امریکی پولیس کے تشدد آمیز واقعات ہمیشہ تنقید کا باعث بنتے رہتے ہیں لیکن کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیش آنے والے بحران کے دوران ان شدت پسندانہ اقدامات پر زیادہ شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے
شیئرینگ :
امریکہ میں پولیس کی جانب سے سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب تک ان واقعات میں دسیوں سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس قسم کا تازہ ترین واقعہ ریاست منی سوٹا کے شہر میناپولس میں پیش آیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے ایک سیاہ فام شہری جارج فلوریڈ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ گرفتاری کے دوران پولیس افسر نے اپنے گھٹنے سے اس کی گردن دبا رکھی تھی۔ جارج فلوریڈ سانس رکنے کی شکایت کرتا رہا لیکن پولیس افسر کے کان پر جوں نہ رینگی اور نتیجتاً یہ سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ امریکہ اور دنیا بھر میں ہنگامہ اس وقت برپا ہو گیا جب اس واقعے کی دس منٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس افسر نے سیاہ پوست شہری کی گردن دبا رکھی ہے جبکہ دوسرا پولیس افسر اس کے قریب ہی کھڑے ہو کر تماشائی بنا رہا۔ اس افسوسناک واقعے نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اس وقت امریکہ کی دو ریاستیں منی سوٹا اور لوزیانہ شدید عوامی احتجاج اور شدت پسندانہ مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں۔
امریکہ جو خود کو جمہوری اقدار کا گہوارہ قرار دیتا ہے اور مغربی تہذیب و تمدن کی جنت تصور کیا جاتا ہے میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں بیگناہ نہتے سیاہ فام شہری کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حتی موجودہ حالات میں جب امریکہ سمیت پوری دنیا کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی کووڈ 19 وبا کی لپیٹ میں ہے اور شدید بحران صورتحال کا شکار ہے، سیاہ فام شہریوں کے خلاف سفید فام پولیس افسروں اور اہلکاروں کے یہ غیر انسانی اقدامات جاری ہیں۔ اس حالیہ واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان دس منٹس کے دوران سیاہ فام شہری کئی بار پکار پکار کر کہہ رہا ہے: "پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا، مجھے قتل مت کرو۔" اکثر ویب سائٹس نے یہ ویڈیو شائع کرتے وقت یہ وارننگ بھی لگائی ہے کہ ویڈیو دلخراش مناظر کی حامل ہے۔ اسی بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سیاہ فام شہری پر کیا گزری ہو گی۔ بعض افراد کچھ کہے بغیر ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں جبکہ بعض پولیس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تم نے تو اسے پکڑ رکھا ہے، کم از کم اسے سانس تو لینے دو۔"
امریکی پولیس کے تشدد آمیز واقعات ہمیشہ تنقید کا باعث بنتے رہتے ہیں لیکن کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیش آنے والے بحران کے دوران ان شدت پسندانہ اقدامات پر زیادہ شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کووڈ 19 کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک امریکی تحقیقاتی ادارے ایپی ام کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت سفید فام شہریوں سے 6 یا 7 گنا زیادہ ہے۔ ان اعداد و ارقام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حتی صحت کے مراکز بھی نسلی بنیادوں پر امتیازی رویوں کا شکار ہیں۔ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں کووڈ 19 وبا کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے چھ گنا زیادہ ہے جبکہ دیگر دو امریکی ریاستوں یعنی مچیگن اور میسوری میں یہ فرق پانچ گنا ہے۔ اسی طرح امریکی ریاست نیویارک جہاں سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا میں سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت تین گنا زیادہ ہے۔ ایلی نوئے اور لوئیزیانا میں بھی یہ فرقی تین گنا ہے۔
میناپولس سٹی پولیس کے ترجمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سیاہ فام شہری پر جعلی دستاویزات تیار کرنے کا الزام تھا۔ جب پولیس اسے پکڑنے گئی تو اس نے آگے سے مزاحمت کی کوشش کی جس پر پولیس افسر نے اسے دبوچ لیا۔ کچھ دیر بعد پولیس افسر نے اچانک محسوس کیا کہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے پیش نظر واضح ہے کہ امریکی پولیس واقعے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ چند امریکی ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے شدت پسندی کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ میناپولس میں ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں ایسے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "میں سانس نہیں لے پا رہا"۔ یاد رہے 6 ماہ پہلے بھی امریکی پولیس نے ایک سیاہ فام شہری ایرک گارنر کو اسی انداز میں گلا دبا کر ہلاک کر دیا تھا۔ اتفاق سے اس واقعے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں واضح طور پر سنا جا سکتا تھا کہ ایرک گارنر بار بار یہی جملہ دہرا رہا تھا "میں سانس نہیں لے پا رہا"۔