا علاج شروع کر دیا، جو شہادت تک جاری رہا۔ آپ ریگولر اسے دیکھنے آتے۔
حجازی صاحب کہتے ہیں کہ مریض تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، یہ واحد ڈاکٹر ہے، جو خود چل کر مریض تک آیا۔ شہادت پر یہ ایک وفد کی صورت میں تعزیت کے لیے آئے۔ سال گذشتہ شہید کی برسی کے موقع پر حجازی صاحب نے پیغام بھی ریکارڈ کروایا، جو نشر بھی ہوا۔ اختلاف کے باوجود شہید امامیہ آرگنائزیشن کے ذیلی ادارے امامیہ میڈیکل کونسل سے وابستہ تھے بلکہ فعال رکن تھے۔ میٹنگز میں جاتے اور میڈیکل کیمپس میں شرکت کرتے تھے۔ جب تحریک نے شعبہ جاتی تنظیمیں بنائیں تو ڈاکٹرز کی تنظیم بنانے کی تجویز تھی، مگر شہید نے ہمیشہ اسے رد کیا اور کہتے تھے کہ امامیہ میڈیکل کونسل کی موجودگی میں کسی اور ادارے کی ضرورت نہیں۔
لاہور میں دو افراد نے دو ہسپتال کی بلڈنگز بنائیں، ایک منشی ہسپتال بند روڈ پر دوسرا ثریا عظیم ہسپتال، چوبرجی۔ انہوں نے اسے چلانے کے لیے مختلف شخصیات سے رابطہ کیا، جن میں شہید بھی تھے۔ آپ نے دونوں ہسپتالوں کی فیزبیلٹی چیک کی، مگر اپنا نہ سکے۔ ہوسکتا ہے کہ وسائل کی کمی وجہ بنی ہو۔ بعد میں اول الذکر حکومت پنجاب نے لے لیا اور دوسرا جماعت اسلامی نے حاصل کیا۔ آپ نے فاطمید فاونڈیشن کی برانچ لاہور میں قائم کرنے میں مکمل تعاون کیا۔ اسی طرح زینبیہ فری ہسپتال ملتان روڈ لاہور کا آغاز آپ کے دم قدم سے ہوا اور اسے فنگشنل کیا۔
شہید کالاباغ کے قریب افغان مہاجرین کیمپ میں ہلال احمر کی طرف سے قائم ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ ایک آپ کی لاہور سے مستقل غیر حاضری بہت سے معاملات میں سست روی کا باعث بن رہی تھی۔ دوسرے ہر ہفتہ آنا جانا پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔ ایک مرتبہ شدید حادثہ پیش آیا۔ گاڑی الٹ گئی اور آپ زخمی بھی ہوئے۔ جب بہت ہی اصرار بڑھا تو مجھے کہنے لگے کہ میں تو روزگار کی وجہ سے وہاں ملازمت کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر اتنی تنخواہ پر لاہور میں ملازمت مل جائے تو میں لاہور آنے کو تیار ہوں۔ ان دنوں ارشاد علی شاہ صاحب مرحوم، بانی زینبیہ کمپلیکس سے اچھی یاد اللہ تھی، اسے قائل کیا تو وہ شہید کو ہسپتال میں ملازمت دینے پر تیار ہوگیا۔
شہید وہاں چھ ہزار ماہانہ تنخواہ لے رہے تھے تو ہم نے اسے قائل کیا کہ وہ سات ہزار روپے تنخواہ دے گا۔ جب شہید سے ملاقات کی تو شاہ صاحب نے تنخواہ کے بارے میں کہا تو جواب میں شہید نے کہا کیونکہ یہ ٹرسٹ کا ہسپتال ہے، اس لیے وہ چھ ہزار ہی تنخواہ لیں گے۔ جب ملاقات کے بعد باہر نکلے تو ہم نے شہید سے ناراضگی کا اظہار کیا کہ اسے مشکل سے زیادہ تنخواہ پر قائل کیا، مگر آپ نے کمی کیوں کی تو وہ کہنے لگے کہ میرا گزارہ اسی تنخواہ میں ہو جاتا ہے، میں کیوں زیادہ تنخواہ لوں۔
ڈاکٹر شہید پیشہ کی لحاظ سے طب سے وابستہ تھے۔ ان کی ایک پہچان تنظمی، تحریکی، مجاہد اور مبارز کی ہے، لیکن ایک مشن جو انہوں نے اپنے لیے چنا، وہ ملت کے لیے تعلیم کے میدان میں خدمات انجام دینا تھا۔ آپ نے جو تنظیم بنائی، وہ تعلیم سے وابستہ لوگوں پر مشتمل تھی، یعنی طلبہ۔ اس تنظیم کی ابتدائی سرگرمیاں دیکھیں تو تعلیم ہی محور تھا۔ پہلی عبوری کابینہ میں ایک عہدہ سیکریٹری لائبریری تھا، جسے بعد میں بدل کرکے سیکریٹری تعلیم کر دیا گیا۔ اس دور میں ہر یونٹ میں لائیبریری کا ہونا ضروری تھا۔ مستحق طلبہ کے بک بنک اور سکالر شپ، کوچنگ سنٹر کا قیام شامل تھا۔ کوچنگ سنٹر میں سینیئر طلبہ جونئیر طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ مختلف مضامین کے نوٹس کا تبادلہ کیا جاتا۔ اس دور میں آئی ایس او کی پہچان اس کا اعلیٰ تعلیمی معیار تھا۔ شہید خود مختلف دروس میں کہا کرتے تھے کہ تعلیم کو ترجیح حاصل ہونی چاہیئے۔ اگر کوئی تعلیم میں پیچھے رہ جاتا ہے، وہ دراصل اپنا، اپنے والدین کا، اپنی تنظیم کا سب کا نقصان کرتا ہے۔
آپ نے 1986ء میں اسلامک ایجوکیشنل کونسل بطور این جی او رجسٹرڈ کروائی۔ اس کے زیراہتمام لاہور میں المصطفیٰ ماڈل سکول کا آغاز کیا۔ اس سکول کی متواتر سرپرستی کرتے رہے۔ اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے آپ نے براہ راست سکول قائم کرنے کی بجائے خواہش مند افراد کی معاونت کی کہ وہ اپنے علاقوں میں سکولز قائم کریں۔ اس طرح کوئی چالیس کے قریب سکولز قائم ہوئے۔ کالا باغ میں ملازمت کے دوران ماڑی انڈس میں "انڈس ماڈل سکول" قائم کیا، جو الحمد اللہ اب یونیورسٹی بن گیا ہے۔ یہ علاقہ میں ایک بہتریں تعلیمی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے اپنی ویب سائیٹ پر بانی ڈاکٹر شہید کا نام اور تصویر لگائی ہوئی ہے۔
آخری برسوں میں جب امداد فاونڈیشن قائم کی تو اس کا مرکزی نکتہ تعلیم تھا، جسے خود شہید دیکھ رہے تھے۔ کئی دوستوں کو آپ نے اس شامل کیا۔ بہت سے پراجیکٹس زیر غور تھے، کچھ لانچنگ کے قریب تھے۔ جس جگہ لاہور میں اب قومی مرکز ہے، یہاں ایک پرانی کوٹھی تھی، جسے شہید نے شیخ برادری سے حاصل کر لیا تھا اور اس کی ضروری تزئین و آرائیش کروا لی تھی۔ یہاں ایک اعلیٰ سطح کی اکیڈمی قائم کرنے کا پروگرام تھا۔ اشتہار چھپ چکے تھے اور پندرہ مارچ 1995ء کو آغاز ہونا تھا، مگر آپ سات مارچ 1995ء کو شہید کر دیئے گیے۔ امداد فاونڈیشن کے تین حصے تھے۔
(1) تعلیم، یہ براہ راست شہید کے زیر نگرانی تھا۔
(2) صحت، اسے جنرل (ر) سہیل عباس جعفری دیکھ رہے تھے۔
(3) ملی ادارے، یہ ذمہ داری باکمال شفقت، شہید نے بندہ ناچیز کے سپرد کی تھی۔
ملی اداروں میں بلا تفریق نظریہ و گروپ، جو بھی ملت کی جس انداز میں خدمت کر رہا ہے، اسے سپورٹ کیا جائے۔ اس میں سب سے پہلے ہفت روزہ رضاکار کے حوالے سے کام شروع کیا۔ جب ان سے دریافت کیا کہ ان کے کیا مسائل ہیں، جو رضاکار کی ترویج و ترقی میں روکاوٹ ہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کی تنخوائیں بہت کم ہیں۔ دفتر میں ریکارڈ رکھنے کی جگہ کم ہے۔ اس کے حل کے طور پر فی الفور سب کی تنخوائیں دگنیں کر دیں گئیں، اس شرط کے ساتھ کہ رضاکار کی ممبر شپ دگنی کریں گے۔ اس کے علاوہ ان کے دفتر میں لکڑی کا کام کروا کر ریکارڈ رکھنے جگہ میں اضافہ کیا گیا۔ رضاکار کے ریکارڈ کو جلد کروا دیا گیا۔ اسی دوران ایک دن شہید نے غصہ میں میری ٹیبل کے قریب آکر کہا "دیکھا! انہوں نے کیا کیا۔" میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ کس نے کیا اور کیا کیا۔ فرمایا "رات رضاکار کے افراد کی میٹنگ ہوئی اور اس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر کے پاس اب کوئی کام نہیں رہا، اب یہ اداروں پر قبضہ کرنے چلے ہیں۔" اس پر ظاہر ہے کہ دکھ اور افسوس کے کیا کہا جاسکتا تھا۔
جعفریہ ویلفیئر فنڈ، جو نظام مالیات کا نظام سید اعجاز علی شاہ مرحوم کے جذبے سے چل رہا تھا، ان کے نمائندگان اضلاع سے ہر ماہ کی ایک تاریخ کو لاہور آتے تھے، حساب دینے، تنخواہ لینے اور کارگزاری سنانے۔ ان کے اس وقت کو استعمال کرنے کے لیے ان کی تربیت کا انتظام کیا گیا۔ ان کے لیے اسٹیٹ لائف انشورنس کے نمائندگان کی طرز پر مختلف لیکچرز کا بندوبست کیا گیا۔ پاک پولی ٹیکنیک کالج سے تعاون کیا گیا۔ سات لاکھ کا چیک دیا گیا، جو بندہ ناچیز ڈاکٹر جعفر مرحوم کو دے کر آیا۔ نیز معروف مخیر حسین نقوی کو اس ٹرسٹ کا رکن بنوایا، جس نے پچاس لاکھ ڈونیشن اور اتنی ہی رقم بطور قرض اس ادارے کو دی۔ اس ادارے نے یادگار کے طور ہر اپنے ایک ہال کو شہید کے نام سے منسوب کیا ہے۔
اسلامک ایمپلائز ویلفئیر آرگنائزیشن کا ایک تربیتی کیمپ مدرسہ مظہر الایمان ڈھڈیال چکوال میں منعقد ہوا۔ شہید نے مہربانی فرمائی کہ اس میں شریک ہوئے۔ مدرسہ کا نظم و نسق اور تزئین دیکھ شہید بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ان سے پوچھیں کہ کسی چیز کی ضرورت ہے۔ میں نے مولانا محی الدین کاظم صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا یہاں بجلی کا بہت مسئلہ ہے، اس کے لیے ایک بڑا جنریٹر درکار ہے، جو چالیس ہزار روپے کا آتا ہے۔ شہید نے مجھے کہا کہ آپ نے لاہور جا کر فوراً یہ چیک بھجوانا ہے۔ لاہور جا کر اور مصروفیت کی وجہ چیک فورآً نہ بھجوا سکا۔ تیسرے دن شہید نے پوچھا کہ چیک بھجوا دیا ہے؟ تو نہ بھجوانے پر سخت ناراض ہوئے اور کہا تم نکمے ہو، اتنا کام بھی نہیں کرسکے۔ معذرت کی اور فوراً چیک بھجوا دیا۔ انہوں نے بھی اپنے ایک ہال کو شہید کے نام سے منسوب کیا ہے۔
لاہور کی پانچ بڑی لائبریریز کا جائزہ لیا گیا کہ ان میں شیعہ نمائندہ کتب نہیں ہیں۔ اس کے لیے ضروری دستیاب کتب کی ایک فہرست تیار کی گئی۔ یہ فہرست ان لائیبریریز کو بھجوائیں۔ جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ کتب ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔ تجربے کے لیے ایک ہزار روپے کی پچیس کتب پنجاب پبلک لائبریری کو عطیہ کی گئیں۔ انہوں نے شکریہ کا خط لکھا اور بعدازاں چیک کیا گیا تو یہ کتب کیٹلاگ میں شامل ہوگئیں ہیں۔ تجویز ہوا کہ بارہ ہزار روپے کا ایک کتابوں کا سیٹ ہر لائبریری کو دیا جائے۔ اس کی ایک مفصل رپورٹ تیار کرکے علامہ ساجد علی نقوی کو پیش کی گئی، مگر تاحال اس پر کچھ نہ ہوا۔ خدمت کا ایک پہلو اور ہے۔ ملک بھر سے بالعموم اور پنجاب سے باالخصوص جو بھی کسی کام کے سلسلہ میں لاہور آتا تو اسے امید ہوتی کہ وہ شہید سے ملے گا تو وہ اس کے مسئلہ کا حل تلاش کر لیں گے۔ یہ چھوٹے مسئلہ سے لے کر بڑے گھمبیر مسائل تک محیط ہے۔ اس کے لیے کم ہی ایسا ہوا کہ آپ نے مایوس کیا ہو۔
ایک دن وقفہ کے دوران دفتر سے دیو سماج آیا تو دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان شہید کے ساتھ محو گفتگو ہے۔ آپ نے مجھے دیکھتے ہی کہا لو جن کا میں ذکر کر رہا تھا، وہ خود چل کر آگئے۔ میں نے ہاتھ ملایا تو کہنے لگے کہ یہ قیصر عباس سیال ہیں، آپ کے ضلع جھنگ سے ہیں، فیصل آباد کے میڈیکل کالج میں پڑھتے ہیں، ان کو ایک مسئلہ درپیش ہے، اس کا حل کرنا ہے۔ سیال صاحب جھنگ کا سن کر کِھل اٹھے۔ اپنی مخصوص جھنگوچی زبان میں ہم کلام ہونے لگے کہ جھنگ کے ترمزیوں سے آپ کا کیا تعلق ہے۔؟ جب میں نے ان سے اپنی عزیزداری بتائی تو لگے ان کے قصے سننانے۔ سیال صاحب نے اپنا بتایا کہ دوران امتحان ہنگامہ ہوگیا اور سزا کے طور پر حکومت نے دو سال کے لیے پابندی لگا دی ہے، وہ اس ضمن میں اپیل کرنے آئے ہیں، سفارش کی تلاش میں ہیں۔
ڈاکٹر شہید نے سیال صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا کہ تم نے ضرور ہنگاموں میں حصہ لیا ہوگا، تبھی تو سزا ہوئی ہے۔ سیال صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ میں نے فقط تالیاں بجائیں تھیں، سزا زیادہ ملی۔ اس پر خوب قہقہ لگا۔ میں نے مسئلہ کی نوعیت کے مطابق مشورہ دیا کہ یہ مسئلہ فقط دفتری طریقہ کار سے حل نہیں ہوگا بلکہ کسی سیاسی حکومتی سطح کی سفارش کی ضرورت ہے۔ شہید نے فرمایا کہ انہوں نے اس کے لیے حیدر علی مرزا سے رابطہ کیا ہے، وہ آنے ہی والے ہوں گے۔ یوں ڈاکٹر قیصر عباس سیال شہید کا مرزا صاحب سے رابطہ ہوگیا، وہ شہید ڈاکٹر قیصر عباس سیال کا اتنا گرویدہ ہوگیا کہ وہ اس کے قریبی لوگوں میں شمار ہونے لگے، شہید سیال کے توسط سے ناجانے کتنے لوگوں کے بگڑے ہوئے کام سنورے۔
اسی طرح کراچی سے اسلامک ایمپلائز کے ایک عہدیدار لاہور آئے کہ ان کی ملازمت میں کوئی مسئلہ ہوگیا تھا۔ اگر ڈاکٹر صاحب ریلوے کے آفیسر سے مل کر سفارش کر دیں تو اس کا کام ہو جائے گا۔ میں نے یہ ذکر شہید سے کیا تو فوراً آمادہ ہوگئے اور کہا کہ وہ کل دو بجے آجائے تو میں اس کے ساتھ چلا جاوں گا۔ اگلے دن شام کو شہید نے بتایا کہ تمہارے کہنے پر میں نے جا کر ریلوے کے آفیسر کو کہہ آیا تھا، مگر وہ میرا تو واقف نہیں تھا۔ شہید نے اپنے تئیں ایک ضرورت مند کی داد رسی تو کر دی۔ بہرحال اس کا کام ہوگیا۔ شہید (رح) کے فلاحی کاموں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بہت سے افراد آپ سے درس لیتے ہوئے آپ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، جن میں ایک مثال محمد علی ویلفیئر ایسوسی ایشن MAWA کی ہے، جو اب محتاج تعارف نہیں ہے۔ شہید (رح) کا وجود باعث خیر تھا تو آپ کی یادیں بھی خیر و نیکی کے کاموں میں تحرک کا سبب ہیں۔