انتخابات میں حصہ لے کر عوام نے دشمن کو پورے طور سے مایوس کر دیا
ہادی محمدی نے مزید کہا کہ اس بار ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے اپنا ووٹ عین اس وقت بیلٹ بکس کے اندر ڈالا جس وقت سپاہ قدس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کو شہید کیا گیا، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی عوام بدستور دشمن کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
شیئرینگ :
المیادین نے برطانیہ اور فرانس کے سفارتخانوں میں انتخابات2021 کو ناکام بنانے کے لئے تین اجلاسوں کے انعقاد کا انکشاف کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدراتی انتخابات کے بارے میں المیادین ٹی وی چینل کے ایک خصوصی ٹاک شو میں ایران کے سینئر تجزيہ کار ہادی محمدی نے اس سوال کے جواب میں کہ رہبر انقلاب اسلامی نے کس بنیاد پر عوام کو فاتح انتخابات قرار دیا ہے؟ کہا کہ ان انتخابات کے پہلو اس سے کہیں زیادہ عمیق ہیں جو نظر آرہے ہيں، ان میں سے ایک اسلامی و انقلابی اقدار کی طرف واپسی ہے، ایرانی عوام نے ہمیشہ اپنے قائد اور رہبر کی اطاعت کی ہے اور اس بار بھی انتخابات میں حصہ لے کر دشمن کو پورے طور سے مایوس کر دیا ہے۔
ہادی محمدی نے مزید کہا کہ اس بار ایک خاتون نے بتایا کہ اس نے اپنا ووٹ عین اس وقت بیلٹ بکس کے اندر ڈالا جس وقت سپاہ قدس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کو شہید کیا گیا، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی عوام بدستور دشمن کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
ہادی محمدی نے کہا کہ میں اس چيز کو اسلامی انقلاب کی حیات نو کا مظہر سمجھتا ہوں جو سید ابراہیم رئیسی کی شکل میں جلوہ افروز ہوا ہے، یہ انقلاب اور انقلابی قدروں کی نئی حیات ہے، چنانچہ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی ان انتخابات اور ان حالات میں عوام کی مشارکت کو ایک بڑا کارنامہ قرار دیا ہے۔
لندن سے اس پروگروام کے دوسرے مہمان اور عالم عرب کے معروف تجزیہ کار عبد الباری العطوان نے ان انتخابات کو مرکزی اہمیت کا حامل قرار دیا اور کہا اگر آپ ان انتخابات کی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو دیکھیں کہ نوک پیکان (تیر کا رخ) کس طرف ہے، دیکھیں کہ اسرائیلی کیا کہہ رہے ہيں، وہ ڈر اور خوف کے عالم میں اپنے فوری اور ابتدائی رد عمل ميں رئیسی صاحب کو "انتہاپسند" کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھائيں گے۔
عبد الباری العطوان نے کہا کہ یہ اسرائیلیوں کا پہلا ردعمل تھا، میں سمجھتا ہوں کہ صدر حسن روحانی کی صدارت کے دو ادوار بعد کہ جنہیں اعتدال پسند اور اصلاح طلب کے نام سے پکارا جاتا تھا، سید ابراہیم رئیسی کا صدر منتخب ہوجانا، اسلامی انقلاب کے ابتدائی دور میں واپسی اور ان امور پر توجہ دیئے جانے کے مترادف ہے کہ جن کو حل کرنے میں اصلاح پسند حکومت ناکام رہی خاص طور پر معاشی مسائل میں کامیابی حاصل نہيں کر سکی۔
عبدالباری العطوان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایران پابندیوں کے مرحلے یا اصلاح پسندوں کے صدارتی دور سے باہر آگیا ہے اور اب حالات اپنے معمول پر آگئے ہیں اور ایٹمی معاہدہ موجود نہیں ہے، البتہ یورپ اور امریکہ اس فکر میں ہیں کہ سید ابراہیم رئيسی کے باضابطہ طور سے عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے ہی جامع ایٹمی معاہدے کو بحال کر دیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سینئرتجزيہ کار ہادی محمدی نے کہا کہ انتخابات سے قبل اور انتخابات کے دوران دشمن نے کیسے کیسے منصوبے بنائے اور اپنی پروپگںڈا مشینری کے ذریعے کیسی کیسی سازشیں کیں ہیں، یہ چيزيں ہمارے عوام پر آشکار نہیں ہوئی ہیں، عوام کو نہیں معلوم کہ کس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں، دشمن کے ان منصوبوں کے پہلو کافی گہرے اور عمیق ہیں، ان کا اصول پسندوں اور اصلاح پسندوں کی انتخاباتی مقابلہ آرائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ جونہی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان ہوا روس کے صدر ولادیمیر پوتین اور بہت سے دوسرے سربراہوں نے مبارکباد کا پیغام ارسال کر دیا، جبکہ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ سب سے پہلے روسی صدر ولادیمیر پوتین نے پیغام ارسال کیا، اس سے ان انتخابات کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہيں، صرف یہ انتخابات اسرائیلیوں کے خوف و ہراس کا سبب نہیں بنے ہیں، ابھی اکتوبر میں عراق میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں، آپ غزہ کے واقعات اور شام کے انتخابات کے بھی شاہد ہیں، انہوں نے ایک قومی، مضبوط اور صابر قیادت کا انتخاب کیا جو عالمی سامراج اور بین الاقوامی دہشت گردوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔
ہادی محمدی نے، صوبہ سیستان و بلوچستان کی طرح غربت سے دوچار دیگر مقامات پر انتخابی ٹرن آؤٹ بہت زيادہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دشمن نے وطن عزیز کے لئے جو پلاننگ اور منصوبہ بندی کی تھی وہ سیستان و بلوچستان سے بھی بڑھ کر جنوبی ایران بلکہ پورے ملک کے لئے تھی، انہوں نے حتی اس کی بھی پلاننگ کرلی تھی کہ رہبر کے جانشین کے طور پر سیکولر اور اعتدال پسندوں کے ذریعے کس کو سامنے لایا جائے گا۔
عالمی امور کے ایرانی مبصر کا کہنا تھا کہ یہ انگریزوں اور اسرائیلیوں کا کام ہے جس کی پلاننگ تہران میں واقع برطانیہ اور فرانس کے سفارتخانے میں کی گئی۔ ہادی محمدی نے مزید کہا کہ حالیہ صدارتی انتخابات سے تین ماہ قبل دونوں ملکوں کے سفارتخانوں ميں 2012 کے انتخابات کے دوران انجام دی جانے والی روش اور حکمت عملی کو وضع کرنے کے لئے عرب، اسلامی اور مغربی ملکوں کے 20 نمائندوں کی شرکت سے تین اجلاس منعقد ہوئے، جن کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ سڑکوں اور گلی کوچوں میں ہنگامہ آرائی اور ملک کو عدم استحکام کی صورتحال سے دوچار کیا جائے، برطانیہ اور فرانس کے سفارتخانوں میں تین اجلاس ہوئے جن کے بارے میں ہم سب کچھ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیستان و بلوچستان کے حوالے سے دشمن کا ایک بڑا حربہ شیعہ سنی کے درمیان اختلافات ڈال کر ملک کا بٹوارہ کرنا ہے۔