ایک طرف ملکی آمدنی میں شدید کمی، دوسری طرف بڑے بڑے منصوبوں کی بندش کے اعلانات، تیسری طرف عالمی اداروں سے قرض لینے کا اعلان اور چوتھی طرف امریکہ کی بدلتی آنکھیں، یہ سب حقائق اسی مخدوش مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں
شیئرینگ :
تحریر: ثاقب اکبر
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2017ء میں سعودی عرب کی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا اور مہنگا منصوبہ پیش کیا، جس کا عنوان وژن 2030ء رکھا گیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ یہ پراجیکٹ جدید معیارات کے مطابق اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا شاہکار ہوگا۔ اس کے ذریعے سعودی عرب کی آمدنی کا تیل پر انحصار ختم کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت بحیرہ احمر کے کنارے 12 شہروں کو بسایا جانا ہے، اسے نیوم پراجیکٹ کہتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق گذشتہ تین برسوں میں اس علاقے میں عوام کے چار ہزار کے قریب گھر گرائے گئے ہیں اور شاہی محلات کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے۔ منصوبے کے مطابق شاہی محلات تئیس لاکھ پچاس ہزار مربع میٹر رقبے پر تعمیر ہو رہے ہیں۔ ان کے گرد چوبیس بڑے پلازے شاہی گارڈز اور محلات میں کام کرنے والے سٹاف کے لیے ہیں۔ ان عمارتوں کو انڈر گرائونڈ ٹنلز کے ذریعے آپس میں ملایا جانا ہے۔ علاقے میں دس ہیلی پیڈ بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔ البتہ ابھی تک شاہی محلات اور ایک چھوٹے ہوائی اڈے کے علاوہ وہاں کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔
الجزیرہ ٹی وی نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی تصاویر کی بنیاد پر کہا ہے کہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی ولی عہد کے پراجیکٹ نیوم میں اپنے پروگرام کے مطابق پیش رفت نہیں کی اور ابھی تک ہونے والا کام قابل ذکر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ نیوم پراجیکٹ پر پانچ سو ارب ڈالر خرچ کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ڈائچے ویلے کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بن سلمان کا خواب یہ تھا کہ سعودیہ مشرق وسطیٰ میں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا مرکز بن جائے، لیکن چار بنیادی وجوہات کی بنیاد پر یہ ایک سراب بنتا دکھائی دیتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے محمد بن سلمان کے اقتدار کی مضبوطی کا خواب بکھرتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جوان سعودی شہزادہ چار سال بعد ہی اپنے آپ کو اب صرف ایک خواب کے سامنے پاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی صورت حال 180 درجے تبدیل ہوگئی ہے۔ بن سلمان نے جو یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ سعودی معیشت کو ڈیجیٹل کر دیں گے، آج شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں کہ جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ تیل کی قیمتوں میں شدید کمی، کرونا کا پھیلائو اور شاہی خاندان کے اندر اقتدار کی رسہ کشی ان مشکلات کے بنیادی اسباب ہیں۔ رپورٹ میں سعودی عرب کی مالی مشکلات کا ایک سبب یمن پر مسلط کی گئی جنگ کو بھی قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بجٹ کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب نے فی بیرل تیل کی قیمت 85 ڈالر پیش نظر رکھی تھی، جبکہ وہ نہ فقط تیل کی قیمت اور فروخت میں شدید کمی سے دوچار ہے بلکہ حج و عمرہ جو اس کی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ تھا، آج وہ بھی بند ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جاری بجٹ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عالمی اداروں سے 58 ارب ڈالر قرض لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رواں سال میں سعودی بجٹ خسارہ 112 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ایک طرف سعودیہ کی تکلیف دہ اقتصادی صورت حال ہے اور دوسری طرف متعدد شہزادوں اور سعودی تاجروں کی بن سلمان کے حکم پر گرفتاری۔ اس کا مقصد شاہ سلمان کی جانشنی کے راستے میں حائل ہر طرح کی رکاوٹ کو دور کر دینا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق اس سے ولی عہد محمد بن سلمان کی حیثیت شاہی خاندان میں مزید کمزور پڑ گئی ہے۔ ڈائچے ویلی نے اپنی مذکورہ رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ ان تمام اقتصادی اور داخلی بحرانوں کے ساتھ یمن کے خلاف جاری جنگ اور ایران کے خلاف مسلسل نبردآزمائی نے بھی اسے کمزور کر دیا ہے۔
رپورٹ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے کہ سعودی عرب کے جوان شہزادے نے ایران اور قطر کے خلاف سیاست کا راستہ اپنا رکھا ہے لیکن یمن کے خلاف جنگ نے ریاض کا چہرہ سب سے زیادہ مخدوش کر دیا ہے۔ یقینی طور پر یمن میں اس کی مداخلت شکست کھا چکی ہے، لیکن یہاں سے عقب نشینی بھی اس کے لیے آسان نہیں ہے، کیونکہ اس سے سعودی عرب کی آبرو جاتی ہے۔ برطانوی روزنامہ گارڈین نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ نیوم پراجیکٹ شہر نیو یارک سے 33 گنا بڑے رقبے پر مکمل ہونا ہے۔ اس کے 16 حصے بحیرہ احمر کے ساحلوں کے پاس بسائے جائیں گے۔ یہ علاقہ تبوک کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ محمد بن سلمان کے بقول یہ پراجیکٹ سعودیوں کے تیل پر انحصار کا خاتمہ کر دے گا۔ بہرحال اس پراجیکٹ کی تکمیل کا انحصار تیل کی دولت پر ہی ہے، جو اب بہت نچلی سطح پر آچکی ہے۔ رپورٹ میں انسانی حقوق کی کارکن ایک سعودی خاتون علیاء الحویطی سے کی گئی گفتگو کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ نیوم کو بسانے کے لیے الحویطات قبیلے کے بیس ہزار افراد کو اس علاقے سے دربدر کیا جانا ہے۔
یہ قبائل قدیم زمانے سے اس خطے میں آباد ہیں اور ان کے درمیان اس وقت شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ قبیلے کے ایک سرکردہ شخص کو سعودی پولیس نے قتل کر دیا ہے، اس کا نام عبدالرحیم الحویطی ہے، جسے 13 اپریل کو قتل کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قتل شہزادہ بن سلمان کے ایماء پر کیا گیا ہے۔ شہزادہ بن سلمان کے اس منصوبے پر ماہرین دیگر پہلوئوں سے بھی تنقید کر رہے ہیں۔ حقوق انسانی کے ایک کارکن جاش کوپر کا کہنا ہے کہ یہ امر بالکل واضح ہے کہ نیوم زیادہ تر ایک بے ہودہ منصوبہ ہے، جس کا مقصد سعودیہ کو ایک جدید اور کھلا ملک ظاہر کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ سعودی عرب اقتصادی اور سماجی لحاظ سے آزاد ہے اور اس کا مقصد داخلی اور خارجی طور پر سرمایہ داروں کو اپنی طرف کھینچنا ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں علاقے کی موثر قوتوں کو اس میں کوئی کردار نہیں دیا جا رہا اور انہیں اس کے مستقبل میں کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری طرف تیل کے مسئلے پر سعودی عرب اور امریکہ کے مابین اختلافات اب کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ فرانسیسی اخبار لوفیگارو نے لکھا ہے کہ محمد بن سلمان نے عالمی سطح پر تیل کی پیداوار میں اضافہ کرکے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو چیلنج کیا ہے، جنھوں نے ان سے تیل کی پیداوار میں کمی کا تقاضا کیا گیا تھا، جبکہ وہی ان کے تزویراتی اور اصلی مدافع ہیں۔ اس کی وجہ سے شہزادے نے اپنے آپ کو حقیقی خطرات سے دوچار کر لیا ہے۔ 2 اپریل کو امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر سعودیہ نے اپنی تیل کی پیداوار کم نہ کی تو وہ اس ملک سے امریکی افواج کو نکال دیں گے۔ فرانسیسی اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ محمد بن سلمان کی اس غلط ڈپلومیٹک حرکت کی وجہ سے ان کے وژن 2030ء کی ناکامی کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ نے سعودی عرب میں موجود اپنے پیٹریاٹ ڈیفنس سسٹم کو کچھ علاقوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، اگرچہ امریکی وزیر خارجہ نے اس بارے میں کہا ہے کہ اس کا تعلق تیل کی قیمتوں سے نہیں ہے، تاہم گذشتہ روز (8 مئی2020ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب سے پیٹریاٹ سسٹم نکالنے کے امریکی فیصلے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ممالک کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن ان ممالک کو ہمارا جیسے احترام کرنا چاہیئے، وہ نہیں کرتے۔ بعض مواقع پر تو وہ ہم سے خوش بھی نہیں ہوتے، لیکن اب یہ دن ختم ہو گئے ہیں، ہم ایسے قطعی اقدامات کریں گے، جو ہمارے لیے مثبت ہوں گے۔ ان ساری رپورٹوں اور صورت حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو ایک مخدوش مستقبل درپیش ہے۔
ایک طرف ملکی آمدنی میں شدید کمی، دوسری طرف بڑے بڑے منصوبوں کی بندش کے اعلانات، تیسری طرف عالمی اداروں سے قرض لینے کا اعلان اور چوتھی طرف امریکہ کی بدلتی آنکھیں، یہ سب حقائق اسی مخدوش مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ خدا جانے محمد بن سلمان کے ہاتھ میں بادشاہی آئے گی یا نہیں، لیکن اس کی ولایت عہد کا زمانہ ڈوبتے سعودی عرب کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کیا اس امر کا امکان موجود ہے کہ سعودی ولی عہد کچھ سنجیدہ اور بڑے فیصلے کرسکیں؟ یمن کی جنگ بند کرکے وہ نہ فقط یمن کے عوام پر آخرکار رحم کھا سکتے ہیں، بلکہ خود سعودی عرب پر بھی رحم کھانے کا آغاز کرسکتے ہیں۔ وہ امریکا سے اپنی امیدیں منقطع کرکے علاقے کے موثر ممالک کے ساتھ ایک نئے مستقبل کی تعمیر کا آغاز بھی کرسکتے ہیں، لیکن ان سے ایسی امیدیں باندھنا، امید کے خلاف ہی امید کہلا سکتا ہے۔